خبرنامہ

فلسطین کے شہیدوں کا ماتم…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

فلسطین کے شہیدوں کا ماتم…اسد اللہ غالب

ہم روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے رو رہے تھے۔ بنگلہ دیش کے مظلوم پاکستانیوں کے لئے کراہ رہے تھے اور شام میں قتل عام پر رو رہے تھے، شام اور بنگلہ دیش میں مسلمان ہی مسلمان کو مار رہے ہیں مگر برما اور اب اسرائیل میں غیر مسلموں نے خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ہم لیبیا اور مصر کے لئے نہیں روئے ، معمر قذافی ہمارا ہیرو تھا ، ناصر ، سادات اور حسنی مبارک کو ہم سے کوئی بیر نہیں تھا مگر امریکی پروپیگنڈہ مشینری نے عرب بہار کا چرچا کیا اور خوش خبری سُنائی کہ مسلمانوں کو ان کے جابر حکمرانوں سے نجات دلوا دی گئی ہے۔ معمر قذافی کو ایک نیٹو طیارے سے داغے جانے والے میزائل سے شہید کیا گیا۔ عرب بہار کا دوسرا جھکڑ مصر میں چلا مگر یہ بہار جلد ہی خزاں میں تبدیل ہو گئی، عوام کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ وزیر اعظم مرسی کو حوالہ زنداں کر دیا گیا اور مصری فوج کے جرنیل السیسی نے حکومت پر قبضہ جما لیا۔ امریکی پروپیگنڈہ مشینری نے اس تبدیلی کو بھی عرب بہار ہی کا جاں فزا جھونکا قرار دیا۔ مگر یہ جو فلسطین میں ہو رہا ہے یہ بھی امریکہ ہی کی شہہ پر ہو رہا ہے۔صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کیا کہ ایک فساد برپا ہو گیا۔اس نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے اُٹھا کر مسلمانوںکے قبلہ اول القدس میں لے جائے گا۔ اس پر فسادات پھوٹ پڑے۔ ایک دنیا امریکی اقدم کے خلاف تھی اقوام متحدہ نے بھی بھاری اکثریت سے امریکی ارادوں کی مذمت کی ، امریکہ کو صرف نو ووٹ مل سکے تھے۔ امریکہ تو اپنے خلاف ووٹ دینے والوں کا ناطقہ بند کر رہا ہے، مگر اسرائیل نے فلسطینیوں سے انتقام لینے کی ٹھانی ہے۔ ارض فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ستر برس ہو گئے، ہزاروں فلسطینی مردو زن ، جوان اور بچے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے۔ اسرائیل اس موقع کی تلاش میں تھا، اس نے مظاہرین پر ٹینکوں سے گولہ باری کی۔ یہ مظاہریں نہتے تھے، ان پر ڈرون طیاروں سے آنسو گیس پھینکی گئی اور ماہر نشانہ بازوں نے سرگرم فلسطینی نوجوانوں کو ایک گولی سے ٹھنڈا کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو درجن سے زیادہ لاشیں بکھر گئیں اور پچیس ہزار شدید زخمی تڑپ رہے ہیں، ان کی مرہم پٹی کرنے والا کوئی نہیں۔
نوے سال قبل فلسطین ایک آزاد ملک تھا۔ مگر عالمی سازش تیار ہوئی اور دنیا بھر کے یہودیوں نے ایک منظم سازش کے تحت فلسطین کا رُخ کیا، غریب فلسطینیوں سے ان کی زمینیں خریدیں، ان کی دکانیں خریدیں اور پھر گھر بار خریدے اور فلسطینیوںکو دھکیل کر اردن، شام ، مصر ، سوڈان ا ور لیبیا جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ فلسطینیوں کی تیسری نسل مہاجر کیمپوںمیں گل سڑ رہی ہے۔ اور جو باقی بچے ہیں ، وہ آئے روز اسرائیل کی فوج کے ستم کا نشانہ بن رہے ہیں، ہمسایہ عرب ممالک نے ہر چند فلسطینیوں کی مدد کے لئے اسرائیل سے جنگ کی ٹھانی، اردن ، شام، مصر اور لبنان نے اسرائیل سے کئی جنگیں لڑیں مگر عربوں کا کچھ بس نہ چلا کیونکہ اسرائیل کی پشت پر امریکہ کھڑا تھا اور بڑے خلوص اور بڑی دل جمعی کے ساتھ کھڑا تھا، وہ صلیبی جنگوں کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ عربوں نے ہر جنگ میں اپنے علاقوں سے ہاتھ دھویا۔ اردن بے چارہ غرب اردن دے بیٹھا۔ شام سے جولان کی پہاڑیاں چھن گئیں، مصر نے سینائی کا بڑا حصہ گنوا دیا۔ اور لبنان تو اسرائیل کی دہشت گردی سے بار بار تار تار ہوتا رہا ، اسرائیل امریکی پشت پناہی کی وجہ سے شیر کی طرح دھاڑتا رہا اوراس نے نہتے فلسطینیوں کے خلاف بر بریت کی انتہا کر دی ، عربوں کے سامنے اسرائیلی ٹینک ہوتے تھے اور فلسطینی نوجوانوں کے ہاتھ میں پتھر اور کنکر، اسرائیل اس مزاحمت کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھا ،ا سنے فلسطینیوں کی پٹائی جاری رکھی، ان کے علاقے چھیننے کی انتہا کر دی اور اب غزہ اور غرب اردن کے دو علاقوں پر فلسطینی ریاست سکڑ کر رہ گئی ہے۔اس کو بھی آزادی ا ور خود مختاری نہیں دی جا رہی۔
ستر برس کی محکومی تھوڑا عرصہ نہیں ہوتی، سووی¿ت روس بھی وسط ایشیا کی ریاستوں پر ستر برس تک ہی قابض رہ سکا تھا کہ اس کے حصے بخرے ہو گئے اور وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کو آزادی مل گئی مگر فلسطینیوں اور کشمیریوں کی ستر برس کی محکومی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے کہ دونوں مل کر کشمیریوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا مذموم سلسلہ جاری رکھیں گے۔ صد افسوس! کہ عالم اسلام کی تنظیم او آئی سی کہیں سو رہی ہے، کہنے کو عرب لیگ بھی ہے، ایک خلیجی تعاون کونسل بھی ہے اور اب دو درجن سے زائد مسلم ممالک نے فوجی ا تحاد بھی قائم کیا ہے جس کے سربراہ ہمارے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں مگر کیا مجال کہ ان تنظیموں اور اتحادوں کے ایجنڈے پر کبھی فلسطین اور کشمیر یا روہنگیا کے مسلمانوں کی مظلومیت کا مسئلہ زیر بحث ہی آیا ہو۔ مسلمانوں کی اسی بے عملی اور بد اتفاقی کا فائدہ اسرائیل اور بھارت اُٹھا رہا ہے اور اب برما کی جمہوریت پسند حکمران آنگ سو چی بھی عالمی درندوں کا ساتھ دے رہی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمان دوسرے مسلم ملکوں کے المیے پر تڑپ اٹھتے تھے، ہم نے تحریک خلافت شروع کی اور بولی اماں محمد علی کی کہ جان بیٹا خلافت پہ دے دو کے نعروں سے ہندوستان گونج اُٹھا تھا مگر اب مسلم ممالک کو ان کی اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ، ہم نے فلسطین کے فساد پر کیا قابو پانا ہے، ہم تو اپنے ہاں ہی ردالفساد سے نمٹ رہے ہیں، افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج موجود ہیں جو ارد گرد کے کسی مسلم ملک سے حق کی آواز اُٹھنے ہی نہیں دیتیں۔ ہم چین پر حد سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں مگر چین کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنتا اور نہ بنے گا۔ سی پیک کے علاوہ اس نے پانچ متبادل روٹ اور بھی سوچ رکھے ہیں جن میں سے ایک برما کا روٹ بھی ہے اور اس روٹ میں روہنگیا کا علاقہ اراکان آتا ہے جہاں مسلمانوں کی مزاحمت کو کچلنا چین کی پالیسی کا حصہ ہے ، اس نے روہنگیا کے مسلمانوں کے لئے آواز نہیں اٹھائی ، نہ اٹھائے گا، وہ تو پاکستان میں چینی مسلمان مزاحمتی لیڈروں کا بھی صفایا چاہتا ہے ا ور ہم بڑی تابع داری سے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں جب ہم خود اپنے خلاف اقدامات کر رہے ہیں تو ہمارے دشمن کیوںنہ ہمیں دل کھول کر ماریں گے، وہ مار رہے ہیں اور لاشوں کے ڈھیر لگا رہے ہیں،کشمیر میں تو روزانہ لاشیں گرتی ہیں، بنگلہ دیش میں مسلمانوں کو پھانسیاں ملتی ہیں، روہنگیا میں مسلمانوں کو اس قدر اذیت کا سامنا ہے کہ وہ جان بچانے کے لئے پاکستان، بنگلہ دیش، تھائی لینڈا ور ملائیشیا تک ہجرت کر گئے ہیں۔ ارض فلسطین میں جو کچھ گزشتہ روز ہوا، وہ انسانیت کے نام پر دھبہ ہے، اقوام متحدہ کے منہ پر تھپڑ ہے، بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے مگر ہم عام مسلمان صرف دل ہی دل میں تڑپ سکتے ہیں، ہمارے لیڈروں کو اپنی لڑائیوں سے فرصت نہیں، ہم دوست مسلم بھائیوں کی کیا مد د کریں گے، آہ یہ !بے بسی اور کیسی بے بسی!