خبرنامہ

مریم نواز کیخلاف بلیم گیم ناکام .. کالم اسداللہ غالب

چیف جسٹس کے

ہ قسمت کی دھنی ہیں، ان کے خلاف کوئی الزام پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکا۔ ان کے حریف چاروں شانے چت نظر آتے ہیں اور مریم کو اللہ نے ہر امتحان، ہر مقدمے، ہر ابتلا اور ہر بلا کے سامنے سرخرو کیا ہے۔
دو بہت بڑے وار کئے گئے۔ ایک پانامہ لیکس کی آڑ میں اور دوسرا نیوز لیکس کے بہانے، ویسے بھی مریم کو اپوزیشن نشانے پر رکھتی ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا، فیس بک، ٹوئٹرپر ان کے خلاف چاند ماری جاری رہتی ہے۔مگر ان جنونیوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور ہر کسی کو مریم کا ہاتھ صاف نظر آ رہا ہے۔
پاکستان میں کوئی سائبر لاءہوتا تو نہ صرف مریم نواز پر اوچھی پروپیگنڈہ مہم نہ چلائی جا سکتی بلکہ ہر شہری سکون کا سانس لیتا کیونکہ اسے اچھی طرح علم ہوتا کہ ادھر کسی دوست یا دشمن کے بارے میں گھٹیا پوسٹ اپ ڈیٹ کی گئی تو ادھر ہتھکڑیاں لگ جائیں گی اور ساری کارروائی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہو گی۔ حکومت نے جب کبھی قانون سازی کی کوشش کی تو ایک ہی واویلا مچایا گیا کہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح ہر شریف اور معصوم شہری کسی نہ کسی کی اوچھی حرکتوں سے تنگ آ چکا ہے۔ مگر کوئی مداوا نہیں۔ مریم نواز تو با وسیلہ ہیں کہ اپنا سائبر اور سوشل میڈیا ونگ چلا سکتی ہیں مگر یہ کام ہر کسی کے بس کا نہیں، ا س لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ تنقید سے بالاتر ہو کر قانون سازی کرے، آخر جب موٹر وے بن رہی تھی تو یہی کہا گیا کہ نواز شریف کو کار ریسنگ کا شوق ہے مگر آج دیکھیں کہ اس موٹر وے کو کس طرح ہر کوئی استعمال کر رہا ہے، بے چاری جی ٹی روڈ صرف ٹرکوں تلے کچلی جا رہی ہے۔ یہی کچھ نواز شریف اور شہباز شریف کو اس وقت سننا پڑا جب انہوں نے بجلی کے درجنوں منصوبے شروع کئے۔ ان کے مخالفین الزام لگا رہے تھے کہ یہ تو کمیشن کھانے کا چکر ہے۔ مگر اب سارے الزامات غلط نکلے کیونکہ بجلی کے منصوبے چل پڑے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے ختم ہونے والے ہیں۔ یہ لمبی تمہید اس لئے بیان کی گئی ہے تاکہ الزام تراشی اور بہتان تراشی کرنےوالوں کی ذہنیت آشکارا ہو جائے۔ بد قسمتی سے مریم نواز بھی اسی طرز عمل کی زد میں آ گئی اور انہیں وہ کچھ سننا پڑا جو ہمارے معاشرے میں بہنوں اور بیٹیوں کو سنانے سے پہلے سوسو بار سوچنا پڑتا ہے۔ مگر اب ہمارے ہاں تہذیبی اور معاشرتی روایات دم توڑ چکی ہیں۔
پانامہ لیکس بنیادی طور پر بے سرو پا اور جھوٹ کا پلندہ ہے اور اگر اس میں کوئی حقیقت اور اصلیت ہے بھی تو پانامہ لیکس والوں کا فرض بنتا ہے کہ اسے کسی کورٹ آف لا میں ثابت کریں، ویب سائٹ پر الزام شائع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ قانون کی کسی عدالت کا فیصلہ ہے یا آسمانی صحیفہ ہے۔ مگر ہمارے ہاں پانامہ لیکس کو تقدس کا درجہ دے دیا گیا اور اس کی آڑ میں ایک نہ ختم ہونے والی بلیم گیم شروع کر دی گئی۔ پبلک جلسوں میں سیاسی لیڈروں نے کہا کہ ارے مریم بی بی! تمہیں سارا حساب دینا پڑے گا۔ ایسے ہی لب و لہجے پر شاعر نے کہا تھا کہ تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے مگر کسی کو اس انداز گفتگو پر شرم و حیا محسوس نہ ہوئی، جب پبلک جلسوں میں الزام تراشی سے کچھ نہ بنا تو عدالت کا رخ کر لیا گیا۔ یہاں بنیادی نکتہ یہی زیر بحث لایا گیا کہ جس کمپنی نے لندن کے فلیٹس خرید رکھے ہیں ، وہ مریم نواز کی ملکیت ہیں اور مریم نواز ایک ٹیکس گوشوارے کی روشنی میں اپنے والد کی زیر کفالت ہیں۔، زیر کفالت والی دلیل ثابت کر لی جاتی توصاف مطلب یہ ہوتا کہ پیسہ تو نواز شریف نے دیا اور فلیٹ مریم نے خرید لئے، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ یہ بات نہ حقیقت تھی، نہ اسے سچ ثابت کیا جاسکا ۔ اٹھارہ برس سے زیادہ عمر کی اولاد والد کی زیر کفالت نہیں رہتی۔ اور جب وہ شادی شدہ ہو اور ان کے اور ان کے شوہر کے پاس اپنی جائیداد بھی ہو تو زیر کفالت والا طعنہ ہوا کا بلبلہ نکلا۔ عدالت نے بھی اسے در خور اعتنا نہ سمجھا اور اگلی جے آئی ٹی کی تحقیقات سے مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کو اس سے مبرا قرار دے دیا گیا۔ مخالفین ہاتھ ملتے رہ گئے، اب ان کا شور یہ ہے کہ وزیراعظم کو تو جے آئی ٹی میں شامل کر لیا گیا ہے مگر دوستو! وزیراعظم کا نام پانامہ لیکس میں ہی نہیں تو جے آئی ٹی پاتال سے کیا ڈھونڈ کے لا سکتی ہے،۔
اگلی مہم جو اس سے بھی بڑی ٰ سنگین تھی وہ نیوز لیکس کے سلسلے میں تھی اوراس میں بھی مخالفین نے سوشل میڈیا پر مریم نواز شریف کو ذمے دار ٹھہرایا۔ میرے ذاتی علم میںنہیں کہ مریم نواز کسی جگہ بیٹھ کر کوئی پبلسٹی سیل چلاتی ہیں۔ لیکن اگر چلاتی بھی ہیں تو کوئی قانون یا اخلاقیات انہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتیں، وزیراعظم کی پبلسٹی کے لئے حکومتی محکمے بھی ہیں اور وہ یہ کام کسی دوسرے کے بھی سپرد کر سکتے ہیں، آﺅٹ سورس کرنا چاہیں تو مجھے یا آپ کو بھی سونپ سکتے ہیں۔ اچھی خاصی کمائی والا کام ہے۔ ضرب عضب کے زمانے میں میںنے جنرل عاصم باجوہ سے کہا کہ آپ اس آپریشن کی سوشل میڈیا پر پبلسٹی کا کام مجھے سونپ دیں، انہوںنے اس کے سارے راز و نیاز سمجھے اور پنڈی واپس جا کر اپنا سیل کھول لیا ۔ میں ہاتھ ملتا رہ گیا، اس کام میں پیسہ بھی تھا اور شہدا اور غازیوں کی خدمت کا پہلو بھی۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا نیوز لیکس کی پریس ریلیز مریم نواز کے پبلسٹی سیل سے جاری کی گئی، ایسا ہوتا تو تحقیقاتی ٹیم کو بھی نظر آ جاتا، جب انہوںنے وزیر اطلاعات کو معاف نہیں کیا، مشیر خارجہ کو معاف نہیں کیا اور پی آئی او کو معاف نہیں کیا اور ان کے ٹیلی فونوں کی خوردبینوں سے چھان بین کی گئی تو مریم نواز کی فیکس ، ای میل یا لینڈ لائن یا موبائل فون کے ریکارڈ کی خوب چھان پھٹک کی گئی ہو گی۔ اور اگرا س سے ان کاکوئی دور پار کا تعلق ثابت نہیں ہو اتو اسی لئے تحقیقاتی ٹیم نے مریم نواز کے خلاف زبان نہیں کھولی۔ اس ٹیم میں ہر نوع کے نمائندے شامل تھے، فوج کے بھی تھے، اور انٹیلی جنس کے بھی تھے، میڈیا کے بھی تھے، کسی کو بھی مریم نواز کے خلاف کوئی مواد نہیں ملا۔ یوں ایک سنگین ترین الزام سے بھی مریم نواز سرخرو نکلیں۔
ایک الزام یہ ہے کہ مریم نواز کو اس قدر اہمیت کیوں حاصل ہے۔ اس کا جواب پانے کے لئے ذرا ہفتے کے روز ریاض ایئر پورٹ پر اترنے والے امریکی صدر کے جہاز کی وڈیو دوبارہ دیکھ لیجئے۔ٹرمپ کے شانہ بشانہ ان کی بیگم ہیں اور بیٹی، ان کی کیاحیثیت ہے، اس کے بارے میں سعودیوںنے نہیں پوچھا، دنیا بھر کے میڈیا نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا۔ آصف زرداری نے چین کے پہلے دورے پر بلاول، آصفہ ا ور بختاور کو بھیجا، چینیوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ عمران خاں کی دوسری بیگم خیبر پی کے میں مکمل پروٹوکول لیتی رہیں۔ بھئی! کس حیثیت سے۔ بھٹو نے ابتدائی عرصے میں بیگم نصرت بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو کو کیوں سیاست اور حکومت میںاوپر چڑھایا۔ بات لمبی ہوتی چلی جائے گی، کیا قائداعظم کی رازداں اور قربت کے رشتے میں محترمہ فاطمہ جناح پیوست نہ تھیں۔ تو نواز شریف اگر مریم کو آگے بڑھاتے ہیں تو کون سا جرم سرزد کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان الزامات کو کوئی نہیں سنتا، انہیں پر کاہ کے برابر اہمیت نہیں دیتا، عدالت نے نہیں دی، مریم نواز اپنے خلاف ہر بلیم گیم سے سرخرو نکلیں۔ یہ اللہ کا کرم ہے۔ یہ اس کی دین ہے۔ عزت اور ذلت کا مالک وہی ہے جسے چاہے نوازے جسے چاہے محروم رکھے۔ اس کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔