خبرنامہ

قائد اعظم کی خدمت اقدس میں حاضری۔۔اسداللہ غالب

قائد اعظم کی خدمت اقدس میں حاضری۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ…کسی معروف قومی یا عالمی شخصیت کی وفات پر اخبار میں تعزیتی شذرہ لکھا جاتا ہے مگر یہ ادارتی صفحے پر شائع ہوتا ہے۔
مگر27 نومبر1948 کوایک ہوائی حادثے کی خبر نوائے وقت کے صفحہ اول پر نمایاں ابداز میں شائع ہوئی تو ساتھ ہی ایک باکس میں رفیع بٹ کی حادثاتی موت پر شذرہ بھی شائع ہوا۔
اس سے دو چیزیں واضح ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ رفیع بٹ اور نوائے وقت کے بانی ایڈیٹر محترم حمید نظامی کے مابین کس قدر قربت کا رشتہ تھا۔ دوسرے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا تھا کہ رفع بٹ کو معاشرے میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔
اسی قومی شخصیت کی یاد میں اس برس جشن آزادی پر ایک با وقار تقریب کاا ہتمام کیا گیا۔ اس کے روح رواں جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئر مین امتیاز رفیع بٹ تھے اور ذکر تھا بانی پاکستان کا اور ان کی خدمت اقدس میں ہمہ وقت حاضری کے لئے تیار( At Quaid’s Service) جناب رفیع بٹ کا، یہ تحریک آزادی پاکستان کاایک معتبر نام ہے۔ مگر تاریخ کے دھندلکوں کی نذر ہو گیا ان کی وفات پر ان کے بیٹے امتیازبٹ کی عمر صرف ایک ماہ تھی، وہ بڑا ہوا تو اسے اپنی والدہ زیتون بیگم سے باپ کی عظمت کی خبریں تو ملیں مگر اس کے پاس اس امر کی کوئی ایک بھی تفصیل نہیں تھی۔ مگر امتیاز نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنے عظیم والد کو دریافت کر کے چھوڑا، پتہ چلا کہ وہ تو قائد کی عظیم الشان محفل کی قوس قزح میں ہزاروں لاکھوں ستاروں کے جھرمٹ میں چمکتا دمکتا رہا ۔ جبکہ امتیاز ان کی تلاش کے لئے ان کی بے نام قبر کے چکر کاٹتا رہا۔
ہم خوش قسمت قوم بھی ہیں کہ ہمیں ا یک �آزاد وطن ملا مگر جن نامی گرامی ہستیوں کے طفیل ملا ، بد قسمتی سے ہم نے ان کی تاریخ مرتب نہ کی اور زندگی کی رونقوں یا جھمیلوں یا سخییوں میں پڑ کر انہیں ذہن سے محو کر بیٹھے۔
امتیاز نے قوم کا قرض ادا کیا۔قومی آزادی کا ایک روشن باب لکھنے کے لئے اس نے نامور ادیبوں ، صحافیوں اور مؤر خین کی خدمات حاصل کیں۔ خواجہ افتخار، ڈاکٹر رفیق احمد، منیر الدین چغتائی، میاں محمد شفیع ( میم شین) ممتاز احمد خاں ملک تاج الدین،سید بابر علی، شہزاسہ عالم منوں،عبداللہ بٹ، ڈاکٹر ضیا الا سلام، مسکین علی حجازی، یہ ایک کہکشاں تھی جس نمے امتیاز بٹ کے راستو ں میں اجالا کیا،ان میں شبیر زیدی کو میں کبھی نہ بھول پاؤں گا کہ پہلی تحقیق ان کی مرہون منت ہے، یہ تھی قائد اور رفیع بٹ کی ایک تصویر مگر خدا جانے یہ کہاں کھینچی گئی، کیوں کھینچی گئی، شبیر زیدی اس جستجو میں آگے بڑھتے چلے گئے۔امتیاز نے ویانا میں مقیم ایک بہت ہی پیارے صحافی خالد حسن جو بعد میں واشنگٹن جا کر دی نیشن کے نمائندہ خصوصی بنے،کو چھ ماہ کے لئے پاکستان مدعو کیا، انہیں تمام سہولتیں فراہم کیں، تحقیق دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رہی، پھر ایک او مخلص دوست اس مہم میں داخل ہوا، اس کی نظر نوائے وقت کی فائلوں پر پڑی جس میں قیام پاکستان کے فوری بعد ایک جہاز کے حادثے کی خبر پورے صفحہ اول پرمحیط تھی اور یہیں ایک چوکھٹے میں مختصر سا ادارتی نوحہ رفیع بٹ کے لئے شائع ہواجو اس حادثے کے شہدا میں شامل تھا،اس قدر نمایاں تذکرے سے یہ اندازہ ہو ا کہ رفیع بٹ اپنے زمانے کا کتنا بڑا نام تھا۔نوائے وقت میں لکھنے والے تحریک پاکستان کے نامور صحافیوں اور لکھاریوں کو کریدا گیا، گرہ سے گرہ کھلتی گئی اور کڑی سے کڑی ملتی چلی گئی اور ایک روشن اور منور ہستی کو تاریخ کے اندھیروں سے نکال کر قومی تاریخ کا عنوان بنا دیا گیا، یہ وہ مرحلہ تھا جب امتیا زرفیع بٹ نے سان فرانسسکو میں مقیم نامور مورخ ڈاکٹر رضی واسطی کے سامنے یہ سارا مواد رکھا اور انہوں نے کئی برسوں کی مزید تحقیق اور جستجو سے ایک ایسی کتاب لکھ ڈالی جو تاریخ پاکستان اور تحریک پاکستان کے لٹریچر میں قابل قدر اضافہ ثابت ہوئی، اس سال کے جشن آزادی پر اسی کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ یہ ایک نہایت باوقار اور سنجیدہ محفل تھی جس میں شہر لاہور کی اشرافیہ جمع تھی۔
کوئی قوم اپنی تاریخ کی بنیاد رکھے بغیر آگے بڑھنے کا تصور نہیں کر سکتی۔ جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں، ان کا حال بے حال اور مستقبل سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر رضی واسطی نے تحقیق کا حق ادا کر دیا، ماضی کا ایک ایک پرت کھول کر سامنے رکھ دیا،رفیع بٹ کی شاندا ر شخصیت کا یہ ایک شاندار تذکرہ ہے جسے مؤرخ نے عرق ریزی سے قلم بند کیا ہے۔یہ ایک شخصیت کی کہانی نہیں ایک دور کا شاہنامہ ہے ۔جذبوں اور امنگوں کا جھلملاتا عکس ہے۔بر صغیر پر ایک ہزار سال تک حکمرانی کرنے والی قوم کو سلام ہے جس نے خوئے غلامی کو برداشت نہیں کیا اور اس کے اندر�آزادی کا ولولہ بیدا ہوا، ادر ان ولولوں کو مہمیز لگانے میں قائد اعظم نے کلیدی کردار ادا کیا ، یوں قیام پاکستان کا معجزہ رونما ہوا۔اس خواب کو عملی تعبیر دینے والوں میں رفیع بٹ کا نام سر فہرست ہے، وہ اپنے زمانے کے ممتاز صنعتکار تھے، موجودہ قذافی اسٹیڈیئم کے سامنے گارڈن ٹاؤن والی وسیع زمین پر ان کا آلات جراحی کا کارخانہ پھیلا ہوا تھا،رفیع بٹ نے جنگ عظیم کے پورے پورے فوائد سمیٹے ا ور انگریز فوج کی ضروریات کے لئے اپنے کارخانے کا سامان ملکوں ملکوں بر آمد کر کے مال بھی بنایا اور نام بھی پیدا کیا۔ انہوں نے ا اسی کارخانے میں قائد اعظم کو مدعو کیاا ور ایک خطیر رقم مسلم لیگ فنڈ کے لئے ہدیہ کی۔رفیع بٹ لاہور چیمبر کے سرگرم ممبر تھے، مسلم بزنس فیڈریشن کے مدبر رہنما تھے ۔ انہوں نے قائد اعظم کا حکم بجا لاتے ہوئے شمالی ہند سے ایک انگریزی اخبار کی اشاعت کا اہتما م کیا۔ ایک نیوز ایجنسی تشکیل دی تاکہ مسلم لیگ اور تحریک آزادی کی خبروں کو وسیع پیمانے پر پھیلایا جا سکے۔ نئی مملکت کے لئے ایک قابل عمل، مستحکم اور دیر پا معاشی منصوبہ بندی کے لئے وہ قائد اعظم کی خواہش پر ایک مشاورتی کمیٹی کے ممبر بنائے گئے۔ تقریب میں اظہار خیال سے پہلے برار محترم مجیب الرحمن شامی نے مجھ سے سوال کیا کہ اس منصوبہ بندی کا کوئی فائدہ کیوں نہ اٹھایا جاسکا، اس سوال کا جواب اس کے علاوہ ا ور کیا ہوسکتا ہے کہ جس قائد نے یہ منصوبہ تیار کیا اور جس نے اس کے خدو خال واضح کئے، وہ دونوں قیام پاکستان کے فوری بعد اللہ کو پیارے ہو گئے ،تو یہ رپورٹ بھی امتداد زمانہ کا شکار ہو گئی۔معاشی منصوبہ بند ی کاا صول یہ ہے کہ آپ اگلے بیس سال کے لئے چار عدد پانچ سالہ منصوبے بناتے ہیں، تاکہ ترقی کا عمل کہیں رکنے نہ پائے اور ایک تسلسل کے ساتھ جار ی رہے، ھکومتیں بدلتی رہیں لیکن ان کے سامنے ایک مستقل معاشی چارٹر موجود رہتا ہے ، قائد اعظم نے ایک مدبر کے طور پر نئی مملکت کے لئے انہی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی مگر وہ خود اور ان کے نائب خان لیاقت علی خان کی زندگی نے وفا نہ کی اور رفیع بٹ بھی ایک اندوہناک ہوائی حادثے کی وجہ سے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے، یہ ان کا عالم شباب تھا، مگر پاکستان ان کی خدمات سے محروم ہو گیا۔
رفیع بٹ کی جلائی ہوئی شمع آج بھی قائدکے افکار سے روشن ہے، ان کے بیٹے امتیاز رفیع بٹ نے اپنے والد اور قوم کے قائد کی مناسبت سے جناح رفیع فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جو قومی تاریخ کے موضوعات پر مکالمہ جاری رکھتا ہے۔ خود امتیاز رفیع بٹ کا امتیاز یہ ہے کہ وہ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ؑ عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار ہوئے، مہاتیر محمد سے ان کے خصوصی قریبی مراسم ہیں اور وہ لاہور میں ملائیشیا کے اعزازی قونصلر کے طور پر بھی مدتوں سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ملائیشیا کی معاشی ترقی ہمارے لئے ہی نہیں، تیسری دنیا کے لئے بھی رول ماڈل ہے اور امتیاز رفیع بٹ نے بھی کاروبار ی دنیا میں اپنامنفرد مقام حاصل کیا۔ پاکستان کے حالیہ سترھویں جشن آزادی پر انہوں نے ایک منفرد اور یادگار تقریب کا اہتما م کیا۔ اس تقریب کی خوشبو مدتوں دل و دماغ میں رچی بسی رہے گی۔