خبرنامہ

قیام امن کاا علان اورنشان … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

قیام امن کاا علان اورنشان … اسد اللہ غالب

آج اتوار کی صبح انٹرنیٹ پر خبر اور تصویر دیکھی کہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کسی ہوٹل میں کھانے کے لئے بغیر پروٹو کول کے پہنچ گئے، ان کے ہمراہ گھر کے افراد معلوم ہوتے ہیں، اتوار کی وجہ سے فوج کے محکمہ تعلقات سے رابطہ نہیں ہو سکا، اس لئے مزید تفصیلات نہیں ملیں کہ کس ہوٹل میں گئے، پنڈی میں گئے یا اسلام آباد جاپہنچے اور کھانے میں کس ڈش کاآرڈر کیا، کتنی دیر تک ہوٹل میں رہے۔ ویب سائٹ پر مختصر خبر دی گئی ہے مگر اس انشی ایٹو سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آرمی چیف کسی سیکورٹی اور پروٹوکول کے بغیر کھانے کے لئے کسی ریستوران کارخ کر سکتے ہیں ،تواس کا مطلب یہ ہو اکہ انہیں کوئی خوف وخطر لاحق نہیں اور اس سے یہ بھی پیغام ملتا ہے کہ عوام بھی کوئی خوف محسوس نہ کریں اور مسلح افواج کی قربانیوں سے ملنے والے امن کی نعمت کی قدر و منزلت بجا لائیں۔
ابھی ایک ٹی وی چینل پر کوئی خاتون تبصرہ نگار کراچی کے ساحل سمندر پر کھڑی بولتی سنائی دی، اس کے عقب میں عوام کا جم غفیر ساحل پر موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے موجود تھا، کچھ لوگ گھڑ سواری کے مزے لے رہے تھے ا ور کچھ اونٹ کی سواری سے دل بہلا رہے تھے، خواتین نے کالی گھٹاﺅں کی مناسبت سے سیاہ چشمے پہن رکھے تھے۔
یہ دونوں خبریں آج کل کے پریشان کن اور پراگندہ سیاسی ماحول کے پس منظر میں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئیں ۔
مجھے یا د آیا کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران ایک عید کا تہوار آیا تو جنرل راحیل شریف نے اپنی عید وانامیں فوجیوں کے ساتھ منائی۔ اسی طرح بہت پہلے کی بات ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ، وزارت عظمی کے دوران کراچی کے ایک ریستوران میں برگر کھانے پہنچ گئی تھیں، ان کے ساتھ بھی نہ سیکورٹی تھی اور نہ کوئی پروٹول کے قافلے۔
پھر مجھے صدر جارج بش کی وہ بات یادا ٓئی جو اس نے نائن الیون کے فوری بعد تقریر کرتے ہوئے اپنے عوام سے کہی کہ وہ ہرگز کوئی خوف نہ کھائیں، فاسٹ فوڈ کے ریستورانوں میں برگر کھائیں، ساحل سمندر پر گھومیں اور سر سبز میدانوں اور پہاڑی وادیوں کی طرف نکل جائیں۔
صدر بش نے تو طفل تسلی دینے کی کوشش کی تھی مگر جنرل قمر جاوید نے تو اپنی گاڑی میں کسی عوامی ریستوران کا رخ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلح افواج نے ملک میں اس قدر امن و امان کی فضا پیدا کر دی ہے کہ اب آرمی چیف کو بھی گھر سے باہر نکلنے میں کوئی خوف محسوس نہیںہوتا ، اس لئے عوام بھی بے دھڑک ہو کر زندگی کو انجوائے کریں اور یہ جو سیاسی مار دھاڑ ہو رہی ہے، اسے بھی خاطر میںنہ لائیں۔
اس وقت ملک میں بظاہر ایک انتشار کی کیفیت ہے، حوادث بھی رونماہو رہے ہیں ، کوئٹہ اور پارہ چنار کی دہشت گردی بڑی ہی خوفناک تھی ، اور احمد پور شرقیہ کاالمیہ بھی دل چیر دینے والا تھا۔مگر عمومی طور پر ملک اب دہشت گردوں کے چنگل میں نہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایک ایک دن میں چار چار سانحے ہوتے تھے ا ور سینکڑوں بے گناہ شہید ہو رہے تھے، فوج کے جوانوں کو بھی قید بنا کر گولیوں سے بھوناجاتا تھا ور پھر ان کے سر کاٹ کر ان کو فٹ بال کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ پاکستانی قوم داد کی مستحق ہے کہ وہ ان قیامتوں سے تو گزری مگر اس نے ہمت نہیں ہاری، پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے جانکاہ حادثے نے تو قوم کو جسد واحد کی طرح متحد کر دیا، دھرنے والوںنے دھرنا ختم کر دیا،۔ کینیڈا کا پردیسی واپس لوٹ گیا اوروہ جماعتیں جو دہشت گردوں سے مذاکرات پر اصرار کر رہی تھیں، وہ نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہو گئیں اور آپریشن ضرب عضب کو عوامی ا ور حکومتی اونر شپ مل گئی ۔اس سے مسلح افواج کو بھی حوصلہ ملا اور انہوں نے بیش بہا قربانیاں دے کر دہشت گردی کے فتنے کو بڑی حد تک کچل ڈلا۔ اب تو بیرونی طاقتیں میدان میں ہیں جنہوںنے اپنی سرحدیں دہشت گردوں کے لئے کھول رکھی ہیں مگر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمان سنبھالنے کے بعد جو تاریخی اقدام کیا وہ ڈ یورنڈ لائن پر باڑ لگانے کا تھا، کہاں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کوئی سرحد نہیں ہے اور افغان قوم ایک الگ اکائی ہے اور کہاں یہ کہ آزادی کے ستر سال بعد آرمی چیف اس موقف پر ڈٹ گئے کہ پاکستان ا ور افغانستان کی ایک سرحد ہے اورا س لکیر کے چپے چپے کی حفاظت کی جائے گی۔، افغان افواج نے قدرے شرارت کی تو آرمی چیف نے ان کے ملک میں گھس کر ان کی سرپھٹول کی،ا س کے بعد سے افغانستان کوکھل کر ہمارے خلاف کاروائی کرنے کی جرات نہیں ہوئی مگرا س کی سرزمین دہشت گردوں کے لئے اڈہ بنی ہوئی ہے۔بھارت بھی وہاں کھل کھیل رہا ہے ا ور امریکی اور نیٹو کی افواج بھی ڈیرہ ڈالے بیٹھی ہیںمگر پاکستان کی مسلح افواج نے ایک چومکھی جنگ لڑ کر ان کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔امریکی افواج تیس بر س سے دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں مگر دنیا میں دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے۔یہ کریڈیٹ صرف پاکستان کی بہادر افواج کو جاتا ہے کہ انہوںنے قربانیوں پر قربانیاں دیں مگر دہشت گردی کا قلع قمع کر کے رکھ دیا۔آج فاٹا میں اصلاحات کی بات کی جارہی ہے۔کراچی میں جہاں ہر لمحے لوٹ مار جاری تھی اور قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا، وہاںکے لوگ آج بلا خوف و خطر ساحل سمندر پر لطف اندوز ہو
رہے ہیں۔
اور مسلح افواج کی ان قربانیوں کے طفیل کم از کم ایک ملک نے یہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا آغاز کر دیا ہے۔یہ ملک چین ہے جس نے پہلے سی پیک کے نام سے منصوبہ بنایا اور اب اسے تین براعظموں پروسعت دے کر ون بیلٹ ون روڈ کے عظیم الشان پروگرام کا اعلان کر دیا ہے،اس پروگرام کی بنیاد پاکستان میں قیام امن پر ہے۔یہاں اگر امن قائم نہ ہتو تو چین کیا ،کسی چڑیا نے پر نہیںمارنے تھے مگر اب دنیا کی یہ بڑی معیشت اور ٹیکنالوجی کی جناتی طاقت پاکستان کے راسے تین براعظموں کو ایک معیشت کی لڑی میں پرونے کے لئے پر تول رہی ہے۔
میںنے دو تین مرتبہ لکھا ہے کہ نئے آرمی چیف دھیمے مزاج کے انسان لگتے ہیں۔انہوںنے ٹویٹ کے مسئلے پر بھی کسی انا کامظاہرہ نہیں کیا حالانکہ انہیں ادارے کے اندر سے سخت دباﺅ کا سامنا تھا۔پاراچنار کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بھی وہ خود موقع پر پہنچے، سپر لیگ کا فائنل کروانا بھی انہی کا انشی ایٹو تھا اور ملک میںمعمول کے حالات پیدا کرنے کے لئے عالمی فٹ بالروں اور ریسلروں کو بھی پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ کرکٹ ٹیم نے میچ جیتا تو ان کے لئے عمرے کاا علان کیا۔ اس طرح وہ سیاست کی گرما گرمی کو حالات کی نرما نرمی کا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں، شاید اسی مقصد کے لئے وہ اکیلے نکل کر ڈنر کے لئے بھی ریستوران جا پہنچے، اللہ کرے ان کی کوششیں رنگ لائیں ۔ وہ غازیوں اور شہیدوں کی روایات کی علم بردار فوج کے سپاہ سالار ہیں اور عوام اپنی سیکورٹی کے لئے انہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کا ڈنر بھی امن کا اعلان اور واضح نشان ہے ، عوام خاطر جمع رکھیں، پاکستان مملکت خداد داد ہے ، اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔