خبرنامہ

مسجد اقصیٰ کے افق پر خوں رنگ قوس قزح … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مسجد اقصیٰ کے افق پر خوں رنگ قوس قزح … اسد اللہ غالب

قوس قزح ہفت رنگ ہوتی ہے اور دلوں کو لبھاتی ہے مگر تین روز پہلے نیشنل بنک کے سربراہ سعید احمد نے مجھے واٹ ایپس میں ایک چھوٹی سی وڈیو بھیجی جس میں جمعہ کے روز مسجد اقصی کو بند کئے جانے کے خلاف فلسطینی نوجوان احتجاجی نعرے لگا رہے تھے، یہ گھر سے نماز کی ادائیگی کے لئے آئے تھے، بالکل غیر مسلح تھے، ان کے عزائم بھی متشدادانہ نہیں تھے، مسجد کی طرف جانے اور نماز کا خیال دل میں ہو تو انسان انتہائی رقیق القلب اور عجزو انکسار کا پیکرنظر آتا ہے مگر مسجد اقصی کے دروازوں پر تالے دیکھ کر ان نوجوانوں کا خون جوش مارنے لگا، یہ خون پچھلی ایک صدی سے جوش مار رہا ہے اور جوفلسطینی جوش دکھاتا ہے، اسے گولیوں کی باڑھ کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے، یہ گولیاں ٹینکوں کی مشین گنوں یا پیدل گشت کرنے والے اسرائیلی سپاہیوں کے کندھوں سے لٹکتی جدید اور خوفناک رائفلوں سے نکلتی ہیں۔ یہ بلا سوچے سمجھے شعلے اگلتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے لاشوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔

سعید احمد خود ایک کرب سے گزر رہے ہیں، وہ پاکستان کے رہائشی نہیں، اسحق ڈارا ور نواز شریف کی دوستی انہیں یہاں کھینچ لائی۔ وہ ایک پروفیشنل انسان ہیں، انہوں نے زندگی بھر کوئی کاروبار نہیں کیا، صرف ملازمت کی ہے، پھر بھی انہیں ایک ابتلا اور امتحان کا سامنا ہے مگر جیسا کہ میں اکثر بتا چکا ہو کہ یہ مرد درویش ہے، اس کی گواہی اکیلا میںنہیں اس کا ہر کلاس فیلو دیتا ہے، میں پیر ہی کے روز مہر سعید ظفر پڈھیار سے ملا۔ وہ بھی رواین ہے،اس نے کہا کہ سعید بے گناہ ہے اور نیک ہے، یہی بات گجرات کے غضنفر گل نے کی کہ اسے خدا کے سوا کسی سے کوئی خوف نہیں ہے اور مظلوموں کے سوا کسی سے ہمدردی نہیں۔ اس کی اسی جبلت نے یہ ویڈیو تلاش کی اور اسے میرے علاوہ اور بھی کئی دوستوں کے ساتھ شیئر کیا۔
مسجد اقصی کے لئے رونا دھونا اس قدر خطر ناک نہیں جس قدر کشمیریوں کے ساتھ کسی ہمدردی کا اظہار کرنا، جو کوئی کشمیر کا ہمدرد بنتا ہے، اس کے بارے میں پارلیمنٹ میں سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ شخص سونے کی ا نڈے دینے والی مرغٖی ہے۔اور پھر ایسے شخص کو گھر میںنظر بند کر دیا جاتا ہے، بھارت نے بھی کشمیر کی آزادی کی بات کرنے والے حریت لیڈروں کو نظر بند کر رکھا ہے، یہ واحد اشو ہے جس پر بھارت ا ور پاکستان کا رد عمل یکساں ہے۔
مسجد اقصی کے ارد گرد اور ارض فلسطین پر آزادی کے نعرے لگانے والے بھی کسی زمانے میں دہشت گرد ہی کہلاتے تھے، ان پر روئے زمین کا چپہ چپہ تنگ ہو گیا تھا، فلسطینیوں کی چھٹی نسل مہاجر کیمپوں میں پید اہوئی ا ور وہیں مر کھپ گئی، اب یہ فلسطینی دو یونین کونسلوںکے برابررقبے کے ایک ملک میں رہتے ہیں، اس ملک کا نام تو فلسطین ہے مگر خدا اس ملک جیسا کسی کا حشر نہ کرے۔اس ملک کا حشر بھی خدا نے نہیں، یہودیوںنے کیا ہے، اسرائیلی فوج کے درندوںنے کیا ہے، اور کچھ گناہ ان کے عرب ہمسایوں کا ہے جو ان کی قتل و غارت پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ لاہورمیں اسلامی کانفرنس کا انعقاد ہوا، ملت اسلامیہ کے قائدین نے نماز جمعہ بادشاہی مسجد کے فراخ صحن میں ادا کی اور جب امام نے دعا کی یا اللہ مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں پر رحم فرما تو حرمین شریفین کے خادم شاہ فیصل کی آ نکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ پی ٹی وی کے کیمرے ا س کے گواہ ہیں۔
آج فلسطینی یکہ و تنہا ہیں، ان کے لئے اردن نے لڑائی کی تو اپنا مغربی بنک کا علاقہ گنوا بیٹھا۔ مصر نے لڑائی کی تو صحرائے سینا گنوا بیٹھا، شام نے لڑائی کی تو جولان کی پہاڑیاں گنو ابیٹھا، لبنان نے کچھ سرگرمی دکھائی توا اس کاکچومر نکال دیا گیا، اسرائیلی فوج کو جارحیت اور دہشت گردی کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے، عالمی برادری خاموش تماشائی ہے۔ اقوام متحدہ کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی، دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں چندے کھاتی ہیں مگر فلسطینیوں کے انسانی حقوق کے لئے بولتے وقت ان کی زبانوں پر قفل پڑ جاتے ہیں۔یمن کی آزادی کے لئے عالمی اسلامی فوج کھڑی کرد ی گئی ہے مگر فلسطین اور کشمیر میںنہ اسلامی فوج حرکت میں آتی ہے، نہ اقوام متحدہ کی امن فوج۔ بے چارے فلسطینیوںنے جب مزاحمت شروع کی تھی تو ان کے ہاتھ میں محض غلیلیں تھیں جیسے کشمیریوں کے ہاتھ میں صرف سنگ ریزے۔ فلسطینی غلیل چلاتے تھے، ان کو میزائلوں سے مارا جاتا تھا، ان پر کیمیکل گیس پھینکی جاتی تھی، اب بھارتی فوج بھی اسی کے نقش قدم پر چل رہی ہے اور آزادی آزادی کا نعرہ لگانے والے معصوم کشمیریوں کو کیمیاوی گیس سے راکھ بنا دیتی ہے، لاشوں کی شناخت تک نہیں ہو سکتی اور پھر افسانے گھڑے جاتے ہیں کہ یہ لوگ پاکستان سے گئے تھے۔ مگر فلسطین میں کون جا رہا ہے، وہاں تو کسی چڑیا کو پر تک مارنے کی مجال نہیں، بس نہتے فلسطینی نوجوان ہیں جو قبلہ اول میں اللہ کے حضور سر بسجود ہونے کی آ رزو سے سرشار ہیں مگر انہیں اقصی کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہی گولیوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے، سعید احمد نے جو ویڈیو بھیجی ہے، اسے میں صرف ایک بار دیکھ پایا ہوں، پھر اسے ڈیلیٹ کر دیا۔میرا حوصلہ جواب دے گیا، ہو بہو فاٹا کے دہشت گردوں کی طرح جو پاکستانی فوجیوں پر تڑ تڑ گولی چلاتے تھے ا ور ان کے سروں سے فٹ بال کھیلتے تھے، اسی طرح اسرائیلی فوج بھی
درندگی ا ور وحشت کا گھنائونا کھیل کھیلتی ہے، پہلے ایک نوجوان کی ٹانگوں میں گولی، پھر دوسرے نوجوان کی ٹانگوں میں گولی، یہ نوجوان جیسے جیسے تڑپتے ہیں، اسرائیلی درندے قہقہے لگاتے ہیں اور اگلی گولیاں ان کے پیٹ، سینے ا ور پیشانی پر داغ دیتے ہیں، ایک نوجوان ساتھ کھڑا نعرے لگاتا ہے، اس کے ارد گرد اسرائیلی فوجی پورا چکر کاٹتا ہے اور پھر آئو دیکھتا ہے نہ تا ئو، اس پر گولیوں کی موسلا دھار بارش، چشم زدن میں جوش و ولولے سے معمور آخری نوجوان بھی ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور یہاں یہ وڈیو کلپ ختم ہو جاتا ہے، آپ کے اندر ہمت اور حوصلہ ہو تو یو ٹیوب پر اقصیٰ فائرنگ لکھیں اور ایک نہیں کئی وڈیوز آپ کے سامنے آ جائیں گی، اگرا ٓپ ان میں سے کوئی بھی وڈیو دیکھ پائیں تو مجھے ضرور بتائیے گا۔