خبرنامہ

معیشت کی تباہی آمریت کے ہاتھوں … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

معیشت کی تباہی آمریت کے ہاتھوں … اسد اللہ غالب

اس ملک میں بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے ایک مرتبہ نہیں آیا کہ ہم صرف اسی ایک دن کو رونے بیٹھ جائیں۔ یہ دن بار بارا ٓیا۔ اٹھائیس اکتوبر انیس سو اٹھاون کو بھی یہ دن آیا، جس دن جنرل ایوب خان نے ملک کی باگ ڈوراچک لی تھی، وہ دن بھی جب پانچ جولائی انیس سو ستتر کو جنرل ضیاا لحق نے شب خون مارا۔

یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ اس بارہ اکتوبر کراچی میں ایک مباحثہ منظم کیا گیاکہ ملک کی معیشت کی حالت زبوں تر کیوں ہے۔موجودہ آرمی چیف کی ملکی ترقی میں دلچسپی کی ستائش کی جانی چاہئے مگر قومی معیشت کو جو بار بار دھچکے لگے اور جن فوجی آمروںنے لگائے، وہ ہر ایک کے علم میں ہیں، ان کا کھوج لگانے کی ضرورت نہیں۔اس وقت بھی مسلم لیگ ن کی قیاد ت ایک شکوہ کر رہی ہے کہ ان کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کر کے درا صل ملکی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں۔ نواز شریف نے یہ بات ایک بار نہیں سو بار کی ہے۔اور مصیبت یہ ہے کہ سیاسی اور جمہوری عدم استحکام کا عمل رکنے کے بجائے سپر سانک اسپیڈ سے آگے بڑھ رہا ہے۔
جولائی میں جب تک نواز شریف کو نہیں نکالا گیا تھا تو تب تک سی پیک چھلانگیں بھر رہا تھا، چین کامنصوبہ ون بیلٹ ون روڈ آسمان کی بلندیوں پر تھا، نواز شریف کے نکالے جانے کے تین ماہ بعد امریکہ نے کہہ دیا کہ سی پیک ایک متنازعہ علاقے میں نہیں بن سکتا´ ۔ اسی طرح لاہور کی رنگ روڈ کے بارے میںنواز شریف کے جانے کے بعد خادم اعلیٰ بھی چیخ پڑے کہ یہ منصوبہ اب بر وقت مکمل نہیں ہو سکتا، انہوں نے راستے کی تکالیف بھی گنوائیں،کیا کسی نے کہاکہ ہم یہ رکاوٹیں دور کرتے ہیں ، کیا کسی نے امریکہ سے کہا کہ سی پیک بن کے رہے گا۔ اور یہ بھی یاد رکھئے کہ برکس کی قرارداد بھی پاکستان کے سیاسی عدم ا ستحکام کے نتیجے میں آئی، معاشی عدم ا ستحکام کی وجہ سے نہیں آئی۔ نواز شریف کے ہوتے ہوئے بھی وہی ملک تھا جس کے وزیر خزانہ اسحق ڈار ایشیا کے بہترین وزیر خزانہ کہلائے۔ یہی وزیر خزانہ تھے جنہوں نے پاکستان کو ایک سو اٹھارہ ملکوں کی تنظیم کا ممبر بنایا تاکہ ٹیکس چوروں کو پکڑا جا سکے، کیا چور بھی چور کو پکڑتا ہے۔ چور مچائے شور کا محاورہ تو سنا تھا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ چور دوسروں کی چوری پکڑنے کاانتظام کرے اورا سے خود معلوم نہ ہو کہ وہ بھی اس پکڑ میں آ جائے گا، اسحق ڈار چور ہوتا، نواز حکومت چور ہوتی تو اسے اس تنظیم کی ممبر سازی کی ضرورت کیا تھی، ہم نے چونکہ برطانیہ سے چوروں کو نہیں پکڑنا، اس لئے ا سکے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ نہیں کرتے، اسی لئے علی بابا اورچالیس چوروں کا جتھہ وہاں پناہ لئے بیٹھا ہے۔
شہباز شریف نے ایک طرف بارہ اکتوبر ننانوے کے سانحے کا ذکر کیا ہے ا ور ترقی پذیر معیشت کو بریکیں لگانے کی بات کی ہے۔ کیا موٹر وے وہیں نہیں رک گئی تھی، کیا آئی ٹی کے منصوبے وہیں نہیں رک گئے تھے، کیا احسن اقبال کی بیس سالہ پلاننگ وہیں نہیں رک گئی تھی، کیا لوگوں کو خود روزگار کے قرضے نہیں مل رہے تھے، کیا پیلی ٹیکسیوں کی ملک میں بہتات نہیں ہو گئی تھی اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ جیسے ہی نواز شریف کو سلاخوں کے پیچھے ایک فوجی ا ٓمر نے بند کیا ، ساتھ ہی خود روزگارا سکیم کے قرضے لینے والوں کو بھی اندر کر دیا گیا۔مشرف کہتا تو تھا کہ مگر مچھوں کو پکڑوں گا، میں نے تھانہ سرور روڈ لاہور میں ایسے درجن بھر مگر مچھ قید میں دیکھے مگر بعد میں یہ سب ایک ایک کر کے آزاد ہو گئے اور کئی ایک تو مشرف کی کابینہ کا حصہ بن گئے۔مشرف نے دس سال ضائع کئے، ایک ڈیم نہیں بنایا، ایک بجلی گھر نہیں بنایا، ایک یونیورسٹی نئی نہیں بنائی ، تو فیصلہ کیجئے کہ معیشت کس نے برباد کی۔ مشرف کو تو پاکستانی وزیر اعظم بھی قبول نہ تھا، اس کے لئے ایک شخص کو امپورٹ کیا گیا۔اگر اسحق ڈار کو اکا¶نٹنٹ کہتے ہو تو مشرف کا لاڈلا تو صرف ایک بینکر تھا اور اسحق ڈار سے بھی ملازمت کی بھیک مانگ رہا تھا، وہ جس عہدے کا طالب تھا، اسکا اہل نہ تھا، اس لئے اسحق ڈار نے اسے ملنے تک کا وقت نہ دیا مگر ایک فوجی آمر جسے معیشت اور مالیات کی ابجد کا بھی پتہ نہیں تھا، اس نے اسے پہلے وزیر خزانہ لگا لیا پھر وزیر اعظم اور جب دونوں کی حکومت ختم ہوئی تو ہر کوئی ایک بریف کیس اٹھا کر بھاگ نکلا، مشرف پر تو قتل کے کیس ہیں، غداری کے کیس ہیں ، وہ ان کا سامناکرنے سے بھی ڈرتا ہے۔
درمیان میں کہیں یحییٰ خان نے ملک کاا قتدار سنبھالا اور جب تک ملک کو دو لخت نہیں کر لیا اس نے اقتدار نہیں چھوڑا، اس سے قبل ایوب خان نے گیارہ سال حکومت کی۔ اس نے ملک میں بائیس خاندان پیدا کئے جبکہ کروڑوں لوگ دو وقت کی روٹی کے محتاج تھے۔
اصل میں قائداعظم نے مشرقی پاکستان میں اسمگلنگ پر ٹوک دیا تھا، ایوب نے دل میں گرہ باندھ لی۔ قائد اعظم کے ملک، جمہوریت اورخاندان تک سے بدلہ لے کے چھوڑاا ور باقی فوجی آ ٓمروں کو راستہ دکھا گیا کہ یہ سیاست دان ایک ڈنڈے کی مار ہیں، ضیاالحق نے تو یہاں تک تضحیک فرمائی کہ میں انگلی کا اشارہ کروں تو سیاست دان دم ہلاتے ہوئے بھاگتے چلے آئیں گے، جنرل ضیا نے تو فوج کے محسن کو رستے سے ہٹا دیا، بھٹو نے بھارت کی قید سے نوے ہزار قیدی اور ہزاروںمربع میل کا مقبوضہ رقبہ چھڑوایا اور ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل رکھی، اس کے ان احسانات کا بدلہ یوں دیا گیا کہ اسے قتل کے ایک کیس میں پھانسی چڑھا دیا۔
بارہ اکتوبر ننانوے کے حوالے سے سودو زیاں کا حساب ہو رہا ہے تو اس کے لئے دیانت داری سے رائے دی جائے۔ بھٹو کے آخری دنوں میں ملک کی معیشت کا واقعی جنازہ نکل چکا تھا مگر یہ ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی پاداش میں امریکہ کی طرف سے سزا تھی، ننانوے میں بھی ملک کی معیشت زیر و زبر تھی، وجہ سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان دھماکے کرے ،نواز شریف کو کلنٹن نے سات فون کئے اور اربوں ڈالر کی امداد کی پیشکش بھی کی مگر نواز شریف پاکستان کا بیٹا تھا، امریکہ کا غلام نہیں تھا، اس نے قوم کی امنگوں کے مطابق دھماکے کئے ا ور امریکہ نے پاکستان کا حقہ پانی بند کر دیا۔ آج کسی کو ملک کی معیشت نحیف نظر آ رہی ہے تو ا سکی وجہ پھر امریکہ ہے جس کا تقاضہ ہے کہ حقانی گروپ کو ملیا میٹ کیا جائے ، اول تو حقانی گروپ پاکستان میں ہے نہیں، دوسرے اگر کھلے بارڈر کی وجہ سے آرپار ہوتا بھی ہو تو وزیر اعظم عباسی نے دوٹوک جواب دیا ہے کہ ہم افغانستان کی لڑائی پاکستان کی سرزمین پر نہیں لڑ سکتے۔
اس کا مطلب یہ ہو اکہ اس وقت ملکی معیشت کو چار چاند لگانے ہیں تو بسم اللہ ! حقانی گروپ کو فائر مارو۔لشکر طیبہ کا نمدا کسو۔ جیش محمد کو ٹکٹکوں پر چڑھاﺅ اور حافظ سعید کو بھارت یا امریکہ کے حوالے کر دو، ملک نہال ہو جائے گا۔اورمعیشت کی بربادی کا رونا بھی ختم ہو جائے گا۔آسمان سے ہن برسے گا، دولت چھت پھاڑ کر جھولی میں گرے گی، نواز شریف یہ نہیں کر سکتا تھا، عباسی بھی نہیں کرے گا، تو پیٹتے رہیے اس لکیر کو ملکی معیشت کا جنازہ نکل گیا۔