خبرنامہ

مصطفی کمال کی چال۔۔۔اسداللہ غالب

یہ کوئی اتنی بڑی انہونی نہیں ہے۔جب پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور بھارت کی بانی جماعت کانگرس بھی ٹکڑوں میں بٹ گئی تو باقی جماعتیں کس کھیت کی مولی ہیں، میں یہ نہیں مانتا کہ ہر سیاسی پارٹی کے بٹوارے میں ایجنسیوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے سیاستدانوں کی انا ہی پارٹیوں کی تقسیم کے لئے کافی ہے۔جماعت اسلامی تقسیم سے نہیں بچ سکی،بڑے بڑے صالحین اور مفسرین قرآن جماعت سے الگ ہو گئے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ نئی بننے والی جماعتیں کچھ عرصہ بعد فٹ پاتھوں پر ردی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئیں۔پیپلز پارٹی کا دکھڑا الگ نوعیت کا ہے، جنرل مشرف دور میں اسے زندہ رکھنے کے لئے اس کے ساتھ ایک پی اور لگا دی گئی اور اب تک یہ پی کام دے رہی ہے مگر زرداری کے لئے پرانی پیپلز پارٹی زندہ کر لی گئی ہے ۔یہ بھی نرالی بات ہے کہ ایک پی کا سربراہ باپ ہے ا ور دوسری پی کا بیٹا۔یہ تو سنا تھا کہ باپ الگ پارٹی میں ہے ا ور بیٹا کسی دوسری پارٹی میں تاکہ ان میں سے کوئی بھی اقتدار میںآئے تو پورا خاندان ہر لحاظ سے فائدے میں رہے۔ پاکستان توڑنے و الے جنرل یحی خا ن کے ساتھی جنرل عمر کے دو صاحبزادے دانشور ہیں ، ایک ن لیگ کے ساتھ ا ور دوسرا تحریک انصاف کے ساتھ۔اور اس بات کی تو کسی کو حیا ہی نہیں کہ کل آپ مشرف کے ساتھ تھے تو آج ن لیگ کے کرتا دھرتا کیسے بن گئے مگر یار لوگ بنے ہوئے ہیں۔اسے کہتے ہیں سینے پر مونگ دلنا، کہ کر لو جو کرنا ہے۔
مصفی کمال نے اپنی طرف سے تو کمال کا ہاتھ دکھایا ہے اور کوئی ایسا الزام نہیں جو اپنے سابق قائد اور پارٹی پر عائد نہ کیا ہو۔ پوری زندگی اس گندگی کا حصہ رہنے کے بعد انسان کا ضمیر جاگ جائے تو اس کے لئے اردو والوں نے ہی ایک محاورہ گھڑ رکھا ہے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔
ایک بار اندرون سندھ ڈاکووں کے خلاف آپریشن ہوا، یہ فوج نے کیا، اس کی کمان جنرل نصیر اختر کے ہاتھ میں تھی، یکا یک خبریں آنے لگیں کہ کراچی کے نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیاا ور وہاں سے اور چیزوں کے علاوہ جناح پور کے نقشے بر آمد ہوئے۔ویسے جنرل نصیر اختر سے میری کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں ، میں نے بار بار ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ نقشے برآمد کئے تھے، انہوں نے اس برآمدگی سے اظہار لاتعلقی ا ور لاعلمی کیا، اب پتہ نہیں اصل حقیقت کیا تھی، باکل اسی طرح اب فاٹا میں ضرب عضب چل رہی تھی مگر ایک آپریشن رینجرز نے کراچی میں شروع کر دیا، اس کی کوئی وجہ تو ہو گی اور اس آپریشن کے نتیجے میں ٹارگٹ کلرز اپنے گناہوں کااعتراف کر رہے ہیں، کوئی بھارتی دہشت گرد تنظیم را سے تعلق کی باتیں کرتا ہے، جتنے منہ اتنی باتیں،کوئی بھتہ خوری کا اعتراف کرتا ہے۔اور اب مصطفی کمال بولے ہیں تو چھپڑ پھاڑ کر بولے ہیں۔ ان کی باتیں بھی سچی ہوں گی آخر ہائی کمان کا حصہ تھے مگر ان پر ایکشن کیا ہو گا۔
مجھے کراچی میں آپریشن پر کوئی اعتراض نہیں، میرے گھر میں بھی کسی نے آپریشن کرنا ہو توضرور کرے مگر بلوچستان میں خود بھارت یہ اعتراف کر رہا تھا کہ وہ اس صوبے میں دہشت گردی کر رہا ہے، ہم نے اقوام متحدہ کو اس بارے ثبوت بھی فراہم کئے ، میری رائے میں ایک آپریشن وہاں بھی ہونا چاہئے تھا اور پہلے ہونا چاہئے تھے، یہ آپریشن برق رفتار ہوتا اور بھارتی را کے دہشت گردوں کی گردن ناپتا تو مزہ ہی آ جاتا۔مگر آپریشن کراچی میں ہوا ، اس کے لئے ثبوت اکٹھے کرنے میں کتنا ہی وقت لگ جائے گا، بلوچستان میں یہی کچھ کیا ہوتا تو بھارت پوری دنیا کے سامنے ننگا ہو جاتا۔ایسا کیوں نہیں کیا گیا،ا س کا جواب کون دے گا۔
کراچی میں کبھی جماعت اسلامی کو بالادستی حاصل تھی، جنرل ضیا نے جماعت کا زور توڑنے کے لئے ایم کیو ایم کھڑی کی، جماعت تو کراچی سے باہر ہو گئی مگر ایم کیو ایم بھی کسی کے قابو میں نہ رہی۔ تو جنرل ضیا کو توڑ پھوڑ کا کیا فائدہ ہوا، ایم کیو ایم ہمیشہ سے اقتدار کی پارٹی رہی ہے۔جنرل مشرف کے ساتھ بھی اس نے مزے کئے، یہ بھارتی ایجنٹ تھی تو اس فوجی حکمران کو پتہ کیوں نہ چلاا ور اگر سب پتہ تھا تو اسے ملک کی قسمت کا مالک کیوں بنا دیا گیا۔مشرف کے دور کا سندھ کا گورنر بھی بنا ، وہ اب بھی اپنے عہدے پر قائم ہے ، پنجاب ا ور خیبر پی کے میں بار بار گورنر بدل دیئے گئے،مشرف برا، مشرف کے قانون برے، مشرف کی عدلیہ بری اور پی سی ا و زدہ مگر مشرف کا گورنر ہر حکومت کا چہیتا۔یہ کون ہے جو پاکستان کے بیس کروڑ عوام کو بیوقوف سمجھتا ہے۔
مصفی کمال سندھ کے مسئلے کا حل نہیں، سندھ میں مقامی ا ور مہاجر کی تقسیم ہے،صوبے کے اندر مقامیوں کی بھرمار ہے اور دو بڑے شہروں میں مہاجرین کا جمگھٹا ہے۔کراچی اتنابڑا شہر ہے کہ اس کی آبادی کی چھان بین ممکن ہی نہیں،سندھ میں ایسے بھی عناصر ہیں جو راجہ داہر کو اب بھی ہیرو تصور کرتے ہیں۔دوسری طرف سندھ اتنا برا لفظ ہے کہ شیو سنہا نے اسے بھارتی قومی ترانے سے حذف کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
سندھ کارڈ ہماری سیاسی لغت کا حصہ ہے، بعض عناصر کا خیال ہے کہ وہ پاکستان سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔زرداری ا ور الطاف اس قسم کی دھمکیاں کئی بار دے چکے ہیں، ملفوف لفظوں میں نہیں بلکہ واضح طور پر، اگر ہمیں ان کی سمجھ نہ آتی ہو تواس میں ہماری عقل کا قصور ہے۔بھارتی فوج کی جارحانہ حکمت عملی میں سندھ کو باقی ملک سے کاٹنے کی مشق براس ٹیکس کے دوران کی جا چکی ہے۔جو اہمیت ہمارے لئے کشمیر کی ہے، وہی سندھ کی ہے، دونوں ہماری اقتصادی شہہ رگ ہیں۔
کیاسترہ ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد واپس آنے والے مصفی کمال کو اتا ترک بننے کے لئے کوئی کمال حاصل ہے۔ویسے پاکستان ایشیا کا مرد بیمار بھی نہیں۔ا ور عسکری میدان میں جنرل راحیل شریف ا ور سیاسی میدان میں نواز شریف کے ہوتے ہوئے ہم جلا وطنوں کے محتاج کیسے ہو گئے۔