خبرنامہ

فوجی بغاوت ترکی میں ہوئی، پاکستان میں نہیں۔۔اسداللہ غالب

جو ملک کشمیر کے یوم الحاق پاکستان کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کرے،وہ ترکی میں فوجی بغاوت کو پاکستان میں بغاوت سمجھ لے توا س پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ہاں ، صرف سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے، کیا ستم ہے اور کیا بد قسمتی ہے کہ وفاقی کابینہ میں وزیر اعظم سمیت کوئی وزیر، مشیر بھی کشمیر کی تاریخ سے آگاہ نہیں۔خدا سے سوال ہے کہ ہمیں کن گناہوں کی سزا مل رہی ہے کہ میرے کشمیر کے یوم الحاق پاکستان کو یوم سیاہ میں بدل ڈلا۔جس کابینہ کو یہ تک نہیں پتہ، اسے کیا پتہ کہ کشمیر کا کیس کیا ہے،ا سے کیا پتہ کہ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کیوں قرار دیا تھا،ا سے کیا پتہ کہ آزادی اور تقسیم کا فارمولہ کیا تھا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر سڑسٹھ برس سے جھگڑا کیوں چل رہا ہے، سلامتی کونسل میں کون گیا اور وہاں سے کیا قراردادیں منظور کی گئیں، ان قراردادوں کا علم ہو گا تو ان پر عمل درآمد کروانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔اسی کابینہ میں جدید تریں ٹیکنالوجی کی وزیر صاحبہ کے منہ سے نکلا : پاکستانی مقبوضہ کشمیرPOK، ہم بے بس عوام انا للہ پڑھیں یا لاحول پھونکیں۔
اب ایک بغاوت ترکی میں ہوئی، اور ناکام ہو گئی، مگراس پر شادیانے ہم بجا رہے ہیں۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ ترکٰی کے بہادر عوام کا عزم قابل تعریف ہے۔ترک عوام کا عزم تو قابل تعریف ٹھہرا لیکن مدینہ میں مسجد نبوی کے سامنے دہشت گردی کے باوجود تراویح کی نماز ادا کرنے والوں کے والہانہ عزم اور عشق کی تعریف اور توصیف تو کسی نے نہیں کی۔ نہ کسی نے سعودی عرب سے اظہار یک جہتی کیا۔ جدہ میں ایک پاکستانی نے دہشت گردی کا ارتکاب کیا،ا س شخص کی کسی نے مذمت نہیں کی ا ور نہ اس کا کچا چٹھا کھولا گیا کہ وہ پاکستان کے کس بدنصیب گھرانے میں پیدا ہوا، کہاں پلا بڑھا، ممبئی میں اجمل قصاب کا نام آیا تو ہمارا سارا میڈیا اجمل قصاب کے نام نہاد گاؤں فرید کوٹ پاک پتن جا پہنچا تھا ، کیا ہمیں ممبئی والا بھارت پیارا ہے اور حرمین شریفین والا ملک پیارا نہیں ہے۔
مریم نوا زنے بھی کہا ہے کہ ترکی نے ثابت کیا ہے کہ عوام جمہوریت کومذاق نہیں بننے دے سکتی( مذکر مؤنث اپنی جنس کے مطابق تبدیل کر کے پڑھیں ) اور وزیر اطلاعات پرویز رشید کہتے ہیں کہ ترک عوام کا مارشل لا کے خلاف اقدام قابل تعریف ہے۔ادھر ہمارے بعض ٹی وی چینلز نے بھی خصوصی نشریات کاآغا زکر دیا اور ترکی کے فوجی انقلاب کی آڑ میں پاکستان میں مارشل لاؤں کو رگڑ دیا اور جمہوریت کا علم آسمانوں تک بلند کرنے کی کوشش کی۔
پہلی بات تو بڑی سیدھی سی ہے کہ جو واقعہ رونما ہوا ، وہ پاکستان میں نہیں ترکی میں ہوا،ا س پرجو بھی تبصرہ کرنا ہو تو اسی ملک کے پس منظر میں ہونا چاہئے، یہ نہیں ہونا چاہئے کہ روندی یاراں نو ،ناں لے لے کے بھرواں دا۔
ایک سوال یہ زیر بحث آنا چاہئے تھا کہ کیا ترکی کے عوام نے جمہوریت کو بچایا ہے یا شخصی آمریت کا تحفظ کیا ہے۔یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ ترکی میں حکومت اور جلا وطن رہنما فتح اللہ گولن کی کشکمش کیا ہے اور حالیہ واقعے میں صدرترکی کے ا س الزام میں کوئی صداقت ہے یا نہیں کہ پنسلیوینیا میں بیٹھے ہوئے امام نے اس فوجی بغاوت کی تاریں ہلائیں۔یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت تھی کہ میڈیا پر قدغن لگانے والا کس طرح جمہوریت کی علامت ہو سکتا ہے، ملکی میڈیا ہی نہیں،ا س شخص نے عالمی سطح پر مقبول تریں سوشل میڈیا کو بھی زنجیریں پہنائیں اور جب خود اسے اپنا واویلا مچانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو یہی مردود سوشل میڈیا ہی اس کے کام آیا۔صدر ترکی ایک عرصے سے انتقامی کاروائیوں میں ملوث ہیں اور یہ شوق کس طرح جمہوریت سے لگا کھاتا ہے۔
جو لوگ ترکی میں فوجی انقلاب پر بغلیں بجا رہے ہیں اور ترک عوام کو خراج عقیدت پیش کرنے مٰں پیش پیش ہیں ، وہی لوگ مصر میں فو جی انقلاب کی کامیابی پر بغلیں بجارہے تھے ا ور ایک منتخب راہنما مرسی کا تختہ الٹنے پر مصری فوج کے سربراہ کو مبارکباد دینے میں پیش پیش تھے۔ ہمارے جمہوریت پرستوں میں سے کون ہے جس نے مصر کی جمہوریت کے قتل عام پر کف افسوس کااظہار کرنے کی زحمت بھی کی ہو۔کسی نے اس امر کا تجزیہ بھی نہیں کیا کہ ایک شخص وزیرا عظم بنتا ہے تو تمام ا ختیارات اپنی ذات میں سمیٹ لیتا ہے اور صدر بنتا ہے تو اس کی کوشش ہے کہ وہ کلی اختیارا ت کا مالک بن جائے۔ کیا جمہوریت اسی شخصی اقتدار کا نام ہے۔چنگیزیت اور جمہوریت ہم معنی لفظ کب سے ہو گئے۔
جمہوریت بے حد عزیز ہونی چاہیئے کہ یہ دنیا میں سکہ رائج الوقت ہے مگر کشمیر کے سلسلے میں ہم اس جمہوریت کو فراموش کیوں کردیتے ہیں، کیا یہ جمہوریت ہے کہ بھارت نے ایک چھوٹی سی وادی میں آٹھ لاکھ فوج گھسیڑ رکھی ہے، پچھلے پچیس برس سے کشمیریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، کشمیری خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کی جا رہی ہے اور ہم نے اپنے ہونٹ سی لئے ہیں ، ہمیں نہ کشمیریوں کے لئے جمہوریت عزیز ہے، نہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کا کوئی خیال ہے۔بھارت نے اس کشمیر کے سارے دریاؤں کا پانی روک رکھا ہے، ان پر بند بنا لئے ہیں، بجلی گھر تعمیر کر لئے ہیں ، ہمارے کھیت بنجر پڑے ہیں اور ہم کسی ڈیم بنانے کی بات کرتے ہیں تو ایک و اویلا شروع ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا۔ادھر بھارت ڈیم پر ڈیم بنا رہاہے اور کشمیریوں کی لاشوں پر بنا رہا ہے۔اسے کسی کی لاش گرانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
بات ترکی پر ہو رہی تھی، ترکی ہمارے لئے ماڈل کیوں ہے،اسلئے ماڈل ہے کہ اس نے اسلام کا ڈنگ کامیابی سے نکال دیا ہے، اور ہم اس کی پیروی میں کافی پیش قدمی کرچکے ہیں۔مسجدیں گونگی ہو گئی ہیں، لاؤڈ اسپیکر کا گلا گھونٹ دی گیا ہے ۔ یہ ایک جدید دور کی ایجاد تھی،اسے ہم نے مسجد سے دور کر دیا ہے،روزے اور عید ہم ایک ساتھ مناتے ہیں اور اب آخری مرحلہ یہ ہے کہ جمعے میں سرکار کا لکھا ہوا خطبہ پڑھ دیا جائے۔اس طرح اسلام کا ڈنگ نکل جائے گا۔ باقی جو کچھ ترکی سے ہم سیکھ سکتے ہیں وہ ہے فوج کو بے وقعت کرنا، اس کا حلقہ ا ثر کم کرنا اورا س کی تحقیر کرنا۔اور آخر کار فوج کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے بر صغیر میں ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کرنا۔
ترکی سے ہمیں تازہ تازہ سیکھنے کو یہ ملا ہے کہ اگر کسی وقت فوج کوئی ایڈونچر کرے بھی تو عوام کو کس طرح ٹینکوں اور توپوں اور جیٹ طیاروں کے سامنے کھڑا کرنا ہے۔ ترکی نے اس کی کامیاب ریہرسل کی ہے۔ فوج کی مہم جوئی میں ہمیں صرف اور صرف ترکی کے تجرنے کو پیش نظر رکھنا ہے، کسی حال میں مصر کی طرف نہیں دیکھنا، جہاں جنرل السیسی مزے اڑا رہا ہے۔
جنرل راحیل کے بینروں کی بحث ذرا دب گئی تھی، اب ترکی نے موقع فراہم کیا ہے کہ ہم مارشل لا کے خلاف مزید کوئی دن دل کا بخار نکال سکیں۔ٹی وی چینلز کا تماشہ تو دیکھ لیا اور ابھی تو اخبارات چھپنے ہیں ، مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔