خبرنامہ

مائنس نواز شریف فارمولہ نہیں چلے گا……اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مائنس نواز شریف فارمولہ نہیں چلے گا……اسداللہ غالب

لندن پلان بہت بنتے رہے اور بہت مشہور بھی ہوئے، اب ایک نئے لندن پلان کا چرچا ہے اور سننے میں آرہا ہے کہ نوازشریف نے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے یہ پلان تشکیل دیا ہے جس پر باقی سب سے انگوٹھے لگوا لئے گئے ہیں، ایک تو باقی سب انگوٹھا لگانے والے منہ میں انگوٹھا چوسنے کی عمر سے بہت آگے نکل گئے ہیں یہ خرد مند، مدبر اور تجربے سے مالا مال سیاستدان ا ور حکمران ہیں۔ دوسرے نواز شریف کو اپنی بالا دستی مسلط کرنے کی ضرورت کیا تھی، کیاان کی بالا دستی کو کوئی چیلنج در پیش تھا، میںنواز شریف کو انیس سو چوارسی سے جانتا ہوں اور اگلے ایک سال تک میںنے ان کے بہت قریب رہ کر صحافت کی ہے ، میںنے پہلے دن سے انہیں بالا دست دیکھا، انہیں جس کسی نے چیلینج کیا، وہ خوار و زبوں ہو گیا۔ پہلا چیلنج چودھریوں نے کیاا ور وہ چند روز میں ڈھیر ہو گئے، ان کی قسمت پڑیا تو تب نکلی جب نواز شریف کو سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا، ایسے عالم میں تو کوئی بچہ سقہ بھی چام کے دام چلا لیتا ہے، چودھریوں کو تین ماہ کی وزارت عظمی اور پانچ سال کے لئے و زارت اعلی مل گئی تو کونسا معجزہ ہو گیا۔اس کے علاوہ نواز شریف کو کبھی کسی نے چیلینج نہیں کیا۔ اور اگر کیا تو نواز شریف نے برملا کہا کہ وہ نہ جھکیں گے، نہ بکیں گے، نہ کسی سے ڈکٹیشن لیں گے، نواز شریف کی کنپٹی پر پستول رکھ کر ان سے ا ستعفی لینے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی۔پستول کے ٹریگر پر رکھی انگلی بزدل نکلی۔
تو آج کون ہے جو نواز شریف کو چیلنج کرے۔عمران خان چار سال سے نواز شریف کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھا ہے، اس کی آنکھیں امپائر کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں پتھرا گئی ہیں۔
جن کی زبانیں دراز ہیں ، گز بھر کی ہیں وہ کہتے ہیں کہ نوازشریف اداروں پر دبائو بڑھانے کے لئے دائو پیچ آزما رہے ہیں، کیا خوب بات کہی۔ دبائو میں نوازشریف ہیں یا ادارے ہیں ۔ حکومت سے نواز شریف کو نکالا گیا ہے یا نواز شریف نے کسی ادارے میں سے کسی کو نکالا ہے یا اس پر من مرضی مسلط کی ہے۔ مقدمے نواز شریف پر ہیں، ریفرنس نواز شریف پر ہیں۔مچلکے نواز شریف سے طلب کئے جا رہے ہیں، قابل ضمانت اور ناقابل ضمانت وارنٹ نوازشریف کے جاری ہو رہے ہیں، اور اکیلے نواز شریف پر یہ سارا دبائو نہیں، ان کے بیٹوں، بیٹی، بھائی، سمدھی، کزنز ، غرض پورا خاندان دبائو کا شکار ہے اور قبر میں سوئے ہوئے ان کے والد گرامی کی روح بھی ۔۔۔ اور گز بھر زبانوں والے کہتے ہیں کہ نواز شریف اداروں پر دبائو ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے یہ کہا جائے کہ ایک صحافی نے نامعلوم لوگوں پر تشدد کیا اور دو بار کیا ہے۔
کیا قومی حکومت یا ٹیکنو کریٹ حکومت کے شوشے نواز شریف چھوڑ رہا ہے یا نواز شریف پر دبائو بڑھانے کے لئے یہ شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کی اہلیہ بیمار ہیں، اور لندن میں زیر علاج، کیا نواز شریف ان کی عیادت ا ور خبر گیری کے لئے لندن نہ جائے اور اگر ان کا قیام اس بیماری کی وجہ سے طویل ہو جائے تو کیا وہ ساتھیوں سے صلاح مشورہ ترک کر دیں، کیا وہ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ اور ملک کو قومی حکومت یا ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے شکنجے میں جانے دیں، کیا نواز شریف کی حکمران پارٹی ملک کو داخلی ا ور خارجی خطرات پر غور نہ کرے اور اگر یہ کام کرنے بیٹھے تو کیا اس کا نام لندن پلان ہو گا۔ ویسے لندن پلان کے نام میں ہرج بھی کیا ہے۔ جنرل ڈیگال نے اسی لندن میں بیٹھ کر اپنے ملک کی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اور کامیابی سے لڑی تھی۔
نواز شریف حالات سے لا تعلق نہیں رہ سکتے، ان کی ساری عمر کی سیاست دائو پر لگی ہوئی ہے۔ انہوںنے ا س ملک کو موٹر ویز کے تصور ہی سے نہیں، عملی شکل سے بھی آشنا کیا، اس نے سی پیک کو پروان چڑھایا، اس نے ملک میں لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو ختم کیا۔ یہ سارے کام اپنی منزل کے بہت قریب ہیں اور اگر ان پر نظر نہ رکھی گئی تو منزل کھوٹی بھی ہو سکتی ہے، نواز شریف کی نہیں، اس ملک کی اور اس ملک کے عوام کی بلکہ سی پیک کے پس منظر میں تین بر اعظموں کی۔ نواز شریف نے معمولی کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالا۔ وہ گنڈیریاں بیچنے کے لئے وزیر اعظم نہیں بنے، ان کے ذہن میں اس ملک کے لئے بڑے بڑے منصوبے ہیں اور وہ انہیں ادھورا نہیں چھوڑ سکتے۔
نواز شریف نے ملک سے دہشت گردی کا بھی خاتمہ کیا ہے۔کہا ں جنرل مشرف کا دور کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان بھی محفوظ نہ رہی، کہاں زرداری کا دور کہ اس ملک کا اقتدار اعلی بھی محفوظ نہ رہا اور امریکہ نے براہ راست ایبٹ آباد کو جارحیت کا نشانہ بنایا ، آج ملک سکون میں ہے، معیشت کا پہیہ چل نکلا ہے، ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ہو گیا ہے، بھتہ خوروں کو شکنجے میں کس لیا گیا ہے، یہ امن نواز شریف کا تحفہ ہے اور نواز شریف کی کوشش ہو گی کہ وہ اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں لیکن ملک کے حالات پٹڑی سے نہ اترنے پائیں۔ اس مقصد کے لئے ایک لندن پلان نہیں ،سوبار لندن پلان بننے چاہیئں۔
لندن پلان کا ایک اہم فیصلہ امکانی طور پریہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کی طرف سے وزارات عظمی کا امیدوار کون ہو گا۔ اندازہ یہ ہے کہ اس منصب کے لئے شہباز شریف سے زیادہ مناسب امیدوار کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ وہ وسیع سیاسی، حکومتی اور انتظامی تجربے سے مالا مال ہیں، میری رائے میں تونوازشریف کی نااہلی کے فوری بعد ہی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا لینا چاہیئے تھا مگر جیسے پارٹی قیادت کی مرضی۔،انہیں الیکشن تک پنجاب میں رکھ کر یقینی طور پر بہتر نتائج کی توقع کی جارہی ہے۔اگر ایساکوئی فیصلہ ہو گیا ہے تو اب یہ بحث ختم کہ جانشینی کی دوڑ میں مریم نواز اور حمزہ شہباز میں سے کون آگے کون پیچھے، اس فیصلے سے یہ ہمیشہ کے لئے طے ہو گیا کہ سیاسی رہنما ئی کا حق نواز شریف کو ہی بلا شرکت غیرے حاصل ہے۔ سارے فیصلوں کا آخری اختیار انہی کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس فیصلے پر کسی کو چین بجبیں نہیں ہونا چاہیئے۔ پاکستان اور بھارت میں ہر سیاسی پارٹی شخصیات کے ارد گرد ہی گھومتی ہے اور جب تک جمہوتیت کی جڑیں گہری، مضبوط، مستحکم اور پائیدار نہیں ہو جاتیں تب تک پاکستان کی سیاست معدودے چند افراد کے ہاتھوں میں ہی رہے گی۔میاںنوازشریف نے طویل سیاسی جدو جہد کی ہے، جلیں کاٹی ہیں، مقدمے بھگتے ہیں اور پستول کی نالیاں انہی کی کنپٹی پر رکھی گئی ہیں، اس لئے وہ اپنی پارٹی کے رہنما تو ہیں ہی، میں انہیں پاکستان کے عظیم رہنمائوں میں شمار کرتا ہوں۔ایک مدبر رہنما کے منصب پر فائز ہو نے کے لئے کسی لندن پلان کی قطعی ضرورت نہیں، یہ خدا کی دین ہے جسے چاہتا ہے ، اسے عزت سے سرفراز کرتا ہے۔