خبرنامہ

مسلم لیگ ق… الیکشن تجزیوں کا ایک سلسلہ…کالم اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مسلم لیگ ق… الیکشن تجزیوں کا ایک سلسلہ…کالم اسد اللہ غالب

پاکستان مسلم لیگ کو عام آدمی ق لیگ کے نام سے جانتا ہے مگر یہ پارٹی الیکشن کمیشن میں پاکستان مسلم لیگ کے نام ہی سے رجسٹرڈ ہے۔ اس لئے اس نام کو معتبر مانا جائے۔
اس پارٹی کو جنرل مشرف کے دور میں عروج حاصل ہوا۔ مسلم لیگ ن اس پارٹی کی قیادت اور اس میں شامل ارکان اسمبلی کو لوٹے اور بے وفا کہتی ہے مگر خود مسلم لیگ ن نے اس پارٹی کے وزرا تک کو اپنی ٹکٹیں جاری کیں اور اب تو ساری مسلم لیگ ن وہی ہے جو مسلم لیگ ق کی شکل میں نظر آتی تھی۔ میری جچی تلی رائے ہے کہ مسلم لیگ ن کو تو چودھری شجاعت حسین ا ور چودھری پرویز الٰہی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے مسلم لیگی ارکان کو ایک پلیٹ فارم فراہم کئے رکھا ورنہ یہ لوگ پیپلز پارٹی میں چلے جاتے یا کسی ا ور گھونسلے میں جا بیٹھتے، ارکان اسمبلی کو اقتدار چاہئے ، اس لئے چاہئے کہ اس کے بغیر وہ اپنے حلقے کے مسائل حل نہیںکروا سکتے، فارم ٹو مارکیٹ روڈز نہیں بنوا سکتے، سکول نہیں کھلوا سکتے، ہسپتالوں کے لئے نئی سہولتیں نہیں لے سکتے، نادرا اور پاسپورٹ بنانے کے سنٹر نہیں بنوا سکتے۔ حتیٰ کہ گلی محلے کی مرمت تک نہیں کروا سکتے۔ گائوں میں پانی کی ٹینکی نہیں بنوا سکتے۔
چودھری شجاعت اور چودھری پرویز نے اس نام کو زندہ رکھا جو قائداعظم سے منسوب تھا، پاکستان بن گیا تو آل انڈیا مسلم لیگ کی جگہ پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اس کے احیا کا سہرا چودھری شجاعت اور چودھری پرویز کے سر جاتا ہے۔ اس لئے جاتا ہے کہ یہ دونوں لیڈر پیدائشی مسلم لیگی تھے، چودھری ظہور الٰہی ہمیشہ مسلم لیگ میں رہے اور چودھری شجاعت اور چودھری پرویز بھی مسلم لیگ کو چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں نہیں گئے، ان بھائیوںنے جیل تب دیکھی جب یہ ابھی کالجوں سے نکلے تھے اور بھٹو کی دھاندلی کے خلاف تحریک شروع ہوئی تھی، اس خاندان کے خلاف پہلی انتقامی کارروائی بھی بھٹو نے کی جب چودھری ظہور الٰہی کا سارا کاروبار قومی یعنی سرکاری ملکیت میں لے کر تباہ کر دیا گیا۔ چودھری ظہور الٰہی نے جیلیں بھی کاٹیں اور ڈنڈے بھی کھائے۔ چودھری ظہور الٰہی ایک تخلیقی دماغ کے مالک تھے، جب بھٹو کی الیکشن دھاندلی انتہا پر تھی تو چودھری ظہور الٰہی نے لاہور میں اپنے گھر پر ساری اپوزیشن پارٹیوں کو اکٹھا کیا اور پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیا گیا۔ بھٹو کی انٹیلی جنس کوکانوں کان خبر تک نہ ہو سکی۔ اگر چودھری ظہور الٰہی کا جرم یہ ہے کہ انہوںنے جنرل ضیا سے وہ پین تحفے میںمانگا جس سے اس نے بھٹو کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کئے تھے تو پیپلز پارٹی نے اس کا بدلہ چکانے میں دیر نہیں کی اور چودھری ظہور الہی کو گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کر دیا۔ اگر پیپلز پارٹی کے پاس بھٹو کی نعش سیاست کرنے کے لئے موجود ہے تو پاکستان مسلم لیگ کے پاس بھی ایک نعش موجود ہے۔ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز نے قید و بند کاٹی اور لاتعداد مقدمے بھگتے مگر ان کی اولادیں بیرون ملک نہیں۔ چوھری شجاعت اور چودھری پرویز کبھی پاکستان سے نہیں بھاگے، وہ یہیں پر ہیں اور ہر چیلنج کا سامنا کرتے ہیں۔
چودھریوں کو سیات میں بلند مقام ملنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ فراخ دل واقع ہوئے ہیں، اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں، ان کا دسترخوان وسیع ہے۔ ظہور الٰہی کی طرح وہ حاجت مندوں کی خاموشی سے مدد کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میںنے ان کے بارے میں لوگوں کی زبان سے سنی ہیں۔
شرافت کی سیاست اور رواداری صرف چودھری خاندن کا طرۂ امتیاز ہے۔ انہوںنے کبھی کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی۔ یہ ضرور ہے کہ پچاسی میں چودھری پرویز الٰہی بھی وزارت اعلیٰ کے لئے امیدوار تھے اور انہوں نے ایک سال بعد ہی ایک بار پھر کوشش کی کہ وہ ایوان میں اکثریت حاصل کر لیں، اس پر شریف خاندان سے ان کے وقتی طور پر فاصلے بڑھ گئے مگر بعد میں انہوں نے نواز شریف کو گجرات اپنے گھر مدعو کیا اور ان کی جیپ کو دریائے چناب کے پل پر سے کندھوں پر اٹھا لیا۔ اس کے بعد سے دونوں خاندان پھر قربت کے رشتوں میں منسلک ہو گئے اور جب مسلم لیگ ن اپوزیشن میں تھی تو چوھریوں کے لاہور کے گھر میں پارٹی کا ایک بڑا اجتماع ہوا جس میں نواز شریف نے اعلان کیا کہ آئندہ پارٹی کو اکثریت ملی تو چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کریں گے مگر بعد میں اس وعدے کی پاسداری نہیں کی۔ اس لئے نناوے کے بعد اگر چودھریوں نے اپنا راستہ الگ کیا تو انہیں اس کے لئے مطعون نہیں کیا جا سکتا۔
ہر پارٹی اپنا مفاد دیکھتی ہے۔ مسلم لیگ ن اگر فضل الرحمن سے ہاتھ ملائے گی تو چودھری بھی تحریک انصاف کی طرف جھک جائیں گے، یہ ہماری سیاست کا المیہ ہے اور اگر جمہوری اور سیاسی عمل مستقبل میں چلتا رہا تو امید کی جا سکتی ہے کہ ملک میں اصولی سیاست رواج پکڑے گی اور ہر پارٹی مفاد کی خاطر کسی سے سودے بازی نہیں کرے گی۔ آج جب نواز شریف کو سخت امتحان درپیش ہے تو وہ چودھریوں کی حمایت کے بغیر لازمی طور پر اپنے آپ کو کمزور سمجھتے ہوں گے۔ سیاست کے گر کوئی چودھری شجاعت سے سیکھے جسے ظہور الٰہی کے فرزند ہونے پر فخر ہے اور آفریں ہے پرویز الٰہی پر کہ انہوں نے کبھی اپنے بڑے بھائی چودھری شجاعت سے کبھی دوری اختیار نہیں کی۔ چودھری بہت کم نشستوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں مگر انہیں توقع کے مطابق کامیابی ضرور ملے گی۔