خبرنامہ

قطرہ قطرہ مل کر دریا اور قطری قطری مل کر کیا! اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

قطرہ قطرہ مل کر دریا اور قطری قطری مل کر کیا! ک اسد اللہ غالب

میرا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ پانامہ کے مسئلے پر میاں نواز شریف کے خلاف لائن لوں مگر سیالکوٹ کے جلسے میں انہوں نے مجھے طعنہ دیا ہے کہ کعبے کس منہ سے جاﺅ گے غالب، شرم تم کو مگر نہیں آتی، یہ سن کر میرا تو خون کھول اٹھا۔ مگر آپ کہیں گے کہ وزیراعظم نے مجھے تو طعنہ نہیں دیا، یہ تو دلی والے دو سو سال پرانے غالب کو مخاطب کیا ہے مگر پرانے غالب سے وزیراعظم کو کیا لینا دینا، میں جانتا ہوں کہ وہ دل سے میرے خلاف ہیں اور یہ طعنہ بھی انہوں نے مجھ ہی کو دیا ہے، اب چھیڑخانی میں پہل انہوں نے کی ہے، جبکہ میں تو اسحق ڈار اور سعید احمد کی دیانت اور امانت کی قسم کعبہ کی چوکھٹ پکڑ کر کھانے کو تیار ہوں، وہ دونوں نیکوکار ہیں اور میرے دوست ہیں، وزیراعظم نے مجھ سے میل ملاقات نہیں رکھی ورنہ میں تو ان کا قدیمی دوست تھا اور یہ دوستی ضرور نبھاتا مگر اتنا بڑا طعنہ سن کر دوستی جائے بھاڑ میں۔ اور اگر یہ طعنہ میرے لئے نہیں تھا تو جس کسی نے انہیں یہ شعر یاد کرایا وہ غالب کے لفظ کی جگہ عمران خان ڈال دیتا، چلئے براہ راست اس کا نام نہیں لینا تھا تو ڈھمکان خان کا لفظ استعمال کر لیتا۔ مجھے یاد ہے کہ میاں صاحب ایک زمانے میں میرے مرشد مجید نظامی کے گھر ہر جمعہ کو باقاعدگی سے حاضری دیا کرتے تھے، میں وہاں سے نکل رہا ہوتا اور وہ اندر داخل ہو رہے ہوتے اور مجھے دیکھ کر ان کی رگ ظرافت یا رگ شعری پھڑک اٹھتی اور وہ بلند آواز سے کہتے
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
اب میں شعروں کا جواب شعروں میں بھی دے سکتا ہوں مگر شعر ایسی صنف ہے جو مجھے سب سے زیادہ ناپسند ہے، کم از کم کسی دوسرے کا شعر، اپنے شعر میرے بہت کم ہیں۔ نہ ہونے کے برابر۔ مگر کالم گھسیٹنا تو کوئی مشکل نہیں، یہ تحریر انسان کی اپنی تو ہوتی ہے اور کبھی کبھی دل سے نکلتی ہے۔
پرسوں ترسوں قطر کے وزیر خارجہ پاکستان آئے، سبھی نے سوچا کہ اب پانامہ کی گواہی خود چل کر آ گئی مگر میں جانتا تھا کہ قطری وزیر خارجہ کے دورے کا تعلق ہرگز ہرگز پانامہ کے قضیئے سے نہیں تھا، تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو، جب قطر خود گوڈے گوڈے پھنسا پڑا ہے تو وہ کسی دوسرے کی مدد کیا کر پائے گا۔ وہ تو تنکوں کے سہارے کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔
قطری وزیر خارجہ کی آمد سے ایک محاورہ اور سوال ذہن میںآیا کہ قطرہ قطرہ مل کر تو دریا بن جاتا ہے مگر قطری قطری مل کر کیا بنتا ہے، کسی قطری شہزادے کے دو خط آئے، ایک قطری وزیر خارجہ بنفس نفیس عین سپریم کورٹ میں سماعت کے کلائمکس پر آیا مگر بنا کیا۔ کیا بننا تھا، وہی بنا جو بحرین کے بادشاہ کے پاکستان میں آنے سے بنا، وہ بے چارہ کوئی تیس سال بعد پاکستان آیا تھا اور بڑے ارمانوں سے آیا تھا، ہم نے اسے ٹھینگا دکھا دیا، پھر سعودی شہزادہ سلمان آیا، وہ اپنے ملک کے حکمرانوں میں سب سے زیادہ دبنگ خیال کیا جاتا ہے مگر اس کی آمد پر کیا بنا، کیا بننا چاہئے تھا، کوئی کھچڑی تک نہیں پکی، وہ بھی اپنا سا منہ لے کر واپس چلا گیا۔
سعودی عرب کا نام تو بچپن سے سنا تھا، قطر کا تب سنا جب عالم ہوش میں قدم رکھا، یہ میٹرک کا زمانہ تھا اور اردو ڈائجسٹ کا طوطی بولتا تھا، اس میں قطر پر ایک آرٹیکل پڑھا، یہ الف لیلوی قصہ لگتا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے قطر کی دھوم مچ گئی اور پھر ایک وقت آیا کہ یہ امریکی افواج کے اڈے میں تبدیل ہو گیا، جہاںامریکی افواج قدم رنجہ فرماتی ہیں، وہاں کوئی مصیبت کھڑی نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ قطر بھی بھنور میں پھنس گیا، اس کے عرب اور خلیجی ہمسایوں نے اس کا مقاطعہ کر دیا، ایسے عالم میں قطری شہزادے کو اپنے خطوں کی ہوش کیا رہتی، ظاہر ہے کہ اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔
کیا قطر پانامہ کیس میں نواز شریف کی مدد کر سکتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ نواز شریف قطر کی کس حد تک مدد کر سکتا ہے، اگر تو نواز شریف قطر کو بھی کوئی جنرل راحیل دے سکتا ہے یا جیسے چین کے سی پیک کی سکیورٹی کے لئے نئی نکور دو ڈویژن فوج کھڑی کر سکتا ہے تو اسی طرح زیادہ نہ سہی، دو بریگیڈ ہی قطر بھجوا دے۔ مگر یہ کام تنہا نواز شریف نہیں کر سکتے، ان کی قوم اس کے لئے تیار نہیں ہو گی جیسے یمن اور سعودی عرب کے جھگڑے میں پاکستانی قوم نے اپنی فوج بھیجنے سے معذرت کر دی تھی۔ پاکستان اپنے دو بھائیوں کے مابین کسی تنازعے کا فریق نہیںبن سکتا، وہ بھی اس صورت میں کہ ایک بھائی کی سرحد بھی ہمارے ساتھ ملتی ہو اور وہاں سے بھارتی را کے ایجنٹ چہل قدمی فرماتے ہوئے پاکستان کے اندر آ کر دہشت گردی میںمصروف ہوں اور ساتھ ہی یہ ہمسایہ سرحد پر ہلکی پھلکی گولہ باری کر کے اشارے بھی دے رہا ہو کہ تصادم کا دائرہ پھیل سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی اندرونی دہشت گردوں کے ساتھ برسرپیکار ہے، یہ ہماری سرحدوں کے اندر بھی وافر تعداد میں موجود ہیں اور بیرونی سرحدوں سے بھی آزادانہ طور پر آ جا رہے ہیں۔ ان دہشت گردوں سے نبٹنے میں ایک لاکھ کے قریب بے گناہ پاکستانی شہید ہو چکے ہیں اور پانچ ہزار کے قریب پاک فوج کے افسر اور جوان شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔
مگر نواز شریف سعودی عرب اور قطر کا ذاتی طور پر احسان مند ہے، سعودی عرب نے انہیں اس وقت پناہ دی جب جنرل مشرف نے ان کے خاندان کو جلا وطن کیا، سعودیہ کا یہ بہت بڑا احسان تھا، قطر نے شریف فیملی پر جو احسانات کئے، وہ ان دو خطوں سے عیاں ہو گئے ہیں جو ایک قطری شہزادے نے لکھ کر بھجوائے مگر ان خطوں کی اہمیت تب بنتی ہے جب شہزادہ صاحب جرح کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں مگر وہ کیوں پیش ہوں، پاکستانی قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا اور پاکستان سے قطر کو جو مدد اور تعاون چاہئے وہ بھی پاکستان نہیں دے رہا۔ آج قطر اور سعودیہ یا سعودیہ اور ایران کا جھگڑا طے ہو جائے تو سعودی حکومت اور قطری حکومت کھل کر نواز شریف کی مدد کے لئے آ سکتی ہے، ان کے شہزادے اور وزیر نہیں بلکہ بادشاہ اور امیر بھی اسلام آباد میں مستقل پڑاﺅ ڈال سکتے ہیں، وہ تب اٹھیں گے جب نواز شریف کی قانونی طور پر گلو خلاصی ہو جائے۔ اب یہ حالات کا جبر ہے جس نے پاکستان کے اندر ایک فساد کھڑا کر رکھا ہے اور سعودیہ یا قطر اس بحران کے خاتمے میں کوئی سرگرم کردار ادا نہیں کر پا رہے اور بدقسمتی سے وہ ایساکر بھی نہیں پائیں گے کیونکہ ان کی مرضی اور منشاءکے مطابق پاکستان فوجی امداد دینے سے قاصر ہے، یہ امداد سعودیہ کو بھی چاہئے اور قطر کو بھی چاہئے، وہ تو ٹرمپ سے اربوں ڈالر کا اس قدر نیا اسلحہ خرید چکا ہے کہ اسے سٹور کرنے کے لئے اس کے پاس زمین نہیں اور نہ چلانے کے لئے کوئی فوج ہے۔ پورے خطے میں مصر، ترکی اور پاکستان کے علاوہ کسی کے پاس فوج نہیں اور یہ تینوںملک خلیجی تنازعے یا عرب و عجم کی کش مکش کو مزید تیز کرنے کے نتائج بھی نہیں بھگت سکتے۔ اوپر سے امریکی اور نیٹو کی افواج نے بھی پورے علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
اس پس منظر میں پانامہ کا جھگڑا واقعی پاکستان کا داخلی مسئلہ نہیں، اور واقعی اس کی تاریں باہر سے ہلائی جا رہی ہیں اور اس جھگڑے کا فیصلہ بھی پاکستان کا کوئی ادارہ نہیں کر سکتا، یہ فیصلہ بیرونی عناصر ہی کے ہاتھ میں ہے۔
اگر شعروں سے کام چل سکتا ہو تو میں اس میدان میں کچھ مدد کر سکتا ہوں، مثال کے طور پر زرداری صاحب کے رویئے پر نواز شریف یہ مصرع گنگنا سکتے ہیں: جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے، اور دل کو بہلانے کے لئے ایک شعر خواہ، قطر یا سعودی عرب سنی ان سنی کرتے رہیں:
چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
شریف خاندان کا ذوق شعری داد کے لائق ہے۔ ان سے پہلے کے حکمرانوں کا پسندیدہ شعر یہ تھا
قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اور جب وہ نکو نک آ جاتے تھے تو پکار اٹھتے تھے کہ
اے طائر لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
کشکول توڑنے پر کسی نے شعر تو موزوں نہیں کیا مگر دونوں برادران نے یہ نعرہ خوب لگایا۔ پتہ نہیں ان کے پیچھے کون سا شاعر یا ادیب چھپا بیٹھا ہے، ایوب خان کو تو قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر نے شیر بننے کے لئے اکسایا، اب بھی یہ نیک فریضہ کوئی نہ کوئی ادا کر رہا ہے، مگر کون جانے پردے کے پیچھے کون ہے۔
شریف خاندان میری سنے تو وہ عالمی شطرنج کی بساط پر نگاہ رکھے اور اپنے مہرے چلنے میں عقل مندی کا مظاہرہ کرے تو کوئی ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتا۔