خبرنامہ

قائد اعظم کا مزار وزیر اعظم کے انتظار میں….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

قائد اعظم کا مزار وزیر اعظم کے انتظار میں

وزیر اعظم کب کا حلف اٹھا چکے۔ قومی ا سمبلی کے ایوان میں تقریر کر چکے اور قوم سے نشری خطاب بھی فرما چکے ۔ وفاقی کابینہ کے بھی کئی اجلاس ہو چکے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو عام طور پر حکومت سنبھالنے کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب کا رخ کریں، وہاں عمرہ ادا کریں ،شکرانے کے نوافل ادا کریں اور مدینہ منورہ حاضر ہو کر نبی اکرم ﷺ پر درود وسلام بھیج سکیں۔ ممکن ہے اس دورے کی پلاننگ ہو رہی ہو مگر میرا خیال ہے کہ سعودی سفیر محترم نے عمران خان سے اولیں ملاقات کی تھی تو پہلی پیش کش یہی کی ہو گی کہ آپ سعودی عرب تشریف لے جائیں اور عمرہ اور زیارت سے بہرہ یاب ہوں، سعودی سفیر بھی اس سفر میں وزیر اعظم کے ساتھ جایا کرتے ہیں تاکہ مکمل پروٹو کول دیا جا سکے۔
ہمارے نئے وزیر اعظم پہلی فرصت میں کراچی بھی جاتے ہیں اور مزار قائد پرحاضری دیتے ہیں، قائد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کے مزار پر کھڑے ہو کر عہد کرتے ہیں کہ وہ قائد کے پاکستان کو مستحکم اور خوشحال بنائیں گے۔
ابھی تک یہ دونوں کام پینڈنگ پڑے ہیں اور مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم اپنی ضروی مصروفیات سے وقت نکال کر یہ دونوں کام کر گزریں گے۔
عمران خان نے ہمیشہ کہا کہ وہ قائد کے پاکستان کی تعمیر نو کریں گے،۔ وہ مانتے ہیں کہ پاکستان کو نظریہ اقبال ا ور قائد نے دیا اور یہ نظریہ بجز اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ پاکستان کو اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنایا جائے گا۔
عمران خان نے بار ہا مدینہ کی اسلامی ریاست کا حوالہ دیا ہے اورا س کی پیروی کا عندیہ دیا ہے۔مدینہ کی ریاست پورے عالم اسلام کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس ریاست میں مساوات کا قانون تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ان کی بیٹی بھی چوری کرے گی تو اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے ۔ مدینہ کی ریاست میں مواخات کاا صول رائج تھا، ہر شخص اپنے ہمسائے کی حاجت روائی کو فرض سمجھتا تھا اور ریاست مجموعی طور پر ہر شہری کی کفیل تھی۔ خلیفہ وقت کا کہنا تھا کہ دریائے نیل کے کنارے کتا بھی بھوک یا پیاس سے مر جائے تو اس کی پرسش ان سے ہو گی ۔ایک بدو بھی بھرے مجمع کے سامنے خلیفہ وقت کا احتساب کرنے کا حق رکھتا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے وعدے تو بہت کئے ہیں ، بانیان پاکستان نے بھی مسلمانان ہند سے بہت وعدے کئے تھے اور پاکستان کو ان کے لئے جنت ارضی قرار دیا تھا۔ مگر اکہتر برس گزر گئے،۔ بانیان پاکستان تو بہت جلد اللہ سے جا ملے ، ان کے جانشینوںنے وہ تمام وعدے فراموش کر دیئے جو قائد اعظم اور بانیان پاکستان نے مسلمانوں سے کئے تھے۔ پاکستان میں طوائف الملوکی کا بازار گرم ہو گیا اور فوجی آمروںنے بھی پاکستان وک چراگاہ سمجھ لیا۔ اب خدا خدا کر کے پاکستان جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ نکلا ہے ۔ دو حکومتیں اپنی آئینی ٹرم پوری کرنے میں کامیاب رہی ہیں، یہ حکومتیں بھلے چنگے الیکش کے نتیجے میںمعرض وجود میں آئیں اور اب بھی نئی تبدیلی الیکشن ہی کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے، عوام کے ساتھ حکمران پارٹی نے بڑے بڑے وعدے کئے ہیں۔نیا پاکستان بنانے کا وعدہ، دو پاکستان کی جگہ ایک پاکستان بنانے کاوعدہ۔ میرٹ کی پاسداری کا وعدہ۔ احتساب کا وعدہ ، ملک کو خوش حال کرنے کا وعدہ ، عام ا ٓدمی کی مشکلات کم سے کم کرنے کا وعدہ ۔ ان وعدوں پر ووٹروںنے اعتماد کرتے ہوئے تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا، عمران خان نے بائیس برس تک جدو جہد کی۔ پاکستان میںکسی اور حکمران نے اتنی طویل جدو جہد نہیں کی، بھٹو نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی، نئے الیکشن ہوئے۔پاکستان دو لخت ہوا اور باقی ماندہ پاکستان مین بھٹو حکمران بن گیا، نواز شریف کو جنرل جیلانی نے اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ پھر الیکشن ہوئے اور نواز شریف کو وزیر اعلی پنجاب ا ور بعد میںوزیر اعظم بنا دیا گیا ، ایک بار نہیں تین بار۔ ان کے مد مقابل ییپلز پارٹی بھی بار بار ملک کی حاکم بنی، سندھ میں تو زیادہ عرصہ اسی کی حکومت رہی۔ بس ایک عمران خان ہے جسے طویل تریں جدو جہد کرناپڑی اور اب عوام منتظر ہیں کہ وہ اپنی کٹھن جدو جہد کے نتیجے میں ملنے والے اقتدار کو ملک اور عوام کی بھلائی کے لئے وقف کر د یں ، یہی وہ سبق ہے جو قائد کی تعلیمات اور ان کے عملی کردار سے ملتا ہے۔ قائد نے قانون کی بالا دستی بر زور دیا۔ اور قائد نے مزید جو کہا وہ وزیر اعظم ان کے مزار پر ہوا کی سرگوشیوں سے بھی سن سکتے ہیں۔
ہمارے پڑوس میں بھارت ہے جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا مگر وہاں شروع سے ا ٓج تک جمہوریت کا راج رہا ۔ کوئی آمر اقتدار پر شب خون نہیںمار سکا۔یہ الگ بات ہے کہ قائد جس قسم کے تعلقات بھارت سے چاہتے تھے، وہ قائم نہ ہو سکے۔ بھارت نے پاکستان کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پاکستان کو دو خت کرنے میں اہم کردار ادا کیا اورپاکستان کو مزید کمزور کرنے کے لئے کشمیر پر فوجی طاقت سے قبضہ جما لیا جس سے اسے پاکستان کو ملنے والے پانی پر بھی قبضہ مل گیاا ور وہ ا یک سازش کے تحت پاکستان کو بنجر اور ریگستان میں تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بھارت نے پہلے روایتی اسلحے کا ڈھیر لگایا۔ پھر ایٹمی طاقت بن گیا ، پاکستان کو اپنی جان بچانے کے لئے یہی راستہ ا ختیار کرنا پڑا جس کی وجہ سے پاکستان کے زیادہ وسائل دفاع پر خرچ ہونے لگے اور عوام کی فلاح کے لئے ہمارے پاس کچھ نہ بچا ، اگر کچھ بچا تو اڑا لی قمریوںنے طوطیوں نے داستاں میری کے مصداق ہمارے بالا دست طبقات نے لوٹ مار مچا دی۔ پاکستان کے عوام کو جی بھر کے لوٹا۔ انہیں قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا اور اپنے بیرونی بنک اکائونٹس بھر لئے۔
عمران خان نے اس عمل کو ریورس کرنے کا عہد کیا جس طرح قائد اعظم نے بر صغیر کے مسلمانوں کو ہندو اکثریت کی لوٹ مار اوراس کے استحصالی رویئے سے نجات دلانے کاوعدہ کیا تھا ور اس مقصد کے لئے ایک الگ مملکت تشکیل دی تھی۔ قائد کے بعد اب عمران خان نے وہ وعدہ کیا ہے۔ وہ مزار قائد پر جائیں تو قائد اپنے سارے وعدے ان کواز بر کرائیں گے۔ قائد ان کو بتائیں گے کہ کس طرح نئی مملکت کو اس کے بنیادی نظریئے سے دور کر دیا گیا۔ کس کس نے بہتی گنگا میں اشان کیا اور پہلے اپنی وفا داریوں کے سودے کر کے انگریز حاکموں سے جاگیریں لوٹیں، پھر پاکستان بنا تو جعلی کلیمز سے ان جاگیروں کو بے حدو حساب توسیع دی۔بے شک قائد ہی وزیر اعظم کو یہ بتانے کی پوزیشن میں ہیں کہ اسوقت پاکستان کو کس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ہندو کی جگہ لینے والے نئے استحصالی طبقے کے چنگل سے کیسے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
اور وزیر اعظم عمرہ پر جائیں تو ان کی نظریاتی اساس مستحکم ہو گی، یہ نظریہ کعبہ کے دو دیوار سے پھوٹا تھا۔ اورا س نظریئے کو پیارے نبی ﷺ نے پروان چڑھا کر ایک سلطنت کی شکل مین ڈھالا۔
عمران خان کے لئے یہ دو سفر بے حد ضروری ہیں۔ انہیں قائد کے مزار پر بھی سکون ملے گا اور کعبہ اور مسجد نبوی میں سعودی میزبان بھی انہیں پورا پروٹوکول دیں گے۔ آخر وہ جنرل ضیاالحق کو روضہ رسول ﷺ کے نیچے جانے کا موقع دیتے تھے اورجنرل مشرف کو کعبہ کے ا اوپر چڑھنے کی سعادت سے سرفراز کرتے تھے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک منتخب وزیر اعظم کے لئے یہ ساری سہولیات بھی ضروبہم پہنچائیں گے۔ عمران خان وہاں جائیں تو عصیاں میں دوبے پاکستانیوں کو اپنی دعائوںمیںیا درکھیں۔ اور ہم سب کی طرف سے حضور ﷺ کے روضے پر سلام پیش کریں۔
ان کے یہ دو سفر ان کو روحانی اورنظریاتی معراج سے ہم کنار کرنے کے لیے ناگزیرہیں۔
عمران نے الیکشن سے پہلے پاکپتں میں بابا فرید کی درگا