خبرنامہ

لاہور کی خونی داستاں۔۔انداز جہاں۔۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ… لاہور پاکستان کا دل ہے اور چیئرنگ کراس لاہور کا دل، اس دل میں لاہورپولیس کے دلوں کو چھید کر رکھ دیا گیا، خدا ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، ان پولیس افسروں کا ،کام مذاکرات کاری نہ تھا۔ یہ کام خادم اعلی کا تھا، وزیر صحت کا تھا، سیلرٹری صحت کا تھا ، ،چیف سیکرٹری صحت کا تھا اور سب سے بڑھ کر اسمبلی کے اسپیکر کا تھا جس کا دروازہ اس خونچکاں چوک کی طرف کھلتا ہے مگر ان میں سے کسی نے اپنی ذمے داری محسوس نہ کی اور ایک سیاسی کام پولیس افسروں کیے سپرد کر دیا جو دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، اللہ نے انہیں شہادت کے مرتبے سے سرفراز کیا کہ وہ اپنی ڈیوٹی سے بالا تر ڈیوٹی ادا کر رہے تھے۔
لاہور ملک کے سب سے بڑے صوبے کا دارالحکومت ہے، یہاں راوی ہر سو چین لکھتا ہے، ا سلئیے کہ یہاں کے حکمران چین کی نیند سوتے ہیں اور چین سے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔وزیر اعلی ماڈل ٹاؤن کو ہیڈکوارڑ بنا کر بیٹھ گئے ہیں، صوبائی سیکرٹریوں کی جی او آر میں چڑیابھی پر نہیں مار سکتی، گوالمنڈی، کرشن گڑھ، اقبال ٹاؤن،یوحنا آباد میں جو مرضی دندناتا پھرے۔
میں تین چار روز قبل اتفاق مسجد کے قریب سے گزر رہا تھا کہ فون آگیا، فون سننے کے لئے گاڑی روک دی، پتہ نہیں کہاں سے ایک فرشتہ نازل ہوا ، گرج کر کہنے لگاکہ یہاں گاڑی نہیں کھڑی کر سکتے، میں نے گاڑی بائیں گھما کر ایچ بلا ک کی چوڑی سڑک پر کھڑی کردی، وہاں سے دائیں بائیں دو فرشتے آنازل ہوئے، وہی حکم کہ گاڑی یہاں نہیں کھڑی کر سکتے۔ میں نے عاجزی سے پوچھا کہ مجھے ایک ضروری فون سننا ہے، مریض ہسپتال میں تڑپ رہا ہے،۔ ننھی بچی کا سر پھٹ گیا ہے ا ور ڈاکٹر فوری آپریشن کا کہہ رہے ہیں، مجھے اس کے لئے ضروری انتظامات کرنے ہیں، صرف مجھے اتنا بتا دو کہ آپ لوگوں کا پہرہ اس سڑک پر کہاں تک ہے، انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ا س پوری سڑک پر، کل سترہ لوگ ڈیوٹی پر ہیں اور جہاں بھی رکیں گے ، وہ آپ کو چلتا کردیں گے، یہ سارے انتظامات خادم اعلی کو محفوظ بنانے کے لئے کئے گئے تھے، میں اس سے پہلے یہ سوال اٹھا چکا ہوں کہ وزیر اعلی کے دفاتر اور ان کی رہائش گاہ کے قریب ہی ایک سرکاری دفتر ہے، وہاں سے میرے نیٹے کی موٹرسائیکل چوری ہو گئی، اس پر پولیس کا پہرہ کیوں نہ تھا، کیا صوبے ی کی پویس صرف خادم اعلی کی حفاظت کے لئے کھڑی گئی ہے، اورعوام ڈھور ڈنگر ہیں کہ انہیں جو مرضی چیرتا پھاڑتا پھرے۔وزیر اعلی اپنے دفاتر میں جاناپسند نہیں کرتے، صرف ویڈیو کانفرنس سے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں، کاش! یہ وڈیو کانفرنس حضرت عمرؓ کو بھی نصیب ہوتی، انہیں اپنے غلام کے ساتھ اونٹ پر سوار ہو کر ہزاروں میل کا سفر طے کر کے مفتوحہ علاقے میں نہ جانا پڑتا اور کاش مسجد نبوی کے ارد گرد بھی پولیس کی اتنی نفری تعینات ہوتی جو کسی دہشت گرد کو حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓ تک نہ پہنچنے دیتی۔ کاش! یہ پولیس اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ کی سیکورٹی کا اہتمام بھی کرتی تاکہ وہ طائف میں مشٹنڈوں کے ہاتھوں خون میں لت پت نہ ہوتے۔
پنجاب میں ہر سو روای چین لکھتا ہے،اسی لے جنرل راحیل کی فوج ا ور رینجرز کو اس صوبے میں ضرب عضب کی اجازت نہ ملی ا ور نیشنل ایکشن پلان کو پنجاب کی سرحدوں کے اندر ہوا نہیں لگنے دی گئی، ساری سختیاں ، شمالی وزیرستان ، کراچی ا ور بلوچستان کے لئے تھیں ، میں ان سختیوں کی تفصیل میں نہیں جاناچاہتا،صرف ایف سولہ ا ور تھنڈر طیاروں کا ذکر کروں گا جو بلندیوں سے دس ہزار پونڈ وزنی بم برساتے تھے ، ایسے بموں سے بستیاں سرمے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ مگر پنجاب ان سختیوں سے محفوظ رہا، اسکے باوجود محفوظ رہا کہ پنجاب میں واقع جی ایچ کیو پر یلغار ہوئی، لاہور میں واقع ایف آئی کے ہپڈ آفس پر دو مرتبہ یلغار ہوئی، لاہور ہی میں مناواں پویس سنٹر پر دو مرتبہ یلغار ہوئی، اور اسی لاہور کے چیئرنگ کراس پر آئی ایس آئی کے دفتر پر یلغار ہوئی، لاہور کی اسی مال روڈ پر نیول کالج کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی، لاہور ہی میں داتا دربار کو خون کا غسل دیا گیا، لاہور کے اقبال ٹاون میں دومرتبہ خون کی ہولی کھیلی گئی اور لاہور ہی کے گلشن اقبال میں پھول جیسے بچوں کے جسم قیمہ بنے۔ اسی لاہور کی دینی درسگاہ میں سرفراز نعیمی کو شہید کیا گیا۔اور اسی لاہور کے آر اے بازار میں فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، قلعہ گجر سنگھ اور واہگہ بارڈر کو خون سے نہلایا گیا، پرانی انارکلی میں دو مرتبہ بم پھٹے ،لاہور میں سب کچھ ہوتا رہا،ا سکے باوجود لاہور میں راوی ہر سو چین لکھتا رہا۔ لاہور کا کوئی حاکم یا ا س کامحکمہ یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھا کہ اس شہر کے لوگوں کی زنگیاں خطرے میں مبتلا ہیں۔میں نے فرقہ وارانہ سانحوں کا تذکرہ چھوڑ دیا ہے۔چہلم امام حسین ؓ اور یوم شہادت علیؓ پر لاہور میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔
اصل میں لاہور کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ لاہوریئے زندہ دل ہیں۔ بسنت باز ہیں ، کبوتر باز ہیں، وہ کھلونوں سے دل بہلانے کے عادی ہیں ، پہلے انہیں میٹرو بس کا کھلوناملا، اب اورنج ٹرین کا سہاناخواب پورا ہونے کے قریب ہے، پھر نہ جانے کونسا جھنجھنا دکھا دیا جائے، لاہور شاہراہ ریشم سے سینکڑوں میل دور ہے، کسی لحاظ سے جغرافیائی رابطہ بھی نہیں بنتا مگر لاہور اورا سکے ارد گرد جو کچھ بن رہا ہے ،ا سے سی پیک کے تقدس سے جوڑ دیا گیا ہے ا ور سی پیک کے دشمنوں کو ملک دشمن کا خطاب دے دیا گیا ہے۔
لاہور بہر حال پنجاب کا دارالحکومت ہے ۔ اور پنجاب بہر حال پاکستان کا حصہ ہے اور پاکستان کے مصائب کا سایہ پنجاب پر بھی پڑتا ہے، کوئی سد سکندری ان مصائب کو پنجاب تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی، پنجاب والے ان مصائب و آلام کا شکار ہیں ، ہر چند شہباز شریف نے کہا تھا کہ دہشت گرد پنجاب کو معاف رکھیں، شہباز شریف ، ان دہشت گردوں کو معاف کر سکتے ہیں مگر دہشت گرد پنجاب کو معاف کرنیو الے ہر گز نہیں، اسلئے پنجاب حکومت ا ورا سکی انتظامی مشیشری کو حقیقت پسند بننا پڑے گا، کچھ دیر فوج ا وررینجرز کے کڑوے گھونٹ کو برداشت کرناہو گا تاکہ رہے سہے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جاسکے، نیشل ایکشن پلان کے جن حصوں کو نظر انداز کیا گیا ہے، ان میں حافظ سعید کے بجائے ان کالعدم دہشت گرد تنظیموں کا ذکر ہے جو پاکستان کی حدود میں دہشت گردی کرتی ہیں۔ تو ان تنظیموں کا گلا گھونٹا جائے، ان کے نخرے برداشت نہ کئے جائیں۔
دہشت گردی سے نجات پانا ایک سائنس ہے، پاک فوج نے ا س سائنس میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، ساری دنیاا س کی صلاحیتوں کا لوہا مانتی ہے، پنجاب کو بھی اس فوج کی صلاحیتوں سے فائدہ ا ٹھانا چاہئیے، یہ اپنی فوج ہے، بھارت کی نہیں ، نیٹو کی نہیں اورا س فوج میں اپنے ہی بھائی بند ہیں جنہیں اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی جان اپنی جان سے عزیز تر ہے۔
پنجاب کو بچانے کے لئے اس نسخہ کیمیا کو آزمائے بغیر چارہ نہیں۔ پٹواری تو صوبے کی حفاظت نہیں کر سکتے