خبرنامہ

منظور وٹو کو بیگم ضیا الحق کا سفارشی ٹیلی فون۔۔اسداللہ غالب

میں ا ن دنوں تاریخ مرتب کر نے کے چکر میں ہوں، یہ سب کچھ ہمارے سامنے رونماہوا، مگر ہم انہیں ایسے بھول گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور یوں لگتا ہے کہ ہم نے عمر عزیز اور وطن عزیز کے بیسیوں قیمتی سال ضائع کر دئے۔
میاں منظور وٹو ، خوش شکل، خوش گفتار، خوش پوش اور خوش اخلاق انسان ہیں،وٹووں کی روایتی ہیر ا پھیری اور رسہ گیری سے مبرا ۔بیک وقت نواز شریف ا ور بے نظیر کو شیشے میں اتارنے والے ا ور پھر دونوں سے ٹکر لینے والے ۔ ممتاز دولتانہ کی طرح پڑھنے لکھنے کے شوقین، اور انتہائی ملنسار انسان۔یہی خوبیاں انہیں بام عروج پر لے گئیں۔
مجھے وہ دوپہر اچھی طرح یاد ہے جب میاں منظورو ٹو نے وزیراعلی غلام حیدر وائیں کے خلاف ۔۔کودیتا۔۔کیا، یہ کو دیتا تو ہمیشہ فوج کرتی رہی ہے مگر سویلین کو دیتاکی ایک مثال ہے جو منظور وٹو نے قائم کی ، ان سے پہلے چودھری پرویز الہی بھی ایک ناکام کوشش کر چکے تھے، بخدا میں نے گلبرگ روڈ پر ان کی طول طویل کوٹھیوں کے باہر تین دن تک گاڑیوں کی طویل قطاریں دیکھی تھیں، گنتی میں ہی نہیں آتی تھیں،چودھری پرویز الہی نے موراوور کے طور پر سوچا کہ میاں نواز شریف کا تختہ الٹنے کے لئے ضروری ہے کہ مرد درویش مجید نظامی کی پگڑی بھی اچھالی جائے ، سو انہوں نے وہی کیا جیسے ایک گھوڑا میدان جنگ میں بم کولات مارتا ہے۔ چودھری پرویز الہی نے میرے مرشد نظامی کی توہین کی اور اپنی قسمت خراب کر لی۔ بیچ میدان کے چت ہو گئے اور میاں نواز شریف کا کچھ بھی تو نہ بگاڑ سکے۔
مگر میاں منظور وٹو کچی گولیاں نہ کھیلے تھے۔ایک ہی ہلے میں وائیں صاحب کو لے بیٹھے۔ میں اس روز نوائے وقت کا اداریہ لکھ رہا تھا مگر مجھ سے رہا نہ گیا ، میں نے یہ تاریخی لمحہ آ نکھوں سے دیکھنے کا فیصلہ کیا، وائیں صاحب کے ساتھ صرف تین گاڑیاں تھیں جبکہ میاں منظور وٹو سینکڑوں گاڑیوں کے جلو میں اسمبلی ہال آئے، ان میں دو تو میرے گہرے دوست بھی تھے۔، مہر سعید ظفر پڈھیار، اورسعید منہیس۔یہ دونوں میاں نوازشریف کے بھی لاڈلے رہے تھے مگر دل اور دن بدلتے دیر کہاں لگتی ہے،سیاستدانوں کادل بھی محبوب کے دل کی طرح ہوتا ہے۔ محبوب کے سینے میں تو پھر بھی گوشت پوست کا دل ہوتا ہے، سیاستدانوں کے سینے میں پتھر کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے۔اس پتھر دل ہجوم نے وائیں ساحب پر سنگ باری کی ا ور وہ ایوان ا قتدار سے چور چور باہر ہو گئے۔
وٹوصاحب کی جوڑ توڑ کی سائنس یا فنکاری کا یہ پہلا مظاہرہ تھا، آخری نہیں تھا، مزہ تو تب آیا جب الیکشن ہوئے اور ان کے پاس کل اٹھارہ سیٹیں تھیں مگر وہ پھر چیف منسٹر بن گئے اور انتہائی طاقتور چیف منسٹر۔
وٹو صاحب کا دعوی ہے کہ انہوں نے ایک منتخب ضلع چیئر مین کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کیا جبکہ نواز شریف کو جنرل جیلانی نے سیدھا وزیر خزانہ بنادیا، ا ور جنرل ضیا نے وزارت اعلی بخش دی ۔ ان کی موت کے بعدپھر فوج نے آئی جے آئی بنا کر انہیں وزیر اعظم بنا دیا مگر وہ دو مرتبہ وزیر اعلی بنے، ؂دونوں مرتب ا ن کے پیچھے فوج تھی، نہ اسٹیبلشمنٹ ، وہ تو اپنے زور بازو پر وزیر اعلی بنے ۔دوسرے حریف چودھری پرویز الہی کو جنرل مشرف نے وزیر اعلی بنایا۔
واللہ ! عزت دینے والی صرف اللہ کی ذات ہے۔
تعلیم کی باتیں آج بہت ہوتی ہیں۔ وٹو صاحب کہتے ہیں کہ بچوں کی لازمی تعلیم کا قانون میں نے منظور کیا۔صوبے میں طبقاتی تعلیم کے خاتمے کے لئے یہ تاریخی فیصلہ بھی کیا کہ سرکاری ا سکولوں میں بھی پہلی جماعت سے انگریزی پڑھائی جائے گی، اس کے لئے ہر پرائمری اسکول میں انگلش ٹیچر بھرتی کیا گیا،ا سکول زیادہ تھے ا ور صوبے میں گریجوایٹ کم پڑ گئے۔ مگر میں نے ایک بنیاد رکھ دی تھی۔
ہماری سیاست میں روٹی کپڑاا ور مکان کا نعرہ لگتا تھا، وٹو صاحب نے مکان کا وعدہ پورا کرنے کا یہ طریقہ نکالا کہ شاملات دیہہ میں جو قابض ہے، وہ اس کا مالک ہے،ا س کے بعد اس کی اولاد مالک بنے گی، اس سے لوگوں میں احساس پیدا کیا کہ وہ کمی کمین نہیں ہیں۔وہ برابر کے شہری ہیں۔زمیندار یا وڈیرے کے غلام نہیں ہیں ، بیگار کے پابند نہیں۔
احتساب کا شور آج ہی نہیں، تب بھی تھا جب منظور وٹو سیاست ا ور حکومت میں آئے تھے، ان کے خلاف بلیم گیم کی مہم چلی تو انہوں نے اخبارات میں ایک اشتھار دیا کہ سیاست میں آنے سے پہلے ا ور بعد میں ان کے اور ان کے پورے خاندان کے اثاثے کیا تھے، ساتھ ہی انہوں نے تجویز دی کہ نواز شریف اور شہباز شریف بھی اپنے اثاثے ظاہر کریں، اس اشتھار پر انہیں پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔جیل یاترا میں انہوں نے ایک کتاب لکھ ماری جس کا نام تھا ، جرم سیاست۔اب یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے سیاست کو جرم قرار دیا یا جرم کو سیاست کہہ ڈالا۔دیکھا جائے تو دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
مگر میں یہ بتانا بھول ہی گیا کہ اپنے مختصر دور حکومت میں انہوں نے فرقہ گردی ا ور کلاشنکوف کلچر پر کس طرح قابو پایا، تفصیل اس اجمال کی یوں ہے۔
میاں منظور وٹو کو ایک ایسا صوبہ ملاجس پر افغان جنگ کے اثرات حاوی تھے اور کلاشنکوف کلچرسکہ رائج الوقت بن چکا تھا۔معاشرے میں فیصلے اسلحے کے زور پر ہونے لگے اور قانون کو پس پشت دھکیل دیا گیا۔ وزیر اعلی کی حیثیت سے منظور وٹو نے سوچا کہ یہ تو حکومتی رٹ کے لئے چیلنج ہے۔
فرقہ واریت کے فتنے پر قابو پانے کے لئے انہوں نے ملی یک جہتی کونسل تشکیل دی۔ یہ ایسا معرکہ ہے جس کی پاکستان میں کوئی نظیر نہیں ملتی، میاں وٹو نے ہر فرقے کے سربراہ کو ایک میز پر اکٹھے کیاا ور واضح کیا کہ آج کے بعد اسلحے کی نمائش جرم تصور ہو گی۔اور جو پکڑا جائے گا ، اسے رہائی تب ملے گی جب اس کے فرقے کا سربراہ ا س کی نیک چلنی کی ضمانت بنفس نفیس دے گا۔ اب لوگ دھڑا دھڑ اندر ہونے لگے اورایک طرف سے مولانانورانی اور دوسری طرف سے لیاقت بلوچ یا کوئی اوربھاگم بھاگ وزیرا علی ہاؤس کا رخ کرنے لگے کہ جناب غلطی ہو گئی، آئندہ کے لئے معافی۔۔ وٹو صاحب نے لگے ہاتھوں لاؤداسپیکر کے بے جا ستعمال پر بھی پابندی عائد کر دی، مسجد میں یہ مشین صرف اذان اور خطبہ جمعہ کے لئے استعمال ہو سکتی تھی۔یہی کام اب موجودہ حکومت نے کیا ہے مگر فوج کی طاقت کے ساتھ، میاں وٹو نے صرف اخلاق سے کام لیا۔
اسلحے کی نمائش پر پابندی کے حکم کو ہوا میں اڑانے کا تجربہ اعجاز الحق نے کیا، انہوں نے پنڈی کے ایک جلسے میں کلاشنکوف لہرائی ا ور کہا کہ جس کسی میں طاقت ہے اسے پکڑ کر دکھائے، وزیرا علی وٹو کو اطلاع ملی تو فوری گرفتاری کا حکم د دیا، یہ آسان فیصلہ نہ تھا،ا س ملک میں سابق جرنیلوں یا ان کے بچوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جرم سمجھی جاتی ہے مگر وٹو صاحب یہ پل صراط بھی پا ر کر گئے ،ہر چہ بادا باد۔ رات کو ابھی گہری نیند سوئے بھی نہ تھے، ویسے ایک سابق آرمی چیف کے بیٹے کو اندر کر کے گہری نیند آ بھی کیسے سکتی تھی ۔بیگم شفیقہ ضیاالحق کا فون آیا کہ وٹو صاحب، اعجا زتو آپ کے بھائیوں جیساہے، وٹو صاحب نے کہا، ہاں ماں جی، وہ میرا بھائی ہے۔ ممتا نے سوال کیا کہ پھرا سے اندر کیوں کر دیا، کہنے لگے ،اس نے جرم کیا،قانون توڑا۔ ممتا نے پھر کہا کہ کوئی رہائی کا رستہ نکالیں، وٹوصاحب نے ممتا کے دکھ کو محسوس کیا اور کہا کہ رستہ ہے، اعجاز الحق صبح پریس کے سامنے بیان دے دے کہ میرے ہاتھ میں تو کھلونا بندو ق تھی، ناحق پرچہ درج کر لیا گیا۔
پنجاب میں یا تو پانچ دریا بہتے ہیں یا پھر میاں منظور وٹو اس صوبے میں پانچ مرتبہ وزیر اعلی بنے، یہ ریکارڈ کی بات ہے۔یقین نہ آئے توان کی کتاب جرم سیاست ایک بار پھر پڑھ لیجئے۔