خبرنامہ

مذاکرات پر ڈرون حملہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مذاکرات پر ڈرون حملہ

امریکہ کا ہدف کیا تھا، کیا نہیں تھا مگر ڈرون حملے کا اصل نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ طالبان نے مذاکرات کی پیش کش واپس لے لی ہے اور پاکستان اور امریکہ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح امریکی ڈرون حملے میں صرف ولی الرحمن محسودہی ٹارگٹ نہیں بنے بلکہ متوقع امن مذاکرات کے پرخچے اڑ گئے ہیں۔
ڈرون حملہ کی ٹائمنگ بھی محل نظر ہے۔ پاکستان میں الیکشن مہم کے دوران امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ بند رکھا۔ آخری حملہ سترہ اپریل کو کیا گیا تھا۔ اور پھرانتیس مئی تک ڈرون محاذ پر خاموشی طاری رہی۔ اس کا کیا مطلب تھا۔ صرف یہ کہ امریکہ اس الیکشن مہم میں اپنے آپ کو متنازع نہیں بنانا چاہتا تھا۔ لیکن ڈرون حملوں پر ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں ایک موقف اختیار کر چکی تھیں جس کا اظہار بہر حال الیکشن مہم کے دوران ہوتا رہا۔ دونوں پارٹیاں ڈرون حملوں کے خلاف ہیں۔
اسی دوران امریکی صدر اوبامہ نے نئی ڈرون پالیسی کا اعلان کیا جس کی رو سے ڈرون حملوں کا اختیار پینٹاگان کو دے دیا گیا لیکن پاکستان میں ڈرون حملے بدستورسی آئی اے کے ہاتھ میں رکھے گئے۔ پینٹاگان کی طرف سے کئے گئے حملوں کی جانچ پڑتال امریکی کانگریس اور عوام دونوں کر سکتے ہیں لیکن سی آئی اے من مانی کرنے کے لیے آزاد ہے۔
تازہ ترین ڈرون حملے نے نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ ڈرون حملوں کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔ پی ٹی آئی کو صرف ایک صوبے میں حکومت کا مینڈیٹ ملا ہے، فاٹا اس کی حدود میں نہیں اور آئین کے تحت دفاع اور خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اس کا براہ راست کوئی عمل دخل نہیں۔ وہ صرف بیانات دے سکتی ہے۔ عمران خاں نے تازہ ترین بیان میں ن لیگ کے سربراہ پر زور دیا ہے کہ وہ ڈرون حملے رکوانے کی ذمے داری پوری کریں۔ ظاہر ہے اب ساری ذمے داری ن لیگ کے سرآن پڑی ہے جسے عوام نے ایک واضح مینڈیٹ دیا ہے اور اس مینڈیٹ میں ڈرون حملوں کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ابھی نوازشریف قدم بھی نہیں جما پائے کہ امریکہ نے ان کے لیئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
ایک طرف امریکی قانون ہے جو امریکی صدر کو اس امرکا پابند بناتا ہے کہ وہ اپنے ملک اور قوم کو لاحق ممکنہ خطرات سے بچانے کے لیے کوئی بھی کارروائی کریں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کا ایک چارٹر ہے جس کے تحت ہر ملک کے اقتدار اعلی کا احترام ضروری ہے مگر امریکہ اس چارٹر کی کھل کر خلاف ورزی کر رہا ہے۔ امریکہ نے صدر بش کے دور میں ایک کروسیڈی جنگ کا آغاز کیا، اور اگلے صدر اوبامہ نے اس کو جاری رکھا۔ پاکستان میں جنرل مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا اور اگلے صدر زرداری نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا۔ پاکستان میں حکومت تبدیل ہوگئی ہے اور وار آن ٹیر پر پالیسی بدلنے پر زور دیا جارہا ہے۔ یہ پالیسی کیسے پروان چڑھائی جاسکتی ہے، یہی نواز شریف کی حکومت کا امتحان ہے۔ اپوزیشن میں بیٹھ کر نعرے لگانا آسان ہے مگر ان نعروں کوعملی شکل دینا بہت بڑا چیلنج ہے۔ اب اپوزیشن پارٹیاں ن لیگ کو اس کے وعدے یا دلا رہی ہیں اور ڈرون حملوں کا تدارک کرنے کے مطالبے زور پکڑ رہے ہیں۔ ن لیگ کے راہنما میاں نواز شریف کو حلف لینے کے بعد جوتقریرکرنی ہے، اس کا مسودہ تیار بھی ہے تو اس میں ردو بدل کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کی طرف اشارہ ضرور کرنا پڑے گا مگر ان کے سامنے آپشن بہت محدود ہیں۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کامل بھی ایک ڈرون حملے کی مار ثابت ہوا۔ تحریک طالبان اپنے ایک کمانڈر کی موت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں جبکہ پاکستانی قوم سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ چالیس ہزار جانوں کے ضیاع کو بھول جائے۔ آرمی چیف جنرل کیانی نے اپنی قربانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر طالبان سے بات کرنی ہے تو پھر انہیں پاکستان کے آئین کی پابندی کرنا ہوگی، مگر اس موقف پر کہا گیا کہ جنرل کیانی نئی حکومت کے لیئے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ اس امر کا فیصلہ تو تب ہوگا جب نئی حکومت اپنا لائحہ عمل بیان کرے اور طالبان سے مذاکرات کی میز سجائے مگر یہ میز تو خود طالبان نے الٹ دی ہے۔ ماضی میں کئی بار امن معاہدے ہوئے مگر پروان نہ چڑھ سکے، کسی نے کہا کہ پاک فوج نے ان کی خلاف ورزی کی، کسی نے طالبان یا متعلقہ فریق کو دوش دیا۔ مگر اب تو ڈرون حملہ پاکستان نے نہیں، امریکہ نے کیا ہے تو مذاکراتی عمل کا خاتمہ کیوں کیا گیا ہے اور پاکستان سے انتقام لینے کی دھمکی کس بناپر دی گئی ہے، ڈرون حملہ پاکستان سے پوچھ کر نہیں کیا گیا، اس کی اطلاع پرنہیں کیا گیا، اگرحکیم اللہ محسود کی پناہ گاہ کاعلم پاکستانی افواج کو ہو جاتا تو وہ خود کوئی کارروائی کرتیں۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز تو تنقید کی زد میں ہیں کہ ان کی انٹیلی جنس نہ اسامہ بن لادن کاپتا چلاسکی اور نہ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کا۔
ڈرون حملے ہر حالت میں پاکستان کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی ہیں۔ اسی بنا پر ہمارا دفتر خارجہ ہمیشہ ان پر احتجاج کرتا رہا ہے مگر اس پر بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک خفیہ مفاہمت ہے کہ امریکہ ڈرون حملے کرتا رہے گا اور حکومت پاکستان احتجاج کر کے اپنے عوام کو بیوقوف بناتی رہے گی۔ ہوسکتا ہے ماضی میں یہی صورت حال ہومگر آنے والی حکومت، نئی خارجہ اور دفاع پالیسی تشکیل دینے کا مینڈیٹ رکھتی ہے۔ میاں نواز شریف کی پارٹی کے لوگ اگر حلف سے پہلے ہی سرکاری محکموں میں مداخلت کے لیے آزاد ہیں تو حلف کے بعد تووہ کلی اختیارات کے مالک ہوں گے۔ اس لئے توقع کی جانی چاہئے کہ وہ محکم فیصلے کریں گے، ملک اور قوم کے مفاد میں پالیسیاں تشکیل دیں گے، میں یہ تو نہیں کہتا کہ وہ امریکہ کونکیل ڈالیں گے لیکن کم از کم ملک کے اقتدار اعلی کا احترام ملحوظ رکھنے کے لیئے امریکہ کو دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی خارجیم کے گھر والوں کو پارلیمنٹ کی ٹکٹ دینے سے نہیں، اس ٹیم کی مہارت سے مسائل حل ہوں گے۔
رہا عمران خان کی پارٹی کا مسئلہ تو وہ شور شرابا مچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گی، فرینڈلی اپوزیشن کے بجائے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی مگر کیسے، کیوں کر، اس کا جواب عمران خان کے پاس ہوسکتا ہے۔ میرے ذہن میں تو اس کی شکل وصورت وا ضح نہیں۔ میری آس صرف ایٹمی پاکستان سے وابستہ ہے۔ اور اس قوت کونوازشریف اور عمران خان بھی اپنی قوت بنالیں تو پاکستان کی خودمختاری کود رپیش چیلنج ہوا ہو جائیں گے۔ (یکم جون 2013ء)