خبرنامہ

فلاح انسانیت کا ایمان افروز کردار , اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

فلاح انسانیت کا ایمان افرو زکردار

فلاح انسانیت فائونڈیشن کے کام کا میدا ن بہت وسیع وعریض ہے۔ بنیادی سطح پر انسان کو درپیش تقریباً تمام مسائل کا حل اس کے پیش نظر ہے۔ ہسپتالوں، ڈسپنسریوں، بلڈبینک کا قیام۔ فلٹر کلینک، میڈیکل اور فرسٹ ایڈ سنٹر۔ جیلوں میں اور پبلک مقامات پر فری میڈیکل وسرجیکل کیمپنگ، وبائی امراض کے تدارک کے لئے طبی کوششیں، سیو آئی ویژن پروگرام، ہیپاٹائٹس فری پروگرام، ہسپتالوں میں مریضوں کی رہنمائی اور ویکسی نیشین مہم، میڈیکل اینڈ ہیلتھ کیئر پروفیشنلز، ایمبولینس سروسز، بلڈڈونر سوسائٹی، عیادت کمیٹی، واٹر پراجیکٹ، ہنگامی امداد کی فراہمی، قربانی پراجیکٹ، واٹر ریسکیو سروسز، انسداد برائے منشیات مہم، امدادی پروگرام برائے خصوصی افراد، ٹیکنیکل کورسز، امدادی پروگرام برائے اسیران، فراہمی لباس پروگرام، مظلوموں مجبوروں محروموں کی دادرسی، افطار الصائم، روشن بلوچستان پروگرام، متاثرین وزیرستان، متاثرین تھرپارکر، بین الاقوامی خدمات، بوٹ سروسز، میڈیکل و ایجوکیشنل کمپلیکس، دعوت و اصلاح اور تعمیر مساجد پروگرام۔ ان تمام شعبہ جات میںفلاح انسانیت فائونڈیشن شب و روز مصروف عمل ہے۔ اس وقت فلاح انسانیت کے زیراہتمام مختلف شہروں میں جدید آلات سے آراستہ سات بڑے ہسپتال، 176 فری ڈسپنسریز، 278 ایمبولینسز اور 66890 بلڈ ڈونرز سوسائٹیاں کام کررہی ہیں جن سے ہرماہ ہزاروں لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ گذشتہ سال 3541 جنرل کیمپ 110 سرجیکل کیمپس لگائے جاچکے ہیں جن میں اب تک 1360688 مریضوں کا علاج کیا گیا ہے۔
دریائوں اور نہروں میں نہانے والے بعض لوگ ڈوب جاتے اور گاڑیاں نہروں میںگر جاتی ہیں سیلاب کے موقع پر ہزاروں لاکھوں لوگ پانی میں محصور ہوجاتے ہیں سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانے اور ان تک خوراک پہنچانے کے لئے ہمیشہ فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ دریا یا نہر میں ڈوب کر شہید ہونے والے کی لاش نکالنے کے لئے بھی فوج کے غوطہ خور طلب کرنے پڑتے ہیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن… پاکستان کی واحد این جی او ہے جس نے اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے واٹر ریسیکو سنٹر قائم کئے ہیں۔ حالیہ چند ماہ میں واٹر ریسکیو کی 198 ورکشاپس، 362 ریسکیوآپریشن ہوچکے ہیں جبکہ 89 نئے ریسکیو سنیٹرز قائم کئے گئے ہیں۔ حال ہی میں واپڈا ٹائون لاہور میں جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ’’ریسکو اینڈ سیفٹی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ‘‘ قائم کیا گیا ہے۔
بلوچستان۔ پاکستان کا سلگتا ایشو رہا ہے۔ پنجاب کے لوگوں کو وہاں چن چن کر مارا جارہا تھا۔ ان حالات میں ایف آئی ایف کے رضاکار بلوچستان میں کام کرنے کے لئے پہنچے۔ ایف آئی ایف کے چئیرمین حافظ عبد الرئوف بتاتے ہیں کہ ابتدا میں ہمیں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔کہا گیا تم پنجابی ہو یہاں سے نکل جائو، نہیں چاہئے ہمیں تمہاری امداد۔ ہم نے سب کی باتیں صبر وتحمل سے سنیں، سخت جملے کہنے والوں کے لئے دعائیں کیںہم نے انہیں کہا ’’پنجابی بلوچی سے پہلے ہمارا تمہارادین کا رشتہ ہے جو باقی تمام رشتوں سے مضبوط اور افضل ہے ہم اسی رشتے کے ناطے تمہارے پاس آئے ہیں۔‘‘ جب ہم بلوچی بھائیوں سے یہ باتیں کرتے تو ان کے دل نرم پڑ جاتے پھر وہ ہمیں سینوں سے لگاتے اور اپنے گھروں کے دروازے ہمارے لئے کھول دیتے۔ پھر ہم انہیں پنجابی بھائیوں کی طرف سے بھیجے جانے والے تحائف اورامدادی سامان پیش کرتے۔ ان کے لئے کنویں کھودے، ہینڈ پمپ اور سولر پمپ لگائے۔ وہاں مختلف موقع پر آنے والے سیلاب اور زلزلوں میں لوگوں کی مدد کی، زخمیوں کو کندھوں پر اٹھا اٹھا کر ہسپتالوں میں پہنچایا۔ بلوچستان میں آج بھی بہت سے اضلاع کے لوگوں نے ڈاکٹر نہیں دیکھا۔ 80 فیصد لوگ زراعت، کاروبار، انڈسٹری اور منڈیوں سے ناآشنا ہیں۔ تعلیمی پسماندگی انتہا پر ہے۔ پسنی، تربت اور دیگر اضلاع میں ایسی غربت ہے کہ جس کی مثال دنیا کا کوئی دوسرا خطہ پیش نہیں کرسکتا، گرمی انتہا درجے کی اور پینے کا پانی ندارد ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن نے بلوچی بھائیوں کے لئے ’’روشن بلوچستان‘‘ کے نام سے کئی پروگرام شروع کئے ہیں۔ 10,8 سالوںسے بلوچستان مسلسل قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ ایف آئی ایف کے رضاکار ہر مصیبت کے وقت اپنے بلوچی بھائیوں کی مدد کے لئے پہنچتے ہیں۔ کوئٹہ، جعفر آباد اور دیگر اضلاع میں ایمبولینس سروس شروع ہو چکی ہے۔ زوب، چمن، خضدار، پشین، زیارت، خاران، پنجگور، پسنی، گوادر اور قلات میں ’’اسلامی فلاحی کمپلیکس‘‘ کے منصوبوں پر تیزی سے کام جارہی ہے۔ وقتاً فوقتاً میڈیکل، سرجیکل اور آئی کیمپ لگائے جاتے ہیںجن میں لوگوں کو مفت طبی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ سال 2016ء رمضان المبارک میںروزانہ ایک لاکھ افراد کے لئے سحر و افطار کا بندوبست کیا گیا تھا امسال بھی یہ روایت قائم ہے اور رمضان شروع ہونے سے چند دن پہلے بلوچستان اور تھرپارکر کے دو ہزار خاندانوں کے لئے ساٹھ لاکھ مالیت کا رمضان پیکیج بھیجا گیا ہے۔
ایف آئی ایف کا دائرہ کار صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ بیرون ملک بھی جہاں مسلمان اغیارکے نشانہ ظلم کاشکارہیں، وہاں سحر و افطار پیکیج کا انتظام کیا جاتا ہے علاوہ ازیں بارہ ممالک میں قربانی کی گئی جس کا گوشت سترہ لاکھ افراد تک پہنچایا گیا۔
عیدین اور رمضان المبارک کے موقع پر راشن، کپڑے اور قربانی کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔ بہت سے اضلاع میں کنویں کھودے گئے اور ہینڈ پمپ لگائے گئے ہیں۔ بلوچستان میں خود کفالت پروگرام کے تحت 10 ہزار خاندانوں کو 10 ہزار بکریاں دینے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میںایک سوسکول، ایک ہزار کنویں، پچاس کنویںاورمزید نوے ایمبولینس لانچ کرنے کا پروگرام ہے۔ اس طرح ایف آئی ایف کی کوششوں کے نتیجہ میں بلوچی بھائیوں کے دلوں کو اللہ نے پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا اور دشمن کی سازشیں ناکام ہوگئیں۔ راجہ ظفر الحق پاکستان کی معروف اور نہایت ہی قابل احترام شخصیت ہیں۔ اسلام آباد میں پروگرام تھا اس میں محترم راجہ ظفرالحق نے کہا ’’میں سلام پیش کرتا ہوں فلاح انسانیت فائونڈیشن کو اور پروفیسر حافظ محمد سعید کو جن کی شبانہ روز محنت کے نتیجہ میں بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ گئیں اور دشمن کی سازشیں ناکام ہوگئیں۔
تھرپارکر میں بھی صورت حال بہت سنگین ہے وہاں کی ابتر صورت حال کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ کتے، گدھے اور انسان ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں۔ گذشتہ چھ سالوں سے بارش نہیں ہوئی جس سے بدترین قحط کی کیفیت ہے۔ اسی قحط کی وجہ سے مائوں کی صحت خراب رہتی ہے۔ تھرپارکر میں نومولود بچوںکے مرنے کی خبریں اکثر اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔ بچوں کے مرنے کی اصل وجہ ماں کی صحت کی خرابی ہے۔ وہاں حاملہ ماں کا اوسطاً وزن 35,38 کلو گرام ہے جس کا نتیجہ ہے کہ پیداہونے والے بچوں کا وزن ایک کلو یا دو تین کلو ہوتا ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چئیرمین کہتے ہیںکہ تھرپارکر میں ہم چودہ سال سے کام کررہے ہیں۔ اس دوران ہم نے ایک ہزار کے قریب پانی کے منصوبے مکمل کئے ہیں، ان منصوبوں میں کنویں، ہینڈ پمپ اور سولر پمپ شامل ہیں۔ پہلے جو عورت کئی مٹکے سر پر اٹھا کر پانچ پانچ میل دور سے ننگے پائوں پانی لانے پر مجبور تھی آج الحمد للہ اس کے گھر کے سامنے ہینڈ پمپ ہے یا پانی کا کنواں ہے۔ جو لوگ پہلے گندا کھارا پانی پیتے تھے اب انہیں میٹھا اور صحت بخش پانی اپنے گھر کے دروازے کے سامنے پینے کے لئے مل رہا ہے۔ وہاں پانی بہت زیادہ گہرائی میں ہے اس لئے ایک کنواں کھودنے پر چار چار لاکھ روپیہ خرچ ہوتا ہے، اس کے علاوہ کنوئوں کے اندر موٹریں لگا کر گھرگھر پانی سپلائی کیا جارہا ہے وہاں کے مرد و خواتین کے لئے یہ بالکل نئی چیزیںوہ ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پانی ان کے گھر تک کس طرح پہنچ رہا ہے، ایک طرف ان کی سادگی کا یہ عالم ہے تو دوسری طرف ان کے لبوں پر دعائیں ہیں، وہ خوش ہیں، ہاتھ اٹھا اٹھا کر صبح وشام اور دن رات ان لوگوں کو دعائیں دیتے ہیں جن کے تعاون، کوشش اور محنت سے پانی جیسی نعمت ان کے گھروں کی دہلیز تک پہنچی ہے۔ اس کے علاوہ غربت کے خاتمے اور لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑاکرنے کے لئے ہم نے یہ پروگرام بنایا ہے کہ جس آدمی کے پاس دس ایکڑ زمین ہے اور وہ اپنی زمین آباد کرنا چاہتا ہے تو اسے ٹیوب ویل لگا کر دیا جائے گا تاکہ اسے گھر بیٹھے باعزت اور مستقل روز گار مل سکے۔ حافظ عبدالرئوف کہتے ہیں کہ تھرپارکرجس قدر خشک سالی کا شکار ہے ہم یہاں اتنی ہی محنت کررہے ہیں ہم نے ’’سرسبز تھرپارکر‘‘ کے عنوان سے ایک انقلابی پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت تھرپارکر کے صحراکوسرسبزوشاداب کرنے کا ہے۔
پانی کی طرح وہاں گھریلو جانور جیسے بکری وغیرہ کی بھی بہت اہمیت ہے اور اسے بہت بڑی نعمت سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم بیوہ خواتین اور انتہائی غریب لوگوں میں دو دو تین تین بکریاں تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ خود دودھ پئیں، بچوں کو پلائیں اور اپنا روزگار چلائیں تاکہ غربت ختم ہو۔تھرپارکر میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہمارابہت بڑا فوکس ہے۔ اس وقت تھرپارکر مٹھی میں ہمارا ایک سکول ہے اسی طرح ایک سلام پور میں سکول زیر تعمیر ہے۔ فروغ تعلیم کے لئے ہم نے ہرگوٹھ میں۔ ’’ایک جھونپڑا۔ ایک ٹیچر‘‘ کا عظیم الشان پراجیکٹ شروع کیا ہے اس پراجیکٹ کے تحت ٹیچر جہاں بچوں کو سکول کی تعلیم دے گا وہاں وہ بچوں کو قرآن مجید پڑھائے گا، نماز سکھائے گا اور دین کی تعلیم بھی دے گا۔ اس وقت ہمارے اس طرح کے 17 سکول بچوں کو دین ودنیا کے علم سے آراستہ کرکے ملک کا مفید شہری بنانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ سکولوں اور پانی کے پراجیکٹس کی تعمیر کے ساتھ مساجد کی تعمیر کا کام بھی کر رہے ہیں۔
جب بات خدمت انسانیت کی ہو تو اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی۔ اسلام صرف مسلمانوں کے لئے نہیں انسانیت کے لئے ہے۔ رسول اللہؐ رحمۃاللعالمین تھے، یہی وجہ ہے کہ تھرپارکر میں ہم مسلم و غیر مسلم کی تخصیص و تمیز کے بغیر سب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہمارے آدھے سے زیادہ کنویں ان آبادیوں میں ہیں جہاںصرف ہندو ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہندو بھی پاکستان کے باعزت شہری ہیں، اگر یہ کسی مشکل یا پریشانی میں ہوں تو ان کی خدمت کرنا ہمارافرض ہے اور جب تک جان میں جان ہے ان شاء اللہ ہم اپنا یہ فرض ادا کرتے رہیں گے۔
فلاح انسانیت کے کام کا دائرہ عمل صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے خطوں میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کام کررہی ہے یہ اس لئے کہ پوری دنیا کے مسلمان جسد واحد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے مظلوم اور مصیبت زدہ مسلمانوں کی مقدور بھر مدد کررہے ہیں۔ ایک مدد وہ ہے جو ہم نے ایران، انڈونیشیا کے زلزلہ اور سونامی کے موقع پر کی دوسری مدد وہ ہے جو ہم مستقل بنیادوں پر کر رہے ہیں جیسے شام، افغانستان، برما، صومالیہ، غزہ سمیت سترہ ممالک میں ہے۔
یہ ایک مختصر خاکہ ان خدمات کا جو مسلم ا ور غیر مسلم کی تمیز کئے بغیر محض انسانی بنیادوں پر انجام دی جا رہی ہیں۔ کیا اس پر آپ کے دل سے بھی دعا نہیں نکلتی۔

یہ بھی پڑھئے.. بابر اعوان پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں‌شامل