خبرنامہ

منور حسن کا غصہ اور جنرل کیانی کا غصہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

منور حسن کا غصہ اور جنرل کیانی کا غصہ

مصر اور شام کے مسلمانوں کی صورت حال کا ذکر ہوگا تو لازمی طور پر ہر مسلمان غصے سے بھڑک اٹھے گا کہ عراق، افغانستان، لیبیا کے بعد اب ان دوملکوں میں مسلمانوں کا خون کیوں بہہ رہا ہے۔ قبلہ منور حسن کے لیئے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے راہنماؤں کو پھانسی کی سزائیں بھی غصہ دلانے کے لیے کافی ہیں مگر ستم بالائے ستم یہ کہ پنجاب یونیورسٹی کے قائد اعظم ہوٹل سے چند دہشت گرد پکڑے گئے، میڈیا کے مطابق وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مہمان تھے۔ اس پر منور حسن کا سیخ پا ہونا ایک فطری بات ہے۔ اور انہوں نے غصے غصے میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کو لتاڑا۔ وائس چانسلرتو اپنے دفاع میں بولے ہیں اور یونیورسٹی کے اساتذہ نے منورحسن کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے مگر بری فوج کے سربراہ نے منورحسن کے ان الزامات کا جواب نہیں دیا کہ انہیں دیر کے موجودہ حادثے پر غصہ آیا مگر سلالہ میں ان کے چھبیس جوانوں اور افسروں کو ذبح کر دیا گیا، ڈرون حملوں میں بے گناہ شہید ہوتے رہے لیکن کیانی صاحب اس قدر غصے میں نہیں آئے۔
شام اور مصر کی صورت حال کا ماتم کرتے ہوئے منورحسن نے دیر سانحے اور سلالہ کا ذکر کیسے چھیڑ دیا، ان کا آپس میں کیا ربط بنتا ہے۔ مصر میں جماعت اسلامی کی حلیف اخوان المسلمین کی حکومت کا تختہ وہاں کی فوج نے الٹ دیا جسے مبینہ طور پر امریکہ کی شہ حاصل تھی، جبکہ شام میں امریکہ، صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والوں کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے، انہیں اسلحہ اور ڈالر فراہم کر رہا ہے اور ان کے لیے آخری چارہ کار کے طور پر شام کے خلاف جارحانہ حملہ کی تیاری بھی کررہا ہے۔
منور حسن یہ تو بتائیں کہ وہ مصر میں امریکہ کے مخالفوں کے ساتھ ہیں، شام میں امریکہ کے حامیوں کے ساتھ ہیں، وہ اصل میں کس کے ساتھ ہیں۔ یا سب کے ساتھ ہیں تو کیسے!
مجھے یہ بھی پتانہیں کہ منورحسن کے پاس غصہ ماپنے کا پیمانہ کیا ہے۔ سلالہ کے بعد تو کیانی اور صرف کیانی ہی تھے جنہوں نے نیٹو سپلائی کو نومبر 2011 سے جولائی 2012 تک بند رکھا اور امریکی جرنیلوں سے ملاقا تیں ترک کر دیں۔ غصہ اور کسے کہتے ہیں۔ عالمی امور کے ماہرین حیران تھے کہ پاکستان کو یکا یک کیا ہو گیا کہ پاک امریکہ تعلقات تاریخ کے بدترین دور میں داخل ہو گئے، اس سے زیادہ دوری اور خلیج دونوں ملکوں کے درمیان پہلے دیکھنے میں نہیں آئی۔ امریکہ نے اس پر باضابط معافی مانگی۔
جماعت اسلامی کو جنرل یحییٰ خاں کا ساتھ دینے میں قباحت محسوس نہیں ہوئی۔ میاں طفیل محمد نے تو ایک روز یہ بیان بھی داغ دیا کہ یحییٰ خان کا بنایا ہوا آئین وہ دیکھ آئے ہیں، یہ عین اسلامی ہے۔ صد حیف! اس آئین کو دن کی روشنی نصیب نہ ہوسکی۔ جنرل ضیاالحق نے افغان جہاد میں جماعت اسلامی کو پورا پورا حصہ دیا اور کشمیر جہاد کے لیئے بھی ہر سہولت فراہم کی جبکہ کیانی نے افغان جہاد میں صرف اور صرف فوج کو استعمال کیا اورکشمیر میں جہاد ایم ایم اے کی حکومت کے دور میں جنرل مشرف نے ختم کیا جس پر منور حسن نے کبھی غصے کا اظہار نہیں کیا۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم حزب المجاہدین کا بستر بور یا کیوں گول ہوا، اس تنظیم کے نوجوان کشمیر کے جہاد میں شریک ہوتے رہے اور قاضی حسین احمد ان کے جنازے پڑھاتے رہے۔ جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کے جوان بیٹے بھی کشمیر جہاد میں شریک ہو کر شہادت سے سرفراز ہوئے۔ خدا ان کے مرتبے بلند کرے، ان کے والدین نے جس استقامت اور صبر کا مظاہرہ کیا، وہ قابل رشک اور قابل تعریف تھا۔ آج کشمیر کا جہاد بظاہر بند ہے، دنیا ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی مگر بھارت پھر بھی الزام لگارہا ہے کہ پاکستان کے در انداز کنٹرول لائن پار کر رہے ہیں اور ایسے ہی مواقع پر دوطرفہ فائرنگ کی نوبت آتی ہے۔ منور حسن حزب المجاہدین کومنظم کریں اور کشمیر پر چڑھ دوڑیں، دیکھتے ہیں، انہیں کون روکتا ہے۔
موجودہ افغان جہاد کی ہیت ترکیبی کو سمجھنا مشکل ہے۔ ایک جہادتو افغانستان کے اندر ہورہا ہے جو جارح اور قابض افواج کے خلاف ہے، دوسرا جہاد پاکستان کے طول وعرض میں ہورہا ہے جس کا نشانہ پاک فوج ہے اور پاکستان کے عام شہری مسجد یں، مزار، مارکیٹیں، سرکاری دفاتر، جنازے، امن جرگے، غرضیکہ جہاں بم پھٹ سکتا ہے، وہاں بٹن دبا دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ڈرون حملوں کا ردعمل ہے لیکن کسی دل جلے نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ڈرون طیارے بری امام، داتا دربار، رحمان بابا کے مزار یا جامع نعیمیہ سے اڑتے ہیں۔
یہ صورت حال انتہائی پیچیدہ ہے، زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور بھارت کی طرف سے دہشت گردی کی سر پرستی ہورہی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھے عناصر ایسے بھی ہوں جو پاکستان کو امریکی حلیف ہونے کی سزا دے رہے ہوں لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ ریاست کے خلاف لڑتورہے ہیں اور ان سے ہماری فوج کو بھی لڑنا پڑتا ہے۔ کچھ عناصر وہ بھی ہیں جو پاکستان کے آئین کو اس کی پارلیمنٹ کو اور اس کی سپریم کورٹ کو نہیں مانتے۔
دیر میں موجودہ سانحے اے پی سی کے بعد رونما ہوا، اے پی سی میں فیصلہ ہوا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے گا، فوج نے اس عمل کی حمایت کی۔ اور یہ فیصلہ اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ اے پی سی میں شامل کسی فریق نے مذاکرات سے انکارنہیں کیا جبکہ ماضی قریب میں طالبان نے مذاکرات سے صرف اس لیئے انکار کر دیا تھا کہ ڈرون حملے میں ان کا ایک لیڈر نشانہ بنا۔ یہ ڈرون حملہ پاکستان نے نہیں کیا تھالیکن کہا گیا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ مذاکرات ہوں، اب پاک فوج کی قیادت کو دیر میں کس نے نشانہ بنایا ہے اور کون چاہتا ہے کہ مذاکرات کے ماحول کو خراب کیا جائے، کیا یہ سانحہ بھی امریکہ کی شرارت ہے، اگر ایسا ہے تو پھر تحریک طالبان نے اس حملے کی ذمے داری کیوں قبول کی ہے اور اگر انہوں نے ہی یہ حملہ کیا ہے جس میں ہمارے ایک جرنیل، ایک کرنل اور ان کے ساتھی شہید ہوئے تو پھر مذاکرات کے راستے میں کون رکاوٹ بنا ہے۔ اگر اس سانحہ پر جنرل کیانی کو غصہ آیا ہے اور میرا خیال ہے کہ غصے کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی رنجیدہ بھی ہوئے ہوں گے لیکن ان کے بیان میں تو پھر بھی صبر کا پہلو غالب ہے اور میں نے لکھا تھا کہ یہ صبرا ور حوصلہ جنرل کیانی کی محکمانہ مجبوری ہو سکتا ہے، پاکستانی قوم کی مجبوری نہیں اور وہ شہیدوں کے تابوت وصول ہونے پر سخت سیخ پا ہے ٹھیک ہے منور حسن نہیں ہوں گے مگر میں جس جس سے ملا ہوں، اسے غصے اور رنج کی حالت میں دیکھا ہے۔
منورحسن اپنے قد کاٹھ کو ماپیں پھرکسی کے غصے کوما پیں۔ پھر وہ خودبھی غصے کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ غصہ تھوک ڈالیئے صاحب! (21 ستمبر 2013ء)