خبرنامہ

معاشی سروے کا سروے۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

اسحق ڈار خوش نصیب وزیر خزانہ ثابت ہوئے ہیں ،ا نہیں ایشیا کا بہترین وزیر خزانہ تو قراردیا ہی جا چکا ہے۔ بجٹ پیش کرنے سے پہلے معمول کے مطابق اکنامک سروے پیش کیا جاتا ہے اورو زیر خزانہ نے بڑے فخر سے کہا ہے کہ دس سال میں یہ سب سے زیادہ شرح نمو حاصل ہوئی ہے۔اگلے سال کے لئے انہوںنے چھ فی صد کی شرح کا ہدف رکھا ہے، یہ ہدف کوئی غیر معمولی نہیںمگر ملک کو جو حالات درپیش ہیں اس میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کی جا سکتی مگر موجودہ حکومت نے ان مخدوش حالات کے باوجود نظرآنے والی ترقی اور خوشحالی حاصل کر کے دکھائی ہے، بلا شبہہ وزیر اعظم کی تیسری ٹرم کی وجہ سے ان کے تجربے نے اپنا کمال دکھایا ہے اور اسحق ڈار کی یہ چوتھی ٹرم ہے ، اس حکومت کی ٹیم نے مکمل کنٹرول اور مالی نظم کا مظاہرہ کیا اور لیکیج ختم کر کے اپنے اہداف کی طرف پیش قدمی کی۔اسحق ڈار کہیں فالتو ایک پائی بھی خرچ کرنے کے رواد ار نہیں لیکن جہاں ترقیاتی منصوبوں کا معاملہ آ جائے تو وہ فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں، اسی رویئے کی بنا پر دنیا نے دیکھا کہ سی پیک کا جناتی منصوبہ اب ون بیلٹ ون روڈ میں تبدیل ہو کر تین بر اعظموں پر محیط ہو چکا ہے۔رابطے کا ذریعہ پاکستان ہوگا،جو سلک روڈاور دیگر شاہراہوں کے مربوط نظام کی وجہ سے گوادر کی گہرے پانیوں کی جدید ترین بندر گاہ سے بھر پور ثمرات سمیٹنے کے قابل ہو جائے گا۔
معاشی سروے کے سر بجلی کے درجنوں منصوبے سہرے کی طرح سجے ہیں۔پاکستان اندھیروںمیں ڈوبا ہوا تھا، اس ماحول میں بیرونی سرمایہ کار تو کیا آنے تھے، ملکی سرمایہ کار بھی راہ فرار اختیار کرر ہے تھے۔مگر بجلی کی پیدا وار، ترسیل اور فراہمی کے نظام کی تیزرفتارا ور محیر العقول ترقی نے بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کے لئے کشش پیدا کر دی ہے،اکیلا چین ہی ایک ناقابل تصور سرمایہ کار ی کے لئے تیار ہو چکا ہے اور اس کے منصوبے پاکستان کے تما م علاقوںمیںمساوی طور پر پھیلے ہوئے ہیں جس سے عام آدمی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
معاشی سروے کا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ سال گزشتہ میں پاکستان آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ چکا ہے، یہ ملکی معیشت پر اعتماد کی ایک بین دلیل ہے۔ اور یوں یہ حکومت اپنے انتخابی وعدوںمیں سے ایک وعدے کو بڑی حد تک پورا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ کشکول توڑ دیا جائے گا، مگر ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے پاکستان کو قرضوں سے مکمل طور پر چھٹکارا ممکن نہیں۔مگرنئے قرضے ایک لحاظ سے نئی سرمایہ کاری کے مترادف ہیں۔
وزیر خزانہ نے دیانت داری سے کام لیتے ہوئے وہ سب کچھ بتا دیا ہے جسے ہر حکومت چھپانے کی کوشش کرتی ہے ، یہ سب منفی نکات ہیںمگر وزیر خزانہ نے کسی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ،اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ حاصل نہیں کیا جا سکا، اس کی وجہ حکومتی نااہلی نہیںبلکہ اپوزیشن کے وہ ہتھکنڈے ہیں جو انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت کو بھی بریک لگا دیتے ہیں، کوئی یورپ جا کر دیکھے، امریکہ پر نظر ڈالے، کمپنیاں بند ہو رہی ہیں اور لاکھوں افراد بے روز گار ہو رہے ہیں۔پاکستان میں تو موجودہ حکومت کے پائوں میں شروع ہی سے زنجیریں ڈال دی گئی تھیں، الیکشن نتائج پر دھاندلی کا شور اور پھر طویل دھرنا جس نے دارالحکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا، یہ شور شرابا ابھی ختم نہیںہو پایا تھا کہ اپوزیشن کے ہاتھ پانامہ لیکس کا ہتھکنڈہ آ گیا ۔ اس مسئلے پر سپریم کورٹ تک کو الجھا دیا گیا اور یہ سلسلہ اب جے آئی ٹی تک پھیل گیا ہے، جس حکومت کو اپنے کل کی فکر ہو، اس سے کسی کام کی توقع عبث ہے مگر نواز شریف ایک فولادی انسان ہیں، وہ چالیس برس سے سیاست اور حکومت میں ہیں اور قلعے اور جلاوطنی کو بھی بھگت چکے ہیں ، ا سلئے وہ ایک پر عزم انسان کی طرح اپنی تمام تر توجہ حکومت کاری پر مرکوز کئے ہوئے ہیں ، انہیںکوئی شور شرابا سیدھی پٹڑی سے نہیں اتار سکا،انہوںنے آج بھی کہا ہے کہ کرپشن کا سارا شور ترقیاتی منصوبہ بندی کا راستہ روکنا ہے مگر وہ دل چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا کام جھوٹے الزامات کو دھو ڈالے گا۔
دہشت گردی کی جنگ نے بھی معاشی ترقی کو جکڑے رکھا ہے، اس سلسلے میں حکومت نے دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور مسلح افواج اور دیگر سیکورٹی اداروں کے تعاون سے دہشت گردی کی جڑیں کاٹ کر رکھ دی ہیں۔پھر بھی پاکستان کو بیرونی خطرات درپیش ہیں ، افغانستان ،ایران اور بھارت کی طرف سے مسلسل جارحیت درپیش ہے۔ یہ صورت حال معاشی اہداف کو منفی طور پر ہدف بناتی ہے۔
حکومت کی توجہ معاشی ترقی سے ہٹانے میں نیوز لیکس کا بھی بڑا کردار ہے۔نیوز لیکس سے حکومت ا ور فوج کے مابین کشیدگی پیدا کرنے اور بد اعتمادی کو بڑھانے کی کوشش کی گئی۔یہ انتہائی خطر ناک صورت حال تھی مگر حکومت اور فوج دونوں طرف سے دانش مندی کا مظاہرہ کیا گیا اور اب یہ خطرہ کافور ہو چکا، مجھے ان عناصر سے ہمدردی ہے جو نیوز لیکس کی آڑ میں حکومت ہی نہیں بلکہ جمہوریت کا بھی بستر بوریا گول کرنا چاہتے تھے ۔ پاکستان کی تقدیر جمہوریت سے منسلک ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم جمہوریت پر ایمان رکھتے تھے اور انہوںنے ایک عظیم سیاسی اور جمہوری جدو جہدکے ذریعے پاکستان کو قائم کرنے کا معجزہ انجام دیا۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ سترسالہ آزادی کے دور میں نصف عرصہ ہم فوجی آمریت کے چنگل میں جکڑے رہے جس سے ملک میں جمہوریت کی چولیں ہل گئیں اور اب لوگ فوجی آ ٓمریت کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ وہ ذرا سے بحران کی وجہ سے خوف میںمبتلا ہو جاتے ہیں۔خدا کرے کہ ملکی سیاسی پارٹیاں جمہوریت اور صرف جمہوریت کو جزو ایمان بنا لیں۔
مجھے ذرا شک نہیں کہ وزیر خزانہ اسحق ڈار اپنے لیڈر نوازشریف کے ویژن کو پوری طرح سمجھتے ہیں اور اس کو حرف بحرف رو بہ عمل لاتے ہیں، ان کی اس محنت کی بنا پر یہ پیش گوئی بڑی آسانی سے کی جاسکتی ہے کہ اگلے الیکشن کی جیت میںموجودہ معاشی سروے کا نمایاں کردار ہو گا۔