خبرنامہ

مذاکرات کا راستہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مذاکرات کا راستہ

سری لنکا نے تین عشروں تک خون بہانے والوں سے لڑائی جاری رکھی اور بالآخر ان کا صفایا کر کے دم لیا۔ میں جنگوں کی تاریخ میں ذرہ بھر مہارت نہیں رکھتا اور یہ کالم لکھتے ہوئے مختصر سے وقت میں میرے لیئے حساب لگانا ممکن نہیں کہ ویت نام اور آئرلینڈ کی جنگ کتنا عرصہ جاری رہی مگر امریکہ یا برطانیہ میں سے کسی نے بھی دس بیس تیس سال بعد بھی مذاکرات کا راستہ اختیار نہ کیا۔ پہلی جنگ عظیم کتنا عرصہ جاری رہی اور کیسے ختم ہوئی اور دوسری جنگ عظیم کیسے شروع ہوئی اور کس طرح امریکہ نے دو ایٹم بموں سے تباہی پھیلا کر حریف کو امن کی بھیک مانگنے پر مجبور کیا، اس کہانی کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ بھارت میں کئی درجن علاقوں میں شورش برپا ہے مگر اس ملک نے ہر جگہ فوجی طاقت سے اسے کچلنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے کشمیر میں بھارتی فوج کے جبرکو چھیاسٹھ برس ہو چکے ہیں۔ اور بھارت میں کسی ایک شخص نے بھی کشمیریوں سے مذاکرات کی بات تک نہیں کی، بس آئین میں ترمیم کر کے اسے اپنا اٹوٹ انگ بنالیا اور چھ سات لاکھ فوج چھوٹی سی وادی میں گھسیڑ دی۔ ہمارے پڑوس میں یہ ہے مزاحمت پر قابو پانے کا طریقہ۔ وہاں کوئی نہیں کہتا کہ فوج نے اپنے ہی عوام پر چڑھائی کر رکھی ہے۔ نائن الیون کے بعد ہماری کم بختی آئی۔ اس سانحے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر امریکہ نے ہمارے خطے کو تاراج کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان وار آن ٹیرر کی زد میں آ گیا۔ ہر پاکستانی کی جان اور مال غیرمحفوظ ہوگئی۔ اب امریکہ اس جنگ سے نکلنا چاہتا ہے اور ہماری بھی خواہش ہے کہ ہمیں امن مل جائے۔ اے پی سی میں یہ فیصلہ ہوا کہ قیام امن کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے گا مگر اپر دیر میں ہمارے ایک جرنیل کو شہید کردیا گیا اور اب پشاور میں مسیحی قتل عام کا سانحہ پیش آ گیا ہے، اس بناپر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ مذاکرات کئے جائیں یا نہ کیئے جائیں۔ جنرل کیانی نے سوات کے دورے میں کہا کہ ٹارگٹڈ آپریشن جاری رکھا جائے، اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ فوج لڑائی کو طول دینا چاہتی ہے اور مذاکرات نہیں چاہتی، جنرل کیانی کا مطلب کیا تھا اور کیا نہیں تھا، اس پر عوامی بحث کے بجائے بہتر ہوتا کہ وزیر دفاع ان سے وضاحت طلب کر لیتے، یہ محکمہ وزیراعظم کے پاس ہے، اس طرح من مانی تشریح کا رستہ بند ہو جاتا۔
پاکستان کو وار آف ٹیر رکا حصہ بننا چاہئے تھی نہیں، اس پر قوم کی دو آراء نہیں، ہر ایک کا خیال ہے کہ نہیں بننا چاہیئے تھا اور اس جرم کا ارتکاب سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل مشرف نے کیا، یہ صاحب ان دنوں قید میں ہیں، ان پر غداری، دہشت گردی اور قتل وغیرہ کے مقدمات چل رہے ہیں، بہتر ہوگا کہ ان پر جنگلی جرائم کے تحت بھی کارروائی کی جائے بشرطیکہ آ ئین یا پاکستان پینل کوڈ میں اس کی کوئی گنجائش ہو۔ جنرل کیانی نے اس جنگ کو جاری رکھا، وہ اب ریٹائر ہورہے ہیں حکومت انہیں یا آنے والے آرمی چیف کوحکم دے سکتی ہے کہ وہ انتہا پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے اور فوج سیز فائر کی اسی طرح پابند ہوگی جیسے کشمیر کی کنٹرول لائن پرسابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کے حکم کے تحت اسے ہتھل کر کے رکھ دیا گیا۔
ملک کی موجودہ حکومت صدق دل سے ان کی حامی ہے اور اس کے نزدیک میدان، مذاکرات سے قائم ہوسکتا ہے تو اسے، اے پی سی نے اس کا مکمل اختیار دے دیا ہے۔ مذاکرات کے سرگرم حامیوں میں عمران خان، منور حسن اورفضل الرحمن ہیں۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر، وار آن ٹیرر کی بھینٹ چڑھیں تاہم یہ پارٹی بھی مذاکرات کے عمل کی حمایت کر رہی ہے۔ اے این پی زخم خوردہ ہے، پراس نے بھی مذاکرات کی حمایت کردی ہے۔ اب اتنے بڑے امن بریگیڈ کے ہوتے ہوئے قوم کو کس بات کا انتظار ہے، کیا چند مزید جرنیلوں کی شہادت، چند مزیدگرجا گھروں پر خودکش حملے، کچھ مزیدمسجدوں، جنازوں اور مارکیٹوں میں قتل و غارت۔
اس امن بریگیڈ کوانتہا پسندوں کے ایک ایک گروپ کے مقابل میز پر بٹھا دیا جائے، کوئی صاحب سوات میں میز بچالیں، کوئی شمالی وزیرستان میں سفید عمامہ لہراتے ہوئے داخل ہوجائیں، کوئی ڈیورنڈ لائن پارکریں اور کنڑ میں مور چہ زن گروپوں سے بات چیت کریں،اب وقت ضائع کیوں کیا جارہا ہے، وزیراعظم کو خودتویہ کام نہیں کرنا، وہ مختلف امن بریگیڈ ز کومختلف محاذوں پر لانچ کریں اور خود دنیا میں گھوم پھر کر ملک کے باقی مسائل کا حل تلاش کریں۔ لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بیماری، جہالت، بے روزگاری، کاروباری اورصنعتی بدحالی کوئی ایک روگ ہوتو اس کا نام لیا جائے کسی ملک میں پہلی بار ایسے ہورہا ہے کہ جس سے مذاکرات کرنے کی خواہش ہے، اس کا کوئی اتاپتا نہیں، تو کیا ہوا سے باتیں کریں گے۔ اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک قوم صرف پانچ چھ برس کے اندر نڈھال ہوگئی تو کیا یہ سرنڈر کے مترادف نہیں ہے، ہم نے ایک سرنڈرڈھا کہ میں کیا، اس سے ہمیں سر جھکانے کی عادت سی ہوگئی۔ مگر سری لنکا میں دہشت گردوں کو سرنڈر پر مجبور کیا گیا۔ اس کی فوج کو ہماری فوج نے لڑنے کی ٹریننگ دی۔ چلیئے مذاکرات کا فیصلہ ہو گیا تو یہ ہچرمچر کیا، یہ لیت ولعل کیا پیش رفت میں تاخیر کیوں، اگر پشاور میں چرچ پر حملہ نہ ہوتا کسی مسجد پر ہوتا تو وزیرداخلہ نے یہ بھی نہیں کہنا تھا کہ یہ کون ہیں جو عورتوں اور بچوں کو مارتے ہیں۔ جرنیل کی شہادت پر تو کسی نے مگر مچھ کے آنسو بھی نہیں بہائے، کہتے ہیں، وہ تو سرحد کے آس پاس سفر کررہے تھے۔ جیسے سرحد پر شہید ہونے والے کا کوئی دکھ نہ ہو۔
امن معاہدے ہم نے بہت کیئے۔ پہلی افغان جنگ کے خاتمے کے بعد انہیں وزیراعظم نے اسلام آباد میں قرآن پر معاہدہ کر وایا، ایک معاہدہ مکہ مکرمہ میں ہوا مگرکسی کے پاس لحاظ نہ کیا گیا۔ پچھلی حکومت کے دور میں سوات میں امن معاہدہ ہوا اور پھر اسی شہر کے چوکوں میں لوگوں کے گلے کاٹے گئے، کئی معاہدے فاٹا کی مختلف ایجنسیوں میں ہوئے۔ کتنے معاہدے اور ہوں گے تو پتا چلے گا کہ ان معاہدوں سے امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی کسی کی خواہش ہے اور کسی کو یقین ہے کہ امن کا راستہ یہی ہے تو بسم اللہ! آگے بڑھیں اور قوم کو امن کی نوید دیں، جینے کاحق دیں، چرچ میں مسجد میں امام بارگاہ میں عبادت کی آزادی دیں۔ دفتروں اور دکانوں میں کاروبار کی ضمانت دیں، سڑکوں پر زندگی کومحفوظ بنائیں۔ قوم کو اور کیا چاہیئے۔ لڑائی کے حق میں کوئی نہیں، آیئے، شانتی شانتی کھیلیں۔ امن اور ہر قیمت پر کسی بھی قیمت پر۔
امن کی آشا اب پوری ہو جانی چاہئے۔ اس پر بہت پیسہ لگ گیا، اس بھاری سرمایہ کاری کا کوئی تو پھل ملنا چاہئے۔ (26 ستمبر 2013ء)