خبرنامہ

فلاحی منزل کی جانب حکومت کی پیش رفت۔۔۔اسداللہ غالب

کون تصور کرسکتا تھا کہ تیل کی قیمتیں بھی کم ہو سکتی ہیں، ہمارے پڑوس میں بھارت نے بھی پٹرول کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی تصور کر رکھا ہے۔آخر حکومتوں نے اپنے اخراجات بھی کہیں سے تو پورے کرنے ہوتے ہیں، ہم کہتے تو ہیں کہ حکومت ہمارے ٹیکسوں سے چلتی ہے مگر ذرا ٹیکس دہندگان کی ڈائریکٹری پر نظر دوڑا لیجئے، ہر کوئی ٹیکس سے پہلو بچانے کی دوڑ میں مصروف ہے۔اس عالم میں حکومت بھی اپنا داؤ استعما ل کرتی ہے، بالواسطہ ٹیکس یا پھر بجلی ، پٹرول ، گیس وغیرہ سے لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکلوانا حکومت کی مہارت خیال کی جاتی ہے۔
مگر اس ماہ تو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے حیران ہی کر دیا، اکٹھی آٹھ روپے کی کمی، پٹرول کی قیمت یوں پھسلی جیسے سانپ سیڑھی کے کھیل میں اناڑی کھلاڑی کے ساتھ ہوتا ہے۔
اصل میں ملکی خزانہ بھرا ہو اہے۔ وزیر خزانہ اسحا ق ڈار نے جیسے تیسے کر کے ڈالروں کا ڈھیر لگا دیا ہے۔پنجاب میں اورنج ٹرین کا نقشہ ابھر رہاہے، کہیں کوئلے سے بجلی کے منصوبے، کہیں ونڈ پاور، کہیں سولر انرجی، کہیں موٹرویز اور کہیں سی پیک، کوئی ایک منصوبہ ہو تو اس کا ذکر کیا جائے،اب تو وزیر اعظم بھی سارے منصو بے ایک سانس میں نہیں گنوا سکتے۔اب جھگڑا صرف یہ ہے کہ فلاں منصوبہ فلاں صوبے سے کیوں نہیں گزرتا۔کوئی یہی نہیں کہتا کہ منصوبے کاغذی ہیں ، یہ کاغذی ہوتے تو جھگڑا کھڑا نہ ہوتا۔ خیبر پی کے، سندھ اور بلوچستان صرف یہ کہتے ہیں کہ ا نہیں بھی ان منصوبوں کا پھل کھانے کو ملے۔ یہ ہے حکومت کے بارے میں لوگوں کی سوچ میں بنیادی تبدیلی۔
ادھر پٹرول کی قیمتوں میں کمی ہوئی، ادھر بجلی کے نرخ کم کرنے کی سفارشات حکومت کی میز پر پہنچ گئیں۔اب یہ علم نہیں کہ یہ گھریلو صارفین کے لئے ہے یا صنعتی اور کاروباری صارفین کے لئے ۔بجلی کے محکمے میں میرے ایک عزیز کی حال ہی میں ترقی ہوئی ہے، میں نے کہا کہ اس ترقی کی کوئی وجہ بھی ہے، کہنے لگے کہ پچھلے دو برسوں میں انہوں نے لاہور کے گرڈ اور ترسیلی نظام میں اتنی بڑی تبدیلی کر دی ہے کہ جیسے ہی نئی بجلی پیدا ہو گی تو شہر میں بجلی کا ترسیلی نظام پندرہ سومیگا واٹ کے اضافی بوجھ کو سہار سکتا ہے۔میں نے پوچھا کہ مستقبل میں کوئی بڑی منصوبہ بندی ، انہوں نے بتایا کہ دو ہیوی لائنیں ملک کے آر پار بچھانے کی منظوری دی جا چکی ہے جس سے پورا ملک بجلی کے نئے منصوبوں سے بہرہ مند ہو سکے گا۔یہ بیان کسی سرکاری اہل کار کا نہیں، اور اس میں رتی بھرمبالغہ بھی نہیں، اس لئے کہ یہ سب کچھ میرے انتہائی قریبی عزیز کی گواہی ہے جس نے گرڈ سسٹم ا ور ترسیلی نظام کو جدید بنانے میں دن رات ایک کئے رکھا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جو دعوے کئے جا رہے ہیں کہ اگلے دو برسوں میں بجلی کی قلت پر قابو پا لیں گے تو ایسا ہونا اب ممکن دکھائی دیتا ہے، اس سے لوگوں کا حکومت پر اعتماد بڑھ رہا ہے اور اگلے الیکشنوں میں یقینی طور پرا سے فائدہ مل سکے گا۔
میں نے مریم نواز کے تعلیمی عزائم کی بات کی تھی، اب محترمہ کے ہیلتھ منصوبوں کی تفصیلات سامنے �آئی ہیں تو ان سے میرے جیسے حکومتی نقادوں کودانتوں تلے انگلیاں دبانا پڑی ہیں۔ کہاں یہ کہا جارہا تھا کہ حکومت کی ہر سطح پر لوٹ مار جاری ہے اور کہاں یہ عقدہ کھلا کہ حکومت نے بڑی خاموشی سے منصوبہ بندی جاری رکھی ا ور اب اپنے مخالفین کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔
مریم نوا زہیلتھ پروگرام کوئی مثالی نہ بھی ہو تو شروعات اچھی ہیں۔اصل منزل یہ ہونی چاہئے کہ سرکاری طور پر ہرمریض کا علاج کیا جائے، کسی کو نجی ہسپتال میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو، اس وقت تو ہر ہسپتال سے لاش ہی ملتی ہے، خواہ آپ لاکھوں روپے خرچ کر لیں یادوادارو کے لئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں ۔مریم نوا زنے اگرا صلاح احوال کا بیڑہ اٹھایا ہے تو وہ بنیادی صحت مراکز تک علاج کی ا علی مہارت کو یقینی بنائیں، ہمارے ڈاکٹروں کو بھی خدا کا خوف ہوناچاہئے کہ وہ مریض کو نجی ہسپتال میں دو نوں ہاتھوں سے لوٹنا بندکردیں اور اپنی حق حلال کی تنخواہ میں سرکاری ہسپتال کے مریضوں کو شفایاب کرنے پر توجہ دیں، سب کچھ مریم نواز نے نہیں کرنا۔کچھ فرائض ا س معاشرے کے افراد کے بھی ہیں۔ جن میں ڈاکٹر سر فہرست ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کی اپوزیشن نے حکومت کی بڑی مدد کی ہے، ہر روز کی تنقید سے بچنے کے لئے حکومت کو کچھ کرنے پر مجبور کر دیا ہے، ہر ملک کی اپوزیشن اپنی حکومت کی ا سی طرح مدد کرتی ہے مگر ہمارے ہاں سیاسی مخالفین نے دھرنوں کی ٹھان رکھی ہے، ملین مارچ سے کم کا کوئی پروگرام نہیں بنتا، سڑکیں بند، مارکیٹیں بند، ایک بار وزیر اعظم کو کہنا پڑا کہ مکھی یا مچھر بھی مر جائے تو کراچی کو بند کر دیا جاتا ہے، ان کے بیان پر جی بھر کے تنقید تو کی گئی مگر سیاسی مخالفین کو بھی مجبور ہونا پڑا کہ وہ صحت مند تنقید تک محدود رہیں۔
پچھلے دنوں نیب کے بارے میں وزیرا عظم کے بیان پر بہت لے دے ہوئی مگر آفرین ہے میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی خیبر پی کے حکومت نے تو اپنے نیب سربراہ کا اس قدر ناطقہ بند کیا کہ اس بے چارے کومستعفی ہونا پڑا مگر کسی نے پشاور کی حکومت کو ہدف تنقید نہ بنایا جیسے اسے نیب کا گلا گھونٹنے کاخدائی اختیار حاصل ہو ، دوسری طرف وزیر اعظم نے نیب کی صرف سرزنش کی تو مجھ سمیت ہر کسی نے لنگر لنگوٹ کس کر حکومت کے خلاف میدان لگا لیا۔
وزیر اعظم پر ہر تنقید کی جا سکتی ہے مگر وہ ملک کے اصولوں کو پس پشت نہیں ڈالتے اور آئین ا ور قانون کی فرمانروائی کو قائم رکھتے ہیں۔اس کی پہلی مثال انہوں نے کویت پر عراقی قبضے کے دوارن قائم کی جب سار املک صدام کے حق میں جلوس نکال رہا تھا اور ملک کا آ رمی چیف بھی نئی کربلا سے خوفزدہ کر رہا تھا مگر نواز شریف نے اس اصول کو سربلند رکھا کہ آج عراق کو کویت پر قبضے کی اجازت دیں گے تو کل کو کشمیر پر بھارت کے قبضے کی مخالفت کس منہ سے کریں گے۔
یہی وزیر اعظم اب بھی آئینی، قانونی، اصولی باتوں پر عوامی رد عمل سے خائف نہیں ہیں۔ انہوں نے اگرچہ شروع میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمائت کی مگر جب خونریزی حد سے بڑھ گئی تو پھر وہ ڈٹ گئے ا ور ضرب عضب ا ور نیشنل ایکشن پلان کے علم بردار بن گئے۔اس سے پیچھے ہٹنے کے لئے وہ آج بھی تیار نظر نہیں آتے۔