خبرنامہ

فیصلے سڑکوں پر یا عدالت میں۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔۔انداز جہاں

اس سوال کا جواب کوئی زیادہ مشکل نہیں، ہر تنازعے کے حل کے لئے حکومتی ادارے موجود ہیں، ایک پورا نظام ہے، پھر بھی کچھ لوگوں کو شکائت ہوتی ہے کہ ان کے فیصلے فوری نہیں ہوتے مگر ان کی تسلی کے لئے عرض ہے کہ انگریز جو نظام ہمیں بنا کر دے گیا ہے اور جس کی ہم نے اصلاح نہیں کی، اس میں کسی کو بسرعت تمام یا ارزاں انصاف نہیں مل سکتا، حکومتی دفاتر کا دستور ہے کہ وہاں فائل چلتی ہے اور کوئی ایک فرد فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں، تمام فیصلے اجتماعی سوچ کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں اور فائل کو تما م میزوں پر گھومنے میں بہت زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔عدالتوں کی بات کریں تو ان میں مقدمات کی بھر مار ہے اور محاورہ ہے کہ ایک نسل کے مقدموں پر فیصلے تیسری نسل کی زندگی میں ہو پاتے ہیں، ابھی ایک مشہور کیس سامنے آیا کہ ایک شخص نے انیس سال جیل کاٹی، اس کے مقدمے کا فیصلہ آیا کہ اسے باعزت بری کیا جاتا ہے مگر وہ شخص اس فیصلے سے دو سال قبل وفات پا چکا تھا، اس میں کسی ایک فرد کا قصور نہیں، یہ ہمارے مجموعی نظام کی خوبی ہے یا برائی کہ فیصلے جلدی ہو نہیں سکتے۔
اب عمران خان ا ور ان کی پارٹی کو پچھلے تنن سال سے جلدی پڑی ہوئی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کو ان کی شکایات سنی جائیں اور ان پر فیصلہ کیا جائے،ا سکے لئے وہ پہلے ایک لمبا دھرنا دے چکے ہیں ، اب دو نومبر کوپھر احتجاج کرنے والے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد کو بند کر دیں گے، یہ تو حکومت کی سٹریٹجی پر منحصر ہے کہ وہ اس شہر کو کھلا رکھنے کے لئے کیا انتظام کرتی ہے کیونکہ آئین میں جہاں جلسے جلوس، احتجاج یا دھرنے کی اجازت ہے وہاں عام آدمی کی آزادانہ نقل و حرکت کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔
عمراں خان کا موجودہ دھرنا پانامہ لیکس سے تعلق رکھتا ہے، اس پر وزیر اعظم ایک بار نہیں دو بار نشری تقریر میں پیش کش کر چکے ہیں کہ وہ ہر احتساب کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں گو ان کانام پانامہ لیکس میں نہیں ہے۔اب یہ اشو سپریم کورٹ نے ٹیک اپ کر لیا ہے، ویسے کوئی ہنگامی ضرورت تو نہ تھی کہ سالہا سال سے چلتے مقدموں کومؤخر کرکے اس مسئلے کو سنا جائے مگر اچھا ہوا کہ عدلیہ نے ملک کو افراتفری سے بچانے کے لئے اسے مقدم حیثیت دی مگر تحریک انصاف کے رویئے میں کوئی لچک نظر نہیں آتی،
اصولی طور پر پاکستان کوئی بنانا رپیبلک نہیں کہ جہاں ڈنڈے کے زور پر کوئی گروہ چام کے دام چلا سکے، اگر ایک روائت قائم ہو گئی تو پھر ہر کوئی چند ہزار بندے لے کر وفاقی سیکرٹریٹ کو بند کروا سکتا ہے، یہاں تو ایسے گروہ بھی تھے جو کہتے تھے کہ ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، عدلیہ کو نہیں مانتے، آئین کو نہیں مانتے مگر ریاست نے انہیں بزور طاقت کچل کے رکھ دیاا ور انہیں من مانی کی اجازت نہیں دی۔میرا خیال ہے کہ ریاست سیاستدانوں کے ساتھ اس طریقے سے نہیں نبٹ رہی جو طریقہ انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔اور یہ ایک چھی بات ہے کہ جھگڑے کوبڑھنے سے بچایا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کے پہلے دھرنے پر حکومت کا یہ اعتراض بجا تھاا ور چین نے بھی ا س کی تائید کی کہ چینی صدر ا س دھرنے کی وجہ سے مقررہ وقت پر پاکستان کے دورے پر نہ آ سکے، وہ آئے ضرور مگر تاخیر سے اورا س تاخیر کہ وجہ سے سی پیک اورا س سے متعلقہ بیسیوں منصوبے بھی کھٹائی میں پڑے رہے۔اگرچہ اب عمران خان نے چینی سفیر کے ساتھ ملاقات میں یقین دلایا ہے کہ وہ سی پیک کے مخالف نہیں مگر ملک میں افراتفری کاعالم ہو گا اور دمادم مست قلندر ہورہا ہو گا تو کونسا سی پیک اور کہاں کا سی پیک۔ بس رہے نام اللہ کا!
جو بات عقل میں آتی ہے وہ تو یہی ہے کہ سپریم کورٹ جیسے اعلی تریں ادارے نے اس مقدمے کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے تو اسے کسی دباؤ کے بغیر کام کر نے دیا جائے، یہ توقع رکھنا بھی خلاف منطق ہو گا کہ عدالت نواز شریف یا عمران کا فیصلہ تو کر دے مگر پانامہ لیکس اور بہاماہ لیکس میں کئی ہزار دوسرے افراد کو ہاتھ نہ لگائے، کوئی بھی فیصلہ �آئے گا تو سب کے لئے ہو گا، کسی ایک یا دو افراد کے لئے تو نہیں، یہ پہلو عام �آدمی ا ور تحریک انصاف کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔
ایک بات اور بھی محل نظر ہے کہ پانامہ لیکس پاکستان سے مخصوص نہیں، اس میں ساری دنیا کے لاکھوں لوگوں کے نام ہیں، مگر شور صرف پاکستان میں ہے۔ وزیر اعظم نے بھی دو تقریریں کر دیں ، اور ادھر سیاسی جماعتیں بھی گھمسان کی جنگ لڑنے کے موڈ میں ہیں۔ پانامہ اگر کرپشن کا کیس ہے تو ملک میں کرپشن کہاں نہیں ہو رہی، ہر سطح پر ہو رہی ہے، اس سارے دھندے کو کیوں نہ ٹھیک کا جائے ا ور کیوں نہ سینتالیس کے بعد کی الاٹمنٹو ں سے شروع کر کے آگے بڑھا جائے، جو کرپشن کے سمندر میں نہا چکے، ان مگر مچھوں کو کیوں چھوڑا جائے۔
احتساب کامطالبہ بھی ملک میں نیا نہیں، ضیا اکحق نے بھی پہلے احتساب ا ور پھر انتخاب کا نعرہ لگایا، اسحق خان نے دو حکومتیں توڑیں، فاروق لغاری نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت توڑی تو احتساب کا ہی نعرہ لگا، کبھی احتساب بیورو بنا، کبھی نیب حرکت میں، انٹی کرپشن تو روٹین کا محکمہ شروع سے موجود ہے مگر ان کے ہتھے کوئی غریب ہی چڑھتا ہے باقی تو پلی بارگین کے ذریعے ڈرائی کلین کر دیئے جاتے ہیں۔ کرپشن اربوں کی، حکومت کو واپسی چند کروڑ کی، باقی سب مال حلال تو حرام کسے کہتے ہیں۔ملک میں حلال حرام کی تمیز ہی ختم ہو چکی۔
مثل مشہور ہے چورمچائے شور،اس کیس میں بھی یہی ہو رہا ہے، شور مچانے والے بھی چور ہوں تو کس نے کس کے خلاف کاروائی کرنی ہے، بس دو دن کامیلہ ٹھیلہ لگے گاا ور اپنی اپنی بولیاں بول کر سب اڑ جائیں گے، عمران نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر دھرنے کے نتیجے میں تیسری قوت آئی تو ذمے دارنواز شریف ہوں گے،واہ جی! دھرنا تو آپ دیں اورذمے دار نوازشریف، مگر عوام خاطر جمع رکھیں تیسری قوت کومداخلت کی کوئی حاجت نہیں ، ملک پر سیکورٹی خطارت چاروں طرف سے منڈلا رہے ہیں تیسری قوت کو ان کی فکر لگی ہےْ سیاست دانوں وک آپس ہی میں فیصلہ کرنا ہو گا۔