خبرنامہ

لاہور میں متحدہ اپوزیشن کا ناکام جلسہ…..اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

لاہور میں متحدہ اپوزیشن کا ناکام جلسہ…..اسداللہ غالب

کنیڈا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کو وہ ماحول میسرا ٓ گیا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوںنے لاہور میں ایک جلسے میں متحدہ اپوزیشن کے رہنماﺅں کو اکٹھا کر لیا۔اس جلسے کا ایک نکاتی ایجنڈہ تھا کہ شہباز شریف اور رانا ثنااللہ سے استعفیٰ لیا جائے۔ مگر یہ مقصد پورا نہیں ہو سکا۔جس پر مریم نواز نے طنز کیا کہ آئے تھے استعفے لینے مگر انہیں دینے پڑ گئے۔شیخ رشید کی وکٹ اس جلسے میں اڑ گئی، ڈاکٹر قادری نے الٹا انہیں مین آف دی میچ کہہ ڈالا، جو شخص اپنی اکلوتی سیٹ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا، وہ اس اعزاز کا کیسے مستحق ہو گیا۔

اس جلسے کی یہ واحد ناکامی نہیں تھی، ناکامیاں اور بھی ہیں۔
مجمع اکٹھا نہیں ہو سکا۔
تعجب خیز بات یہ ہے کہ اسٹیج پر اپوزیشن کے لیڈروں کی حاضری تو پوری تھی مگر پنڈال خالی خالی رہااور جو لوگ ا ٓئے بھی ان کے اندر جوش وخروش بھی نہیں تھا۔وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ یہ بھانت بھانت کے لوگ تھے جو گلی محلوں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے۔ جنہیں ان کے لیڈر اپنے مخالفین کو نفرت کا ٹیکا لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اب یکا یک ان کے درمیان محبت کے زمزمے تو نہیں پھوٹ سکتے تھے۔نفرت اس امر سے بھی عیاں تھی کہ یہ لوگ مجبوری کی وجہ سے آ تو گئے مگر جیسے ہی ان کے مخصوص لیڈر کی تقریر ختم ہوتی تو لیڈر بھی رخصت ہو جاتا اور ساتھ ہی اس کی پارٹی کے لوگ بھی گھر کی راہ لیتے۔ اس کی وجہ سے جلسے کے عین درمیان میں کیمرے خالی کرسیوں پر مرکوز ہوتے رہے۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز صورتحال تھی۔ جلسے میں زرداری اور عمران کے لئے الگ الگ سیشن رکھنے کی وجہ سے بھی حاضرین کے دل مخالف لیڈروں سے اچاٹ ہو گئے۔ ڈاکٹر قادری نے اعلان تو یہ کیا تھا کہ وہ زرداری اور عمران کو ایک ساتھ بٹھاکر دکھائیں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! یہ خواہش حسرت میں تبدیل ہو گئی۔
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اگر ایجنڈہ ماڈل ٹاﺅن کے مقتولین کا تھا تو ان کے لئے زرداری اور عمران ایک ساتھ اسٹیج پر کیوںنہ بیٹھ سکے، کیا انہی مقتولین کا جنازہ ہوتا تو عمران اور زرداری کے لئے الگ الگ جنازے پڑھائے جاتے۔مجھے سیاست دانوں کے اس رویئے پر ہنسی ا ٓتی ہے، وہ طعنہ تو مولوی صاحبان کو دیتے ہیں کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے مگر زرداری ا ور عمران میں سے تو کوئی مولوی نہ تھا، دونوں لبرل قسم کے سیاستدان تھے۔ انہوںنے متعصب مولویوں جیسا شیوہ کیوں اپنا لیا۔صاف ظاہر ہے کہ ایک اسٹیج پر اکٹھا ہونا محض منافقت تھی اور منافقت کی وجہ سے کوئی مشترکہ مقصد پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس جلسے کے ساتھ بھی یہی المیہ پیش آیا۔
شیخ رشید کے استعفے کی حقیقت کیا ہے
اسمبلیوں سے استعفے کے اعلانات تو ہوتے رہتے ہیں مگر اصل میں استعفیٰ کوئی نہیں دیتا۔ صرف مخدوم جاوید ہاشمی نے استعفیٰ دیا۔ تحریک انصاف کے استعفے مہینوں بعد بھی معافی تلافی پر واپس لے لئے گئے، استعفوں کی مدت کے دوران ان ارکان نے اپنا بھتہ بھی گن کر پورا پورا وصول کیا۔استعفوں کے بارے میں تجزیئے سننے میں آتے ہیں کہ اپوزیشن بالآخر سینیٹ کے انتخابات کو رکوانے کے لئے اسمبلیوں سے ا ستعفے دے ڈالے گی یا کچھ صوبوں کی اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی مگر حساب اور الجبرے کی رو سے تجزیہ کیا جائے تو جو کچھ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو موجودہ سسٹم کے چلتے رہنے سے سینیٹ کا حصہ مل سکتا ہے، اس کے پیش نظر استعفوں کی نوبت کبھی نہیں آئے گی ، مگر ہم نے دیکھا ہے کہ شیخ رشید نے استعفیٰ دے دیا اور عمران کو بھی اکسایا کہ پارلیمنٹ سے باہرا ٓﺅ تو عمرا ن نے ہنس کر کہا کہ میں آپ کی باتوں سے متفق ہوں ۔ انہوںنے یہاں تک کہا کہ جو پارلیمنٹ ایک نااہل کو پارٹی سربراہ بنانے کے لئے راتوں رات قانون منظور کر لیتی ہے ، ایسی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہوں۔ مجھے ابھی معلوم ہوا کہ عمران نے ٹویٹ کیا کہ وہ جمعرات کو ہی ایک تہلکہ خیز پریس کانفرنس کریں گے مگر اس وقت تک میرا کالم ایڈیٹر کے ڈیسک تک پہنچ چکا ہو گا اس لئے ابھی میں کوئی اندازہ لگانے سے قاصر ہوںمگر میںنے باخبر حلقوں سے فون پر مشورہ کیا ہے تو مجھے یہی بتایا گیا ہے کہ پرویز خٹک نے اسمبلی کی تحلیل کے امکان کو مسترد کیا ہے، دوسری طرف سید خورشید شاہ نے بھی کہا کہ جو لوگ پارلیمنٹ پر لعنت بھیج رہے ہیں انہیں اس میں رہنے کا حق بھی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سندھ اسمبلی نہیں ٹوٹے گی اور نہ پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ استعفے دیں گے تو اکیلے تحریک انصاف کے استعفوں سے سینٹ کے الیکشن نہیں رک سکتے اگر ساری اپوزیشن بھی پارلیمنٹ اور صوبائی ا سمبلیوں سے باہر آ جائے تو فوری الیکشن کا کوئی امکان نہیں، صرف ایک نگران حکومت بن سکتی ہے جس کا دورانیہ معمول سے زیادہ ہو گا کیونکہ اگلے ا لیکشن کے لئے ضروری ہے کہ نئی مردم شماری کے نتائج کی رو سے حلقہ بندیوں کی تشکیل نو ہو اور سیٹوں میں کمی بیشی کا حتمی فیصلہ سامنے آ جائے ،۔ اس ایکسر سائز پر وقت لگے گا جس کی وجہ سے الیکشن معمول کی تاریخ سے بھی زیادہ تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔ اس سارے کھیل سے مستعفی ہونے والے سراسر گھاٹے میں رہیں گے۔
شہباز شریف نے عمران کو ڈیفنسو پر ڈال دیا
سٹیج پرعمران خان کو جس کسی نے دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ کپتان بجھے بجھے سے ہیں اور ساری چوکڑی بھول چکے ہیں۔ وجہ ا سکی یہ تھی کہ شہباز شریف نے جلسے سے قبل قصور میں ایک پریس کانفرنس کر کے عمران کے خلاف ا ٓفنسو لانچ کر دیا تھا اور یہ سوال اٹھایا تھا کہ قصور جیسا سانحہ مردان میں ہوا ہے، ڈیرہ ا اسماعیل خان میں ہوا ہے کیا اب وہاں جا کر دھرنے دیئے جائیں گے اور احتجاجی جلسے کئے جائیں گے۔ شہباز شریف کے اس جارحانہ حملے نے کپتان کے قدم اکھیڑ دیئے ۔ عمران خان کے ہونٹ الفاظ کی تلاش میں کپکپا رہے تھے اور اسے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ وہ ماڈل ٹاﺅن ا ورقصور کے سانحوں کی طرف کیسے تقریر کا رخ موڑے، اس نے جتنے منٹ بھی تقریر کی ، اس کا ا ٓدھا حصہ عمران خان کو اپنی صفائیاں دینے پر گزر گیا۔ چنانچہ اس کی زبان وہ شعلے نہ اگل سکی جس کی ا سے عادت پڑ گئی تھی۔ شعلہ بیانی، آتش فشانی جو عمران کی تقریر کا خاصہ ہوتی ہے اس کے مقابلے میں ان کا خطاب پھس پھسا رہا۔ یوںشہباز شریف کی حکمت عملی کامیاب رہی ۔
طاہر القادری کب واپسی کا جہاز پکڑیں گے۔
ماضی کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ طاہر القادری پاکستان میں ٹک کر نہیں بیٹھ سکیں گے، ماضی میں وہ دو بارا ٓئے اور معاملات کو کلائمیکس پر پہنچایا اور پھر کسی کو بتائے بغیر واپسی کی ٹکٹ کٹوا لی، ایک بار تو وہ پاکستان آنے کے لئے لندن بھی پہنچے مگر وہیں سے واپس کینیڈا کی راہ لی۔ ڈاکٹر طاہر القادری سیماب صفت انسان تو ہیں۔ مگران میں توازن اور اعتدال نہیں۔ تحمل نہیں۔ یکسوئی نہیں۔ مستقل مزاجی نہیں۔ اس لئے ملک کی باقی پارٹیوں کو آئندہ کی جدو جہد اکیلے اکیلے ہی کرنا پڑے گی۔ قادری صاحب کے قیمتی مشوروں سے متحدہ اپوزیشن محروم ہو جائے گی۔ ویسے بھی قادری صاحب ٹک کر بیٹھ بھی جائیں تو انہیں اگلے الیکشن میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔انہوںنے الیکشن کا ایک تجربہ کیا، صرف اپنی سیٹ جیت سکے اور اس پر بھی لات مار دی۔
صفر کو صفر میں جمع کیا جائے تو نتیجہ صفر ہی ہو گا، یہی کچھ لاہور کے جلسے سے حاصل ہوا۔