خبرنامہ

مریم نواز نے فیصلے پر فیصلہ لے لیا۔۔۔ اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مریم نواز نے فیصلے پر فیصلہ لے لیا۔۔۔ اسد اللہ غالب
یہ عمران خان نے کہا تھا۔ وہ نجانے کیوں عدلیہ کا خود ساختہ ترجمان بن بیٹھا اور عدلیہ نے بھی اس کی بات کا نوٹس نہیں لیا، عدلیہ کئی باتوں کا نوٹس لیتی ہے اور کئی باتوں کا نہیں بھی لیتی، اس لئے عدلیہ کی تضحیک کا ذمے دار عمران ہے۔
یہ ایک ضمنی الیکشن تھا، لیکن عام سا ضمنی الیکشن بھی نہیں تھا۔ یہ سیٹ وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دینے کے فیصلے سے خالی ہوئی تھی۔ اور یہاں ان کی بیگم صاحبہ امیدوار تھیں۔ مگر وہ اچانک بیمار ہو گئیں اور انہیں علاج کے لئے لندن جانا پڑا، ان کے شوہر میاں نواز شریف بھی ان کے علاج معالجے کی نگرانی کے لئے ان کے پاس چلے گئے، ان کے بیٹے حسن اور حسین پہلے ہی سے لندن میں مقیم ہیں۔ بعد میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی بھابھی صاحبہ کی عیادت کے لئے پاکستان سے روانہ ہو گئے، ان کے بیٹے حمزہ شہباز شریف بھی درمیان میںکسی وقت لندن جا پہنچے تھے۔ اس طرح انتخابی مہم چلانے کا سارا بوجھ مریم نواز پر آن پڑا تھا۔ یہ ان کی سیاسی زندگی کا پہلا بڑا چیلنج تھا، جس میں وہ سرخرو نکلیں۔
ضمنی الیکشن عام طور پر حکومت وقت ہی جیتا کرتی ہے مگر یہاں معرکے نے سنگین شکل اختیار کر لی۔ تحریک انصاف کی قیادت بھی میدان میں کود پڑی، میرے دوست چودھری محمد سرور تو بے حد سرگرم تھے، جبکہ میںنے سنا تھا کہ وہ سیاست سے توبہ تائب ہو کر پاکستان سے واپس چلے گئے ہیں، دبئی میں ایک بزنس آفس کھول کر مصروف زندگی گزار رہے ہیں، مگر یہ ہوائی کسی دشمن اور بد خواہ نے اڑائی ہو گی، چودھری سرور مکمل فارم میں تھے اور لگتا یہ تھا کہ وہی انتخابی مہم کے مدار المہام ہیں، تحریک انصاف کی باقی قیادت اس مہم سے دور دور رہی۔ اس کے اسباب کا کھوج جلد لگ جائے گا۔چودھری سرور کی کوششیں اپنی جگہ پر۔ پیسے کی ان کے پاس کمی نہیں مگر جذبہ تو یاسمین راشد کا دیکھنے والا تھا، وہ سنجیدگی سے کام کرنے کی عادی ہیں، وہ ایک ایک دروازے تک پہنچیں۔ انہیں جو ووٹ ملا، وہ تحریک انصاف کا ہرگز نہیں تھا، کچھ تو ملک غلام نبی کا تھا، وہ بھی الیکشن لڑ کر ہی سیاست اور حکومت میں سرگرم رہے اور باقی یاسمین راشد کا اپنا۔ تحریک انصاف ان ووٹوں کواپنے کھاتے میں ڈال کر اگلے الیکشن کی حکمت عملی بنائے گی تو سخت خسارے میں رہے گی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پچھلے جنرل الیکشن کی طرح اس حلقے میں بھی ہارنے اور جیتنے والے امیدواروں نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ اپوزیشن کا امیدوار تو واویلا کرتا ہے، یہاں تو حکومت بھی شاکی ہے، لندن سے نوازشریف نے احتجاج کیا، خواجہ سعد رفیق نے باقاعدہ پریس کانفرنس پھڑکا ڈالی اور مریم نواز نے بھی وکٹری تقریر میں اوچھے ہتھکنڈوں کی طرف اشارہ کیا۔اب دیکھئے کہ عمران خان پہلے کی طرح دھاندلی کے بہانے سے پھرکوئی دھرنا دیتے ہیں یا نہیں، نہیں دیتے تو وہ اس خفت کو مٹا نہیں سکیں گے جو اس حلقے کے ووٹروں نے ان کے منہ پہ دے ماری ہے۔
بڑا سوال یہ ہے کہ شریف خاندان سارے کا سارا ملک کیوں چھوڑ گیا، کیا انہیں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ یا وہ الیکشن سین سے دور رہ کر ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ان کے ملک میں ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ عوام میں بدستور پاپولر ہیں، انہیں کوئی مائی کا لال شکست نہیں دے سکتا۔ مریم نواز کو اکیلے پیچھے چھوڑنے سے ان کی صلاحیتوں کو بھی پرکھنا اور جلا بخشنا مقصود تھا۔ شہباز شریف یہاںنہیں تھے تو زیادہ ا چھا ہوا کہ اب کوئی صوبائی حکومت کے دباﺅ کی بات نہیں کر سکتا۔ حمزہ شہباز یہاں ہوتے تو پتہ نہ چلتا کہ کس کا جادو سر چڑھ کے بولا ہے، مریم کا یا حمزہ کا۔ اگر نواز شریف کی خواہش یہی ہے کہ ان کی بیٹی ان کی جانشین بنے تو یہ ان کا حق ہے۔ مریم میں سیاست کے جراثیم موجود ہیں تو نواز شریف نے یہ جوا کھیلا ہے، حسن یا حسین کو کیوں میدان میں نہیں جھونکا کہ وہ سیاسی پرندے نہیں ہیں۔ صرف کاروبار کرنا جانتے ہیں اور خوب پیسہ کماتے ہیں۔ اس قدر کماتے ہیں کہ کہ حاسدوں کی قطار لگ گئی ہے اور مقدموں کی بھی۔
مریم نواز نے چیلنج قبول کیا ۔ اپنی حکمت عملی بنائی۔ انہیں تلخ ترش باتیں سننا پڑیں مگر وہ میدان میں جمی رہیں اور وکٹری اسٹینڈ تک بڑے اعتماد سے پہنچیں۔میرا اندازہ ہے کہ انہیں عوام کے ووٹ جیتنے کے لئے کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑا مگر انہوںنے جن ہتھکنڈوں کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ مذمت اور تفتیش کے قابل ہیں۔
مسلم لیگ کو یہ الیکشن بہت کٹھن حالات میں لڑنا پڑا، خود نواز شریف کو نااہل اور بد دیانت قرار دیا جا چکا تھا، ڈھیروں ریفرنسز ان کے سر پہ تلوار بن کے لٹکے ہوئے تھے، ایک فیصلے کے بعد دوسرا فیصلہ اس سے بھی سخت تھا، عام حالات میں انسان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں مگر شریف فیملی نے اپنے حواس کو مجتمع رکھا، اپنے آپ کو بکھرنے نہیں دیا۔میاںنواز شریف فائٹر مشہور ہیں، انہوںنے یہ شہرت قائم رکھی ہے۔فیصلے سے پہلے، فیصلے کے بعد، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد وہ جس موقف پر قائم تھے، اس سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے، وہ خبردار بھی کرتے ہیں کہ اگر انہیں صرف ذاتی نقصان ہوتا تو کوئی بڑی بات نہ تھی مگر یہاں تو اصل نقصان ملک اور قوم کا ہو رہا ہے، ترقی اور خوش حالی کے عمل پر کلہاڑا چل گیا ہے۔ ٹرمپ، مودی اور بریکس لیڈرز ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں جس کا جواب پوری قوم متحد ہو کر دے سکتی ہے مگر پانامہ کی بحث اور فیصلے نے ملک میں انتشار کو ہوا دی ہے، اب کون ہے جو ٹرمپ کو خاموش رہنے کو کہے، کون ہے جو مودی کی زبان بند کرے، کون ہے جو چین سے پوچھے کہ آپ اپنے دوست پاکستان سے کیوں بدک گئے۔ حکومت توڑنا تو آسان تھا مگر حکومت توڑ کر حالات کو سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے، کارگل میںکودنا آسان تھا مگر کارگل سے نکلنا مشکل ہو گیا تھا، مشرقی پاکستا ن میں فوجی آپریشن کرنا آسان تھا مگر نوے ہزار قیدیوں کو بھارت کے جنگی کیمپوں سے رہا کروانا اور ہزاروںمربع میل کا رقبہ جو مغربی سرحد پر بھارت کے قبضے میں چلا گیا تھا، اس کی واپسی مشکل تھی۔
اس وقت یہ بحث مزید مشکل میں ڈال رہی ہے کہ کسی نے سازش کی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں سازش کس نے کی مگر نواز شریف نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ملک کے سترہ وزراءاعظم حکومت سے نکال دیئے گئے مگر چار مارشل لا ڈکٹیٹر برسوں تک راج کرتے رہے اور عدلیہ بھی ان کی ہم نوا بنی رہی تو سازش اور کیا ہوتی ہے۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں یہ الزام کہ بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں نے کچھ ن لیگی لیڈروں کو کالی چادروں میں لپیٹ کر غائب کیا، یہ مہارت کس کی ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ایک بار پھر عمران خان کا شکریہ کہ جن کی زبان نے ایک ضمنی الیکشن کو ریفرنڈم میں تبدیل کر دیا۔ اب عمران یہ ریفرنڈم ہار چکا ہے مگر وہ فطری طور پر خاموش بیٹھنے والا نہیں، عدالتوں کی طرف دیکھے گا جہاں کلثوم نواز کے خلاف پٹیشن پڑی ہے، وہ نیب ریفرنسوں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھے گا، کہ شریف فیملی کا بی مارنے کا یہی ایک راستہ رہ گیا ہے۔ نیلسن منڈیلا کو چوبیس برس تک سفید فام حکومت نے قید میں رکھا مگر جب ووٹ کا وقت آیا تو عوام نے نیلسن منڈیلا کوووٹوں کے پھولوں سے لاد دیا۔ ملائیشیا کے مرد آہن مہاتیر محمد نے اپنے مخالف انور ابراہیم کو گھٹیا الزامات کے تحت قید میں رکھا مگر یہی سیاست دان ووٹوں سے سرفراز ہو کر جیل سے نکل آیا۔ پاکستان میں ہم کون سا تجربہ کرنا چاہتے ہیں جو پہلے اس ملک میں یا کسی اور ملک میں نہیں ہو چکا اور ناکامی سے دوچار نہیں ہوا۔ ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف سے بڑھ کر ٹیکنوکریٹ اور کون ہو گا مگر یہ مسیحائی نہیں کر سکے۔ الٹا ملک توڑ کر قبروں میں چلے گئے۔
روک لو نوازشریف کو وہ پھر آ گیا۔ مریم نواز کی تقریر کو میں سانس روک کر سنتا رہا کہ وہ اس فقرے پر تقریر ختم کرے گی۔ مگر اس نے کہا کہ فیصلے پر فیصلہ ہو گیا، عوام کا وزیراعظم نااہل نہیں، اب بھی وزیراعظم ہے اور ووٹروںنے نادیدہ قوتوں کے خلاف بھی کامیابی حاصل کی ہے۔