خبرنامہ

مثالی فوج کو وزیر اعظم کا خراج تحسین….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مثالی فوج کو وزیر اعظم کا خراج تحسین….اسداللہ غالب

کنٹرول لائن پر دگر گوں صورت حال ہے ۔بھارتی جارح افواج کی گولہ باری ایک معمول بنتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان اور آزاد کشمیر کے بے گناہ شہری شہید ہو رہے ہیں۔

بھارتی جارحانہ گولہ باری کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اپنی سرشت اور عادت بد سے باز نہیں رہ سکتا، دوسرے پاکستان کے اندرونی انتشار کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ اسو قت حکومت اور فوج میں دوری اور اختلاف واقع ہو چکا ہے۔دفاعی خطرات کے مقابل فوج اور حکومت کا ہی نہیں ، فوج اور ملکی عوام کے مابین یک جہتی کا ہونا ضروری ہے اور یہ اتحاد دنیا اور دشمن کو صاف نظر آنا چاہئے تاکہ وہ اپنی شطنیت سے باز رہے۔ 65ءمیں قوم اپنی فوج کی پشت پر کھڑی تھی ، اس لئے بھارتی جارحیت کے سامنے ہماری مٹھی بھر افواج نے ملک کا دفاع کامیابی سے کر لیا مگر 71ءمیںمشرقی پاکستان کی حد تک فوج اور قوم کے درمیان تصادم ہو رہا تھا، جس کا بھارتی افواج نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو ایک برق رفتارحملے میں دو لخت کر دیا۔ 84ءپچاسی میں پاکستان ایک بار پھر انتشار کا شکار تھا جنرل ضیاالحق مارشل لا کے دوران پیپلز پارٹی کے لیڈر بھٹو پھانسی دے چکا تھا، کارکنوں پر کوڑے برسائے جا رہے تھے ،عوام کا ایک حصہ فوج کے ساتھ متصادم تھا ، ایک طرف الذولفقار کے انتہا پسند حکومت سے متصادم تھے اور پھر ایم آ ٓر ڈی نے سندھ میں ادوھم مچا رکھا تھا، اس صور ت حال کا بھارت نے فائدہ یوں اٹھایا کہ اس نے چوروں کی طرح سیاہ گلابوں کی سرزمیں سیاچن گلیشیئر پر قبضہ جما لیا اور آج تک قائد پوسٹ پر اسی کا قبضہ ہے، سیاچن کا محاز جنگ دنیا میں بلند ترین محاذ قرار دیا جاتا ہے، اس بلندی پر کسی سورما نے لڑائی نہیں کی مگر پاکستان کو یہاں بھارت نے بُری طرح الجھارکھا ہے، اس محاذ پر اگر لڑائی میں کسی کی جان نہ جائے تو موسم سب سے بڑا دشمن ہے اور وہ انسان کی ہڈیوں تک کو تروڑ مروڑ دیتا ہے۔
اسی پس منظر میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو یہ بتانے کے لئے کہ پاکستان میں فوج اور حکومت میں کوئی دشمنی یا دوری نہیں اور وہ ایک صفحے پر ہیں، دونوں نے اکٹھے کنٹرول لائن کا دورہ کیا۔ زخمیوں کی عیادت کی، شہیدوں کے ورثا کوپرسہ دیا اور مورچوںمیں ڈیوٹی پر مامور فوجیوں کو تھپکی دی، یہ اعلان بھی کیا گیا کہ شہیدوں اور زخمیوں کی امدادی رقوم میں اضافہ کیا جائے گا اور اصل ا علان وزیر اعظم نے کیا کہ پاک فوج کادنیا میںکوئی ثانی نہیں۔ اس نے دہشت گردی کی جنگ تن تنہا جیتی جبکہ ا فغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج اپنے مشن میں بری طرح ناکام ہیں ، وہ افغانستان پر کنڑول مکمل نہیں کر سکیں اور ملک کا بڑا حصہ برسوں سے افغان طالبان کے قبضے میں ہے، کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق امریکہ اپنی ناکامی کی ذمے داری پاکستان پر ڈالتا ہے کہ اس نے حقانی نیٹ ورک کو پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں، امریکہ کیوںنہیں سمجھتا کہ جس حقانی نیٹ ورک کے پاس اپنے ملک کے بڑے حصے کا قبضہ موجود ہے توپھر اسے فاٹا میں پناہ لینے کی کیا ضرورت۔بہرحال دہشت گردی کی جنگ میں پاک فوج نے جو فقیدا لمثال کامیابی حاصل کی، اس کی طرف وزیر اعظم عباسی نے بھی اشارہ کیا ہے ا ور عالمی دارلحکومتوں میں بھی پاک فوج کے اس کردار کی تو صیف کی جاتی ہے۔
وزیراعظم نے یہ کہہ کر کہ پاک فوج کا کوئی ثانی نہیں ، بھارت کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس وقت پاک فوج ا ور حکومت میں کوئی اختلاف نہیں اور بھارت یہ فرض نہ کر لے کہ نواز شریف کے خلاف مقدموں ا ور نااہلی کے فیصلوں کی وجہ سے کوئی دوری واقع ہو چکی ہے اور وہ اس مفروضے پر کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر جارحیت نہ کرتا رہے کہ اسے کوئی جواب دینے والا نہیں۔ یہ جواب پاک فوج دے گی اور مسکت طریقے سے دے گی اور منہ توڑ جواب دے گی اور پاکستانی عوام ا ور حکو مت اپنی بہادرا فواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔
میں اپنے وزیر اعظم کے اس انشی ایٹو کی جس قدر داد دوں کم ہو گی کہ انہوںنے آرمی چیف کے ساتھ اکٹھے کنٹرول لائن کا دورہ کیا ہے۔ جس طرح وزیراعظم نے آرمی چیف کے ساتھ مل کر سفر کیا ہے اور فوج کی تعریف کی ہے، اسی طرح آرمی چیف بھی وزیراعظم ہاﺅس آتے جاتے رہیں اورحکومتی کارکردگی کی تعریف کریں۔نواز شریف کے خلاف مقدمے اپنی جگہ، ان کے میرٹ اور ڈی میرٹ پر بحث ہو سکتی ہے مگر نواز شریف ا ور ان کی پارٹی نے اپنے مختلف ادوار حکومت میں اس ملک کو پاتال سے اٹھا کر افلاک کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ اس ملک میں کوئی موٹر وے نہیں تھی ، نوا زشریف نے موٹر وے بنائی، یہاں کوئی میٹرو بس نہیں تھی، مسلم لیگ ن کے پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شرف نے نہ صرف لاہور میں میٹرو بنائی بلکہ پنڈی، اسلام آبادا ور ملتان میں میٹرو بسیں چلائیں اور اب لاہور میں اورنج ٹرین کا منصوبہ پروان چڑھنے کے قریب ہے مگر اس لئے لٹکا ہوا کہ عدالتوںنے سٹے آرڈر اشو کر رکھا ہے۔ پھر اس ملک میں اندھیروں کی اندھیر گردی مچی ہوئی تھی، بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ زرداری حکومت سے ورثے میں ملی تھی مگراب لو گ اس لوڈ شیڈنگ کو بھول گئے، یہ قصہ پارینہ بن گئی، اب ملک میں دس ہزار میگا واٹ کے نئے منصوبے پروان چڑھ چکے ہیں اور وہ وقت آیا چاہتا ہے جب ہم فالتو بجلی ہمسایوں کو فروخت کر سکتے ہیں۔ اس حکومت کی اسکیمیں ان گنت ہیں، دانش اسکول ، لیپ ٹاپ اسکیم ، غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لئے انڈو منٹ اسکیم اور مکمل وظائف۔ بہرحال یہ موقع نہیں کہ میں اس حکومت کے قصائد بیان کروںمگر میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ اگر یہ حکومت فوج کی کارکردگی کی تعریف و توصیف کرتی ہے تو فوج بھی جواب میں اس حکومت کے اچھے کاموں اور کارناموں کی تعریف ضرور کرے، تاکہ ہر دوست دشمن پر واضح ہو سکے کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ جب پشاور میں ننھے بچوں کی شہادت ہوئی تو اس وقت نوازشریف اور سارے قومی سیاسی ، مذہبی لیڈر نیشنل ایکشن پلان پر دستخط نہ کرتے اور ضرب عضب کی پشت پر کھڑے نہ ہوتے تو کیا ہم دہشت گردوں سے چھٹکارا پا سکتے تھے۔ ایک منتشر قوم کبھی داخلی ا ور خارجی محاذ پر کامران نہیں ہو سکتی، اس کے لئے وہی جذبہ دکھانا پڑے گا جس طرح وزیراعظم عباسی اور آرمی چیف باجوہ نے ایک ساتھ کنٹرول لائن کا دورہ کیا۔ ظاہر ہے یہ کوئی تفریحی سفر نہیں تھا، یہ وہاں پکنک منانے نہیں گئے تھے بلکہ جس طرح لیاقت علی خاں نے بھارت کو آہنی مکا دکھایا تھا، اسی طرح آج کی مخدوش ملکی صورت حال میں انہوںنے مشترکہ دشمن کے سامنے مکا لہرایا ہے۔