خبرنامہ

مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر امن، ہماری لاشوں پر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر امن، ہماری لاشوں پر

میں وزیر اعظم کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر کی تعریف کرنے سے اس لیے قاصر ہوں کہ ایک طرف وہ کشمیر کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں اور دوسری طرف اسے 1999 کے اس اعلان لاہور سے جوڑتے ہیں جو انہوں نے دوستی بس میں سوار ہو کر آنے والے بھارتی وزیراعظم واجپائی کے ساتھ کیا تھا۔ اس تاریخی اور یادگار اعلان میں پاکستان اور بھارت نے شملہ سمجھوتے پرحرف بہ حرف عمل کرنے کا عہد کیا اور کشمیر سمیت تمام مسائل کو دو طرفہ بات چیت سے طے کرنے پر اتفاق کیا۔ شملہ سمجھوتے نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔ بھٹو پر ساری تنقید یہی کی جاتی ہے مگر نواز شریف نے اعلان لاہور کے ذریعے بھٹو کے طے کردہ معاہدے پرانگوٹھا ثبت کر دیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں مک مکا کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نے اپنی حالیہ تقریر میں کشمیر پر ایک متضاد موقف کا اظہار کر کے پاکستان اور کشمیریوں کے کیس کوکھوہ کھاتے میں ڈال دیا۔
اب تک وزیر اعظم کا بھارتی ہم منصب سے ہاتھ ملانے کا شوق ناشتے کی میز پر پورا ہو چکا ہوگا اور وزیر اعظم کی حقیقت جان چکے ہوں گے کہ چند ماہ کے مہمان بھارتی وزیراعظم سے مل کر انہوں نے اپنا وقت ضائع ہی کیا ہے۔ اس وزیر اعظم کو ان کی اپنی پارٹی کا نائب صدر اور بھارت کے شاہی خاندان کا چشم و چراغ راہول گاندھی بھی پرکاہ کے برابر اہمیت دینے کے لیئے تیار نہیں۔ اورتو اور بھارت کے صدر نے بھی اس وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کے منظور شدہ اس بل پرتحفظات کا اظہار کر دیا ہے جس کے ذریعے عدلیہ کے ہاتھوں مجرم قرار پانے والے اراکین پارلیمنٹ کی سیٹوں کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کرپشن کی سرکاری سرپرستی صرف دنیا کا ایک ملک کھل کر کر رہا ہے اور وہ بھارت ہے۔
منموہن نے جنرل اسمبلی کی تقریر میں پاکستان کو ریاستی دہشت گردی کے لیئے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی یہ مشین بند کرے۔ پتا نہیں ہمارے وزیراعظم نے ناشتے کی میز پر بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا کچا چٹھاان کے سامنے کھول کر رکھایانہیں۔ سرتاج عزیز کے ہوتے ہوئے میں پرامید ہوں کہ یہ حساب چکادیا گیا ہوگا۔ ویسے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم آشیخ میں اسی من موہن کے سامنے بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کے سارے ثبوت رکھ دیئے تھے۔
پاکستان پر ریاستی دہشت گردی کا الزام صدر کلنٹن نے بھی اسلام آباد آ کر ایک نشری تقریر میں لگایا تھا۔ اس نے ہمیں وارننگ دی تھی کہ آج کے دور میں طاقت کے بل پرسرحدیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں قوم صدر مشرف کو برے لفظوں میں یاد کرتی ہے۔ لیکن اس روز اس کے اندر کا فوجی اور ایک سچا پاکستانی بیدار ہو گیا تھا۔ اس نے بھی جوابی تقریر کی اور صاف کہا کہ کشمیریوں پر بھارتی فوج ظلم ڈھائے گی تو وہ آزادکشمیر اور پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے کشمیریوں اور ان کے ہمدردوں کو کنٹرول لائن پارکرنے سے روکنے پر قادر نہیں ہیں۔
کاش! آج نواز شریف بھی بھارت کو ترکی بہ ترکی جواب دیں۔ اسے بتائیں کہ اس نے ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے جونا گڑھ پر قبضہ کیا کشمیر میں بھی ریاستی دہشت گردی کا تجر بہ دہرایا گیا مٹھی بھرکشمیریوں کو دبانے کے لیے بھارت کی سات آٹھ لاکھ فوج مسلسل چھیاسٹھ برس سے مصروف پیکار ہے۔ سری نگر میں شہیدوں کو دفنانے کے لیئے قبرستانوں میں جگہ نہیں رہی، ایک لاکھ سے زائد قبر یں تو ان شہیدوں کی ہیں جو دیوار برلن کے انہدام کے بعد اپنی تقدیر بدلنے کے لیئے گھروں سے نکلے۔
بھارت نے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کے لیئے آ ئینی دہشت گردی کا بھی ارتکاب کیا۔ اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب کروانے کے لئے کہا تھامگر بھارت کبھی کبھار جوریاستی انتخابات کروا دیتا ہے، انہی کو استصواب کہنے پر مصر ہے۔ اس طرح وہ قوم متحدہ کی ان قراردادوں کا منہ چڑاتا ہے جن کو اس کے با پ نہرو نے خود قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ہمیں بھی اپنے منہ پپر تھپڑ مارنے کا شوق ہے اور ہماری شہ پا کر بھارت بھی کارگل کی مہم جوئی کی مذمت کرتا ہے مگر میاں نواز شریف بھی بھارت سے پوچھیں کہ کارگل کے مجرم اعظم جنرل پرویز مشرف کاآ گرہ میں استقبال کیوں کیا تھا، کس نے کیا تھا، اعلان لاہور پر دستخط کرنے والے واجپائی کی انتہا پسند بی جے پی کی حکومت سے جب جنرل مشرف نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ پہلے حل کرو تو ایڈوانی جی کو سانپ کیوں سونگھ گیا تھا اور وہ مذاکرات کی میز سے فرار کیوں ہوگئے تھے۔ جب اعلان لاہور میں لکھا تھا کہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کا حل نکالا جائے گاتو بھارت نے اپنی سرزمین پر ہونے والے دوطرفہ مذاکرات کا بائیکاٹ کیوں کیا تھا۔ اب ممکنہ طور پر یہی بی جے پی پھر اگلے الیکشنوں میں اقتدار سنبھالے گی اور وہ شخص وزیراعظم بنے گا جس کے ہاتھ گجرات کے مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، ایک مسلمہ ریاستی دہشت گرد جب پورے ملک کی عنان حکومت سنبھالے گا تو میاں نواز شریف اس سے خیر کی کیا توقع رکھتے ہیں۔
وزیر اعظم کو سیا چین کی فضول جنگ بری لگتی ہے، اگلے ماہ وہ امریکی صدر سے ملیں تو انہیں یاد کرائیں کہ ان کے پیش روصدرکلنٹن نے کس طرح پاکستان کومجبور کیا تھا کہ وہ کارگل کے فضول محاذ سے اپنے فوجی واپس بلائے، اسی طرح اوبامہ کو چاہئے کہ وہ بھارت سے کہیں کہ سیا چین سے اپنی جارح فوج کو واپس بلائے، بھارت وہاں سے نکل جائے گا تو پاک فوج کو واپس آنے میں کوئی تر دد نہیں ہوگا۔
بھارت نے ہمیں تو کہہ دیا کہ ہم اپنی دہشت گردی کی مشین کو بند کریں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی بھارت سے کہیں کہ وہ بھی پاکستان کے خلاف اپنی ہر طرح کی ریاستی دہشت گردی کی مشین کو کباڑ خانے کی نذر کرے۔ اپنی جارح افواج کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کرتے ہوئے کشمیر سے بھی واپس بلائے اور پھر بیٹھ کر طے کر لے کہ استصواب کے لیئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا تا کہ مسئلہ کشمیر وہاں کے عوام کی امنگوں اور آزادی کے ایجنڈے کی روح کے مطابق حل ہو۔
مسئلہ کشمیر سردخانے میں ڈال کر امن قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو ہر پاکستانی پکار اٹھے گا کہ اور مائی ڈیڈ باڈی! (30 ستمبر 2013ء)