خبرنامہ

فوجی قیادت کی طرف سے ریاستی ا داروں کا ساتھ دینے کا عزم…اسد اللہ غالب

فوجی قیادت کی طرف سے ریاستی ا داروں کا ساتھ دینے کا عزم…اسد اللہ غالب

وج کے ایک اعلامئے کے مطابق کور کمانڈرز میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے تا کہ آئین اور قانون کی رٹ کو نافذ کیا جاسکے اور ملک کو داخلی، سیاسی، معاشی استحکام سے ہمکنار کیا جاسکے۔

پاکستان میں جب بھی کوئی نئی حکومت قائم ہوتی ہے تو اسے اپنی رٹ نافذ کرنے میں کئی ایک چیلنج درپیش ہوتے ہیں۔ پہلے تو سابقہ حکمران ہی مورچہ بندی کر لیتے ہیں ، پھر کئی قسم کے مافیاز کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ نئی حکومت پر آتے ہی رعب و دبدبہ قائم کر لیں۔ شر پسند عناصر الگ سر اٹھا لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں نئی حکومت کو ملک کے طاقت ور اداروں کی حمایت درکار ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے ایجنڈے کو پروان چڑھا سکے ا ور انتخابی مہم میں قوم اور ووٹروں سے جو وعدے کئے ہیں، ان کی تکمیل کے لئے دل جمعی سے مصروف عمل ہو سکے۔

بد قسمتی سے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بھی کئی قوتیں اکٹھی ہو گئی ہیں اور اسے ناکام بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف اور ملک کی قیادت سب سے پہلے معاشی بحران کو حل کرنے پر توجہ دے رہی ہے جس کا سبب سراسر سابقہ حکومتوں کی کرپشن اور لوٹ مار ہے۔ اعداد و شمار کی رو سے دیکھا جائے تو وزیر اعظم عمران خان کو ورثے میںایک لٹا پٹا پاکستان ملا جسے از سر نو تعمیر کرنے اور اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے لئے وہ شبانہ روز کوشاں ہیں۔ ایک طرف وہ کرپشن کا سراغ لگانے میںمصروف ہیں، دوسری طرف ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے کے لئے وہ دوست ممالک اور عالمی مالیاتی ا داروں سے رجوع کر رہے ہیں۔تیسری طرف انہیں ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور فرقہ ورانہ یک جہتی کا راستہ بھی ہموار کرنا ہے اور اس ضمن میں جو گروہ قانون کو ہاتھ میںلینے کی کوشش کرتے ہیں، ان سے بھی نمٹنا ہے۔ حال ہی میں ایک عدالتی فیصلے کے بعد ایک سنگین بحران پیداکرنے کی کوشش کی گئی اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا۔ اگرچہ وزیر اعظم اور فوجی ترجمان نے کہا تو یہی تھا کہ وہ اس بحران سے سختی سے نمٹیںگے لیکن مصلحت اور حکمت غالب آئی اور اس بحران پر ریاستی ادروںنے صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے قابو پا لیا۔ مگر معاشی میدان میں ابھی تک سنگین مسائل در پیش ہیں۔ حکومت کے بقول سابقہ حکمرانوں نے بڑی بے دردی سے اس ملک کی لوٹ مار کی ہے۔ یہ ایک وائٹ کالر کرائم ہے جس کی تفتیش آسان کام نہیں۔ اس جرم میں ملوث لوگ اپنے پیچھے کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ کم از کم جن لوگوں کی بیرون ملک ناجائز جائیدادیں ہیں یا بنک اکاﺅنٹس ہیں، ان سے ریکوری کی جا سکے۔ اس ریکوری کے بغیر حکومت اس پوزیشن میںنہیں کہ معاشی بدحالی کو دور کر سکے۔ تعلیم، صحت اور زراعت وغیرہ کے بنیادی شعبوں میں کوئی بھی پیش رفت کر سکے۔ اس وقت عملی طور پر ملک میں ترقیاتی عمل رکا ہوا ہے۔ نئے بجٹ میں ترقیاتی فنڈ میں تخفیف کرنا پڑی اور حکومت اپنے روز مرہ کے اخراجات کم کر کے دن پورے کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قبضہ مافیا کے خلاف پورے ملک میں ایک آپریشن جاری ہے۔ مارکیٹوں کی صفائی کی جا رہی ہے۔ فٹ پاتھ صاف کئے جا رہے ہیں اور ناجائز بستےوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ اس طرح اربوں کھربوں کی زمین حکومت نے وا گزار کرائی ہے۔ اس کام میں اگر تما م ریاستی ادارے ایک ساتھ کھڑے نہ ہوں تو اکیلی حکومت کسی پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی اور اگر ڈالے گی تو انتشار پھیل جائے گا۔ اسی ممکنہ انتشار اور بحران کو دور کرنے کے لئے کور کمانڈرز نے اپنی قومی ذمے داری کااحساس کرتے ہوئے بھر پور کردارا دا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اعلان کو خوش آمدید کہنا چاہئے ۔ آج ماضی کی طرح حکومت اور فوج یا حکومت ا ور عدلیہ کے مابین کوئی محاذ آرائی نظر نہیں آتی۔ سبھی ایک پیج پر ہیں اور پورے تال میل کے ساتھ مملکت کے کاموں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

میں یہاں یہ کہوں گا کہ فوج نے تو ایک ا علان کر دیاا ور یہ ایک اچھا اعلان ہے مگر معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی ملک اور قوم کی فلاح،بھلائی۔ استحکام اور ترقی اور خوش حالی کے واحد مقصد کے لئے اکٹھا ہونا چاہئے اور جس طرح ماضی کی دو بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کئے تھے۔ اسی طرح آج کی چھوٹی بڑی پارٹیوں کو ایک میثاق جمہوریت اورا سکے ساتھ میثاق معیشت پر دستخط کرنے چاہیئیں،کیونکہ کسی کشمکش کی صورت میں ملک کا بھلا نہیں ہو سکتا،انتشار کی صورت میں ملک کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہو تو قوم کو خوش حال نہیں کیا جاسکتا۔

آج پاکستان کے سامنے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ سی پیک کی تکمیل کر کے اپنے عوام کی تقدیر بدل ڈالے۔سی پیک کسی ایک پارٹی یا کسی ایک حکومت کا منصوبہ نہیں ۔ یہ تو برادر ملک چین کا گراں قدر تحفہ ہے۔ سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے بھارت اور عالمی طاقتیں کوشاں ہیں۔ اور ہمار ا فرض بنتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم ان سازشوں کو ناکام بنائیں اور ان کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیں۔ہمارے ملک کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ سندھ والے بھائی ناحق روتے ہیں کہ ان کا پانی پنجاب چوری کر رہا ہے۔ پاکستان کا پانی تو بھارت چوری کر رہا ہے جو ستلج اور راوی کے سو فیصد پانی پر قابض ہے اور اب چناب اور جہلم کے دریاﺅں کے پانی کو ہتھیانے کے لئے سینکڑوں ڈیموں کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔ ہمیں اگر رونا ہے تو واہگہ کے سامنے کھڑے ہو کر سینہ کوبی کریں۔یا پھر ہم عزم کریں کہ بھاشہ۔ مہمند اور کالا باغ ڈیم بنا کر اپنی آبی قلت پر قابوپا ئیں۔ بجلی کی کمی پر ہم بڑی حد تک قابو پا چکے ہیںمگر ان منصوبوں کے لیے چین سے بھاری قرضے اٹھانا پڑے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہمیں ملکی پیدا وار اور بر آمدات کو بڑھانا ہو گا۔ ظاہر ہے ا سکے لئے ملک میں ایک پر سکون ماحول بھی درکار ہے ۔ انتشار اورفتنہ و فساد سے بچنا بھی ضروری ہے۔یہ کام فوج کے چھاتے میں ہی ہو سکتا ہے اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ فوج کو اپنی قومی ذمے داریوں کا مکمل احساس ہے۔
جس طرح پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اسی طرح ہماری فوج بھی نظریاتی ہے اور یہ ملک کو بیرونی اور اندرونی خطرات سے تحفظ دینے کی آئینی طور پر پابند ہے۔ فوج اپنی ذمہ داری احس طریقے سے پوری کر رہی ہے۔ فوج کا شکریہ اور فوج کے سربراہ کی ذاتی خوشیوں میں پوری قوم شریک ہے۔ ان کے بیٹے کی شادی ان کو مبارک ۔ شادی کا یہ اجتماع قومی اتحاد کی روشن مثال بنا۔خدا کرے فوج اس ملک کے مستقبل کو روشن بنانے میں بھی کامیاب کردارا دا کرے۔