خبرنامہ

مریم نواز کے تعلیمی عزائم۔۔۔اسداللہ غالب

مریم نواز کو جب اربوں کے تعلیمی فنڈکا سربراہ بنایا گیا تھا تواس ناچیز نے ان کی سختی سے مخالفت کی، ملک کی سول سوسائٹی بھی تن کر کھڑی ہو گئی اور محترمہ کو اس منصوبے سے ہٹا دیا گیا۔ یقین جانئے کسی کو محترمہ سے ذاتی عناد نہ تھا، بلکہ ہر کسی کی خواہش یہ تھی کہ اس کام کے لئے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جواس شعبے میں مہارت تامہ رکھتا ہو۔جس کا کام اسی کو ساجھے۔امجد ثاقب بھی موزوں تھے۔
مگر اب محترمہ نے چھوٹے بچوں کی تعلیم کا بیڑہ اٹھایا ہے تو میں سب سے آگے بڑھ کا ان کو خوش آمدید کہتا ہوں، ایک خاتون جس شفقت مادری سے بچوں کی پرورش کر سکتی ہے اوراس کی ہر قسم کی ضروریات کا خیال رکھ سکتی ہے، وہ کسی مرد کے بس میں نہیں ، اوپر سے امریکی خاتون ا ول مشعل اوبامہ نے گزشتہ اکتوبر میں ان سے ملاقات کے دوران انہیں اس قابل جانا کہ وہ ستر ملین ڈالر کے منصوبے سے پاکستانی بچوں کی خشت اول صحیح بنیادوں پر رکھ سکتی ہیں۔ابتدائی طور پراس رقم سے دو لاکھ بچے بچیاں مستفید ہوں گی،ا سی نوع کا پروگرام دیگر ممالک میں شروع ہوچکا ہے جن میں بھارت،بنگلہ دیش،برازیل ،مصر،چین،انڈونیشیا،اورنائیجیریا شامل ہیں۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں ا س پروگرام کے تحت ایک اسکول میں مونٹیسوری کی کلاسز کا افتتاح کیا۔ابھی تک یہ تعلیم ملک کے خوشحال طبقے کے لئے مختص ہے کیونکہ تین سال کے ایک بچے کو اسکول ڈالنے کی فیس کئی ہزار روپے ہے جو کہ غریب تو کیا متوسط طبقہ بھی برداشت نہیں کر سکتا مگر دارالحکومت کے چار سو سے زائد اسکولوں میں یہ کلاسیں مرحلہ وار شروع کی جائیں گی جس سے صاف ظاہر ہے کہ نچلے طبقے کے محروم بچوں کی زندگی میں ایک حقیقی انقلاب آ جائے گا۔کہا ں اس عمر میں یہ بچے کوڑے کرکٹ میں کھیلتے ہیں اور کہاں اب صاف ستھری یونیفارم پہنے بہترین اسٹاف سے وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو سکیں گے۔یہ جو میں نے صاف ستھری یونیفارم کی بات کی ہے، یہ بھی سرکار کی طرف سے مفت میں ملے گی۔اور فیس تو ہوگی ہی نہیں، میرا دل بھی للچا رہا ہے کہ ٹائم مشین مجھے واپس تین سال کی عمر میں لے جائے اور میں بھی مونٹیسوری کی کلاس میں داخلہ لوں۔جاوید صدیق گواہ ہیں کہ ہم امریکی دورے میں ریاست آئیوا گئے تو ہمیں ایک اسکول میں لے جایا گیا، شاید وہاں بھی مونٹیسوری کی کلاسیں تھیں، ننھے منے بچے تتلیوں کی طرح گنگنا رہے تھے، میں توان کے ساتھ ایک چھوٹی سی پیلی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔اس عمر میں میں نے مسجد کی صفوں پر بیٹھ کر قرآن پڑھا، گنتی سیکھی ، پہاڑے یاد کئے، پھرچار میل دور ایک ا سکول میں داخل ہوا، جہاں بیٹھنے کو ٹاٹ بھی میسر نہ تھے۔یہ مہالم کلاں کا اسکول تھا، وزیر اعظم ملک معراج خالد نے ایک زمانے میں مجھے بتایا کہ قبل از تقسیم ا س اسکول کی بڑی دھوم تھی۔ ان کی بات سو فیصد سچ تھی، میرے ٹیچر ماسٹر نذیر احمد صابر جیسا کوئی ا ستاد روز روز تو پیدا نہیں ہوتا۔اور یہاں کا ہرا ستاد یگانہ روز گار، ماسٹر محمد دین، ماسٹر معروف، ماسٹر سراجدین، ماسٹر حسن علی،ماسٹر برکت علی، ماسٹر عبدا لغنی۔ہر کوئی اس جذبے سے سرشار کہ ان کا شاگرد زندگی کی دوڑ میں کامیاب ہو۔
وزیر اعظم بھی تعلیم کے بارے میں بڑے جذباتی ہیں، کہتے ہیں جب تک ہر بچے کو اسکول میں داخلہ نہ مل جائے،میرا مشن ادھورا رہے گا۔یہی مشن ان کی بیٹی نے بھی اپنا لیا ہے، ایک منصوبہ جسے دارالحکومت سے شروع کیا گیا،اسے بتدرج صوبوں تک وسیع کرنا چاہتی ہیں۔اس کے لئے ظاہر ہے وسائل درکار ہیں۔ا سوقت بھی حکومت بجٹ کا ایک معتد بہ حصہ تعلیم کے لئے خرچ کر رہی ہے لیکن یہ رقم آئیڈیل نہیں ہے، ترقی یافتہ دنیا کی پہلی ترجیح تعلیم ہے ا ور ہماری بالکل آخری، میں مریم نواز سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے انکل شہباز شریف کو سمجھائیں کہ فلائی اوور، موٹر ویز،میٹرو بس اوراورنج ٹرین جیسے میگا پراجیکٹس بعد میں ، پہلے بچے بچیوں کی تعلیم کو فوقیت دیں، تعلیم کے زیور سے آراستہ ہنر مند نوجوان اپنے زور بازو کی کمائی سے میگا پراجیکٹس بنا لیں گے، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، ان پر بھی کمندیں ڈالیں گے۔انہیں بیرونی قرضوں کی محتاجی نہیں رہے گی جن سے پرواز میں کوتاہی کا اندیشہ رہتا ہے۔انکل شہباز کے میگا پراجیکٹس ان کی زندگی ہی میں ریلوے، پی آئی ا ے ا ورا سٹیل مل کی طرح سفید ہاتھی بن جائیں گے مگر تعلیم تو ایک روشنی ہے، دیئے سے دیا جلتا رہے گا اور روشنی چار سو پھیلتی رہے گی۔
مانٹیسوری کلاسز کے لئے اسلام آباد کا انتخاب بھی حسن نظر کا ثبوت ہے، یہ شہر مراعات یافتہ طبقے کا شہر ہے ، مگر ان کے گھروں میں کام کاج کرنے والے زندگی کی ہر سہولت سے محروم ہیں، حکمرانوں اور بیورو کریٹس کے بچے تو کیاا ن کے کتے بھی پنیر پر پلتے ہیں مگر غریب کا بچہ ردی کاغذ چنتا ہے اور اس کو فروخت کر کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کی کوشش کرتا ہے،اس کی ذہنی غذا کا کسی کو خیال ہی نہیں، پتہ نہیں آج کل ملالہ یوسف زئی کہاں پائی جاتی ہیں اور ان کی وہ ساری دوکت کس ملک کے بنکوں میں ڈھیر ہے جس سے ا س نے تعلیم کا انقلاب برپا کرنا ہے ا ورا سکے بل بوتے پر ملک کا وزیراعظم بننے کے خواب کی تکمیل کرنی ہے ،مریم نواز نے کسی کی طرف نہیں دیکھا، جوہاتھ آیا۔ اسے غریب کے بچوں پر خرچ کرنے کی ٹھان لی، دعا کریں کہ یہ منصوبہ نمائشی ثابت نہ ہو۔
میں سن دو ہزار میں آخری مرتبہ امریکہ گیا تھا، اسی دورے میں ہی مجھے ننھے منے بچوں کے ایک اسکول کو دیکھنے کا موقع ملا تھا، یہ اکتیسویں امریکی صدر ہر برٹ ہوور کے آبائی گاؤں ویسٹ برانچ میں ایک خوبصورت اسکول تھا جو آج بھی میری یادوں کے افق پر روشن ا ور تابندہ ہے، میری خواہش ہو گی کہ کسی روز میں جاتی عمرہ جاؤں اور ا سکے نواح میں کسی پس ماندہ گاؤں میں ایساہی ا یک ا سکول دیکھوں ، اسلام آباد تو ایک خوش قسمت شہر ہے، مگر کسی بدقسمت بستی کی تقدیر بھی تو بدلنی چاہئے، جاتی عمرہ میں اگر ایسا اسکول پہلے سے قائم ہے تو پھر لاہور فیروز پور روڈ کے آخری سرے پر میرا گاؤں فتوحی والہ ہے جو جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے ، اس حقیقت کے باوجود کہ لاہور سے صرف بیس منٹ کی ڈرائیو اورایکسپریس وے جیسی فراخ سڑک کے کنارے پر واقع ہے، میں محترمہ مریم نواز کے منصوبے کے لیے اپنی اکلوتی د وکنال کی زمین کا قطعہ بھی ہدیہ کرنے کو تیار ہوں۔