خبرنامہ

منی بجٹ بنانا نئی حکومت کا حق تھا….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

منی بجٹ بنانا نئی حکومت کا حق تھا….اسد اللہ غالب

منی بجٹ آ گیا ہے اور اس پر تبصرے اس انداز سے ہو رہے ہیں جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ پچھلی حکومت نے پورے سال کابجٹ بنانے کی ضد کی۔ اس کا کوئی استحقاق نہ تھا کہ وہ تین ماہ سے زیادہ کے عرصے کا بجٹ بناتی، کیونکہ اسے بھی اچھی طرح علم تھا کہ اب اس کو تو اقتدار نصیب نہیں ہو سکے گا۔ اس لحاظ سے پچھلی حکومت نے گڈی گڈی بجٹ بنایا اورآنے والی حکومت کی راہ میں کانٹے بکھیر دیئے۔ کیونکہ ایک تو نیا مالی سال شروع ہو چکا تھا، دوسرے نئی حکومت کی اپنی ترجیحات بھی تھیں۔ اپنا ایک منشور بھی تھا۔ اس لئے اسے نئے سرے سے بجٹ بنانا ایک مجبوری تھی۔ یہ بجٹ آ گیا ہے مگر اسے منی بجٹ کا نام دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں نئی حکومت کو اس نوع کے ایک دو مزید منی بجٹ پیش کرنے پڑیں گے تب وہ سال بھر کے قومی اخراجات کے لئے فنڈ اکٹھے کر سکے گی۔ جس بجٹ میں پانی جیسے اہم ترین مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی رقم نہ ہو اور اس کے لئے چندہ مانگنا پڑے۔ وہاں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کے ہاتھ کتنے تنگ ہیں اور روز مرہ کے اخراجات سے نبٹا ہی اسکے لئے کس قدر مشکل ہے۔

یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پچھلی حکومت نے بلا سوچے سمجھے قرضے لئے۔ اس قدر قرضے لئے کہ اتنے قرضے ماضی کی ساری حکومتوںنے مل کر بھی نہیں لئے، قرضوں کا یہ بوجھ بھی نئی حکومت کو منتقل ہو گیا۔ اب یہ کہنا تو لولی پاپ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی فی الفور تو لازمی نہیں مگر قرضوں کی قسطیں اور ان پر مارک اپ تو ادا کرنا لازمی ہے اور اگر کہیں سے کوئی غیبی امداد نہ آئی تو آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکج لینا ناگزیر ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی نے کہا تو یہی تھا کہ وہ کشکول نہیں پھیلائے گی مگر پچھلی حکومت کے ورثے سے اسے کشکول ہی تو ملا ہے۔ خزانہ تو خالی ہے اور وزیر خزانہ اسد عمر درست کہتے ہیں کہ معیشت آئی سی یو میں ہے۔

منی بجٹ میں ہر بجٹ کی طرح نئے ٹیکسوں کا نفاذ ناگزیر تھا، اسی لئے کوئی پونے دو سو ارب کے نئے ٹیکس لگائے ہیں اور ٹیکسوں کی اس سکیم پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کم آمدنی والے طبقے پر بہت کم بوجھ ڈالا گیا ہے، مگر جو طبقہ دولت سے مالا مال ہے۔ اس پر ٹیکس بڑھائے گئے ہیں۔ بڑی گاڑیاں عام آدمی کی ضرورت نہیں اور نہ مہنگے فون بھی ریڑھی والے کی ضرورت ہیں۔ اسی طرح درآمدی مشروبات، کاسمیٹکس وغیرہ کی مہنگائی سے غریب طبقہ متاثر نہیں ہوتا۔ گیس کے نرخوں میں اتنا ہی اضافہ کیا گیا ہے جس قدر ایک عام گھرانہ اسے برداشت کر سکتا ہے اور اگر پٹرول کسی وقت مہنگا ہوتا ہے تو اس کا تعلق ڈالر اور روپے کی قدر سے ہے۔ پٹرول درآمد ہوتا ہے اور ڈالر مہنگا ہو گیا تو تیل بھی مہنگا پڑے گا جس کا بوجھ صارفین کو ہی برداشت کرنا ہو گا مگر کھاد جیسی زرعی طبقے کی اشد ضرورت پر حکومت نے سب سڈی برداشت کرنے کا عندیہ دیا ہے جس کی ستائش کی جانی چاہئے۔ اچھی پیداوار کے لئے کھاد ایک ضرورت ہے اور اس کے مہنگا یا سستا ہونے سے اشیائے خوراک کی قیمتوں پر اچھا برا اثر پڑتا ہے۔ انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں کوشش کی جاتی ہے کہ اشیائے خوراک کی قیمتوںمیں اضافہ نہ ہو۔ سگریٹوں کی مہنگائی کو صرف نشئی پسند نہیں کریں گے ورنہ ہر شخص کی رائے ہے کہ سگریٹ کی قیمت غریب ترین آمدنی کی استطاعت میں نہ رہنے دی جائے تاکہ ملک میں سگریٹ نوشی سے جو مہلک امراض پیداہوتے ہیں اور ان سے اموات کی شرح جس قدر بڑھ رہی ہے۔ اس کی روک تھام کی جا سکے۔ سگریٹ سے گلے اور پھیپھڑوںکا کینسر تو ضرور لاحق ہو جاتا ہے۔ اب کینسر کا علاج بھی کسی سرکاری ہسپتال میں موجود نہیں صرف شوکت خانم کے دو ہسپتال ہیں جن کے اخراجات برداشت سے باہر ہیں، یہ اخراجات پوری دنیا میں برداشت سے باہر ہیں مگر وہاں سرکاری ہسپتالوں میں ان کے علاج کی سہولتیں توکم از کم ضرور موجود ہیں۔ سگریٹ کے اشتہاروں کے ساتھ مریل اور نحیف سی آواز میں وارننگ سے بات نہیں بنے گی، ایسے اشتہارات یا توبند کر دیئے جائیں یا ان پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے تاکہ ہر کوئی یہ اشتہار دینے کے قابل نہ رہے۔

وزیر خزانہ نے کچھ باتیں انتہائی چونکا دینے والی کی ہیں۔ مثال کے طور پر زر مبادلہ ذخائر دو ماہ کی درآمدات کے بل کے لئے بھی کافی نہیں۔

خود وزیر اعظم اپنی ہر تقریر میں ملکی قرضوں کے حجم پر بات کرتے رہتے ہیں جس سے اندزاہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں۔ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن، اس فاقہ مستی کی مستی کو اب پاکستانی قوم خوب بھگت رہی ہے ۔ اس قدر بھگت رہی ہے کہ ہماری خواتین بے چاری اپنا میک اپ بھی مہنگا کرانے پر مجبور ہو جائیں گی۔مگر وہ برا بھلا کہیں ان حکومتوں کو جو قرض کی مے نوش فرماتی رہیں اور ملک وقوم کا براحال کر دیا۔ چادر سے بڑھ کر پاﺅں پھیلانے کا انجام یہی ہوتا ہے۔ رویئے زار زارکیوں کیجئے ہائے ہائے کیوں، یہ سب اپنا کیا دھرا ہے۔ ہم نے پچھلی حکومتوں کا ہاتھ نہیں پکڑا اور انہیں کھلی چھٹی دیئے رکھی۔ میٹرو بسیں اور اورنج لائنیں کب ہماری مفلس قوم کو زیب دیتی تھیں مگر ان کھلونوں سے ہمارا جی بہلانے کی کوشش کی گئی۔ یہ میگا پروجیکٹ تھے۔ ان سے جو کمیشن ملا، اس کا بھی تو حساب کیا جائے اور جس نے جو ڈکارا ہے اس کے پیٹ سے نکلوایا جائے۔

موجودہ حکومت کو یہ مالی سال تو اسی طرح کے منی بجٹ لا کر ایڈہاک طریقے سے ہی گزارنا پڑے گا تاہم اگلے سال کے بجٹ کے لئے وزیر خزانہ کو ابھی سے ایک الگ ٹیم بٹھا دینی چاہئے جو معیشت کی ایک جہت متعین کرے اور زندگی کے ہر شعبے کے ماہرین کی مشاورت سے بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو منی بجٹ نے کسی پر بجلی نہیں گرائی، نہ قیامت ڈھائی ہے۔ یہ ایک معمول کا منی بجٹ ہے جسے نئی حکومت کو بنانے کا حق حاصل تھا۔

ملک کو معاشی طور پر آگے بڑھانے کے لئے ہمیں چین اور سعودیہ کے فراخدالانہ کردار کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سعودیہ گئے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ چین میں ہیں۔ ان کے دوروں کے نتائج انشاءاللہ مفید ثابت ہوں گے۔