خبرنامہ

مولانا سراج الحق کی شکست کا نوحہ….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مولانا سراج الحق کی شکست کا نوحہ….اسد اللہ غالب

میرے لئے یہ خبر سوہان روح کے مترادف تھی، یوں لگا کہ جیسے آسمانوں کی ساری بجلیاں یکا یک میرے اوپر گر پڑی ہوں ، جیسے زمین کا سینہ شق ہو گیا ہو ، جیسے آسمان گر پڑا ہو، جیسے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے ہوں، جیسے کوئی نئی کربلا درپیش ہو، جیسے کسی ہلاکو نے بغداد کے کتب خانے دریائے دجلہ میں پھینک دیئے ہوں اور دجلہ کا پانی میری قسمت کی سیاہی بن گیا ہو۔ جیسے بی جے پی نے بابری مسجد کو زمیں بوس کر دیا ہو، میرے سارے خواب چکنا چور ہو گئے، میں سوچتا تھا کہ سراج ا لحق ناقابل شکست ہیں ، میں سوچتاتھا کہ وہ اکیلے پارلیمنٹ کے گدلے پانی کو کیا صاف کر سکیں گے مگر پھر سوچتا تھا کہ اگر ایک گندی مچھلی سارے جل کو بدبودار کر سکتی ہے تو ایک نیک روح ساری پارلیمنٹ کو مصفا کیوں نہیں کر سکتی۔ میری ان سے پولنگ سے تین روز قبل ٹیلی فون پر طویل گفتگو ہو ئی تھی ، مجھے ان کی نبض ڈوبتی محسوس ہوئی تھی، میںنے جب ان سے پوچھا تھا کہ کیا الیکشن میں غیر ملکی مداخلت کا کوئی امکان دیکھ رہے ہیں تو ان کا جھٹ سے جواب تھا کہ ملکی مداخلت سے نجات ملے تو باہر کی مداخلت پر دھیان دیں۔یہ الفاظ اس امر کی غمازی کر رہے تھے کہ ان پر شکست مسلط کی جا چکی ہے اور پولنگ محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہو گا۔ میں کچھ باتیں مولانا فضل الرحمن سے بھی کرنا چاہتا تھا ، وہ جہاندیدہ اور سردو گرم چشیدہ سیاستدان ہیں مگر شومی قسمت سے میرے فون میں ان کا نمبر محفوظ نہیں تھا، موبائل فون بھی جانتاہے کہ کس کا نمبر محفوظ رکھنا ہے اور کس کا حرف غلط کی طرح مٹا دینا ہے۔ الیکشن کے کمپیوٹروں کے لیئے ایک نظام بنایا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سست روی کا شکار ہو گیا، کمپیوٹر میںوائرس آ جائے توو ہ سست پڑ جاتا ہے اور لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے کمپیوٹروں میں جو سافٹ ویئر ڈالا گیا ہے، وہ وائرس زدہ تھا، اور اس وائرس کو یہ اچھی طرح پتہ تھا کہ کسے ہرانا ہے اور کسے جتوانا ہے۔یہ جو چند نام جیت گئے ہیں۔شہباز شریف، حمزہ شہباز، ایاز صادق، خواجہ آصف ، عثمان ابراہیم اور بلاول بھٹو ۔یہ کمپیوٹر میں کوئی بڑا فالٹ آجانے کی وجہ سے جیتے ، ورنہ ان کی قسمت میں شکست لکھ دی گئی تھی جیسے محمد اور احمد والے نام امریکی ایئر پورٹوں سے نہیں گزر سکتے، کمپیوٹر خود بخود انہیں ہتھکڑیاں ڈال دیتا ہے، ان کو آدم زاد برہنہ کر دیتا ہے اور ان کی تھری ڈی تصویریں بناتا ہے ا ور انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتا ہے تاکہ جگ ہنسائی کا سامان پورا ہو سکے۔ہمارے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا۔الیکشن سافٹ ویئر پچھلی مرتبہ تو یورپی یونین نے بیچا تھا، اب کہاں سے نازل ہوا، ا سکی تحقیقات کرنے کی ضرورت نہیں مگر یہ یقینی بات ہے کہ اسے پنجاب آئی ٹی بورڈ نے تیار نہیں کیا، ڈاکٹر عمر سیف ایساگناہ نہیں کر سکتے ۔ یہ وائرس اس قدر زہریلا اور متعصب تھا کہ ا س نے داڑھی والوں اور اللہ اورا سکے رسول ﷺ , کے نام لیوائوں کو چن چن کر شکست دی، مولانا فضل الرحمن، مولا نا سراج الحق، لیاقت بلوچ اور امیر العظیم جیسے سینکڑوں مردان با صفا کا صفایا کر دیا گیا۔ اس کارنامے پر تو سافٹ ویئر بنانے والے کو انعام ملنا چاہیئے کہ ا س کے نشانے ٹھیک ٹھیک بیٹھے،۔ پینسٹھ کی جنگ میں ریڈیو پاکستان سے شکیل احمد کی خبروںکا انتظار رہتا تھا جو جوشیلی ا ٓواز میں بتاتا کہ ہمارے بہادر ہوا بازوںنے نیچی نیچی پرواز کرتے ہوئے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے، اس بار شکیل احمد کی جگہ ٹی وی اینکروںنے لے لی اور انہوں نے لہک لہک کر بتایا کہ فلاں کی وکٹ اڑ گئی، فلاںبرج الٹ گیا۔ فلاں کو چت کر دیا گیا، فلاں کوعوام نے پانچ برس کے لئے پارلیمنٹ سے نکال باہر کیا۔میں سوچتا ہی رہا کہ ٹی وی ا ینکروں کی آواز میں یہ غیر معمولی گھن گرج کیوں تھی، میں یہ بھی سوچتا رہا کہ ساری سیاسی جماعتیں اور ان کے امیدوار انفرادی طور پر شکوہ کر رہے تھے کہ ا نہیں نتیجے کی کاپی نہیں دی جا رہی اور اب تک اڑتالیس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی الیکشن کمیشن ایک نتیجہ بھی نشر نہیں کر سکا تو یہ جو ٹی وی اینکر سانس روکے بغیر دھڑا دھڑ نتایج کا اعلان کر رہے تھے، تو ان پر کہاں سے وحی نازل ہو رہی تھی۔
اسلام کے نام لیوائو ں پر اقوام عالم نے دھرتی تنگ کر دی ہے، جدید تاریخ میں مصر کے فوجی حکمران جما ل عبدالناصر نے اس قیامت کاآغاز کیا۔ اخوان المسلموں کے جید علما کو پھانسیاں دی گئیں، پاکستان میںمولانا موودوی کے لئے پھندہ تیار کیا گیا، بنگلہ دیش میں اسلام ا ور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ ہمارے سوشل سسٹم میں مولوی کی عزت تو ہے مگر کوئی اسے وو ٹ نہیں دیتا، ڈاکٹر طاہر القادری عالمی سطح کے جید اور مسلمہ اسکالر ہیں مگر دو ہزار دو کے الیکشن میں صرف اکیلے جیت سکے اور پھرپارلیمنٹ میں جاگیرداروں، وڈیروں، نوسر بازوں، قرض خوروں اور کرپٹ طبقے نے انہیں اس قدر ہراساں کیا کہ وہ مایو س ہو کر ملک ہی چھوڑ گئے۔ اسی الیکشن میں ایم ایم اے کو اسوقت کے صوبہ سرحد میں کامیابی ملی اور پانچ سال یوں گزارے کہ کہیں کوئی دہشت گردی تو کیا ،کسی پر پتھر تک نہ پھینکا گیا۔اس حکومت کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں تھا، مگر اب ایم ایم اے کمپیوٹر سافٹ ویئر میں جیسے۔ پرسونانان گراٹا۔ قرار دے دی گئی ہو۔ جب ماڈریٹ علما پر قدغنیں عائد ہوں تو پھر ایک خلا واقع ہوتا ہے اور اس میں فیض آباد دھرنے جیساسونامی گھس جاتا ہے۔ کراچی میں اسی طبقے نے لیاری جیسے علاقے میں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول کو ا سکی ہوم گرائونڈ لیاری میں ہرا دیا۔اور دوسری طرف عالم یہ ہے کہ دیر جیسی محفوظ تریں نشست سے کمپیوٹر نے سراج الحق کوہروا دیا، کمپیوٹر نے جن کو جتوانا تھااور ناقابل تسخیر کاامیج عطا کرنا تھا انہیں پانچ پانچ سیٹوںسے جتوا دیا۔ مشین توبہر حال ایک مشین ہے،ا سکے سینے میں کوئی دل نہیں دھڑکتا۔ اس کی جو پروگرامنگ کر دی جائے، اس کے مطابق اسے کام کرنا ہے۔
سراج الحق کی شکست پر قوم کو خون کے ا ٓنسو رونے کی ضرورت ہے،۔ لیاقت بلوچ اور امیر العظیم جیسے دیانت داروں کی شکست پر خون کے آنسو رونے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ میں کون پہنچے ، جو مسلمہ لوٹے تھے، اور اب وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے قربانی کے جانوروں کی طرح بولی لگوائیں گے۔ یہ کام سراج الحق ، لیاقت بلوچ اور امیرا لعظیم تو نہیں کر سکتے تھے، سراج الحق کو اکثریت مل جاتی تو انہیں یہ کہنے کی ضروت نہ تھی کہ وہ پر شکوہ وزیرا عظم ہائوس اور ایکڑوں پر محیط گورنر ہائوسوں کو ٹھکانہ بنائیں گے، یہ مرددرویش مسجد کی چٹائی پر رات بسر کرسکتا ہے،ہو ہاتھ کا سرہانہ، سبزے کاہو بچھونا، وہ اس ماحول میں گزر بسر کر لیتا ہے، وہ جیت جاتا تو اسے بڑے بڑے وعدے نہ کرنے پڑتے بلکہ وہ بڑے بڑے کام شروع کر دیتا اور عوام کو شانت کر دیتا۔
میںنے امیر العظیم کی ایک انتخابی تقریر فیس بک پر سنی ہے جس میں انہوںنے مولویوں پر کئی ایک اعتراضات کا شافی جواب دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان بنا تو سوال اٹھا کہ یہاں کس کااسلام نافذکیا جائے گا، شیعہ کا ، سنی کا،دیوبندی کا، وہابی کا ۔ اس موقع پر پورے پاکستان کے ہر مکتبہ فکر کے جید علما اکٹھے ہوئے ا ور ایک قراداد مقاصد منظور کی جو آج بھی دستور کا حصہ ہے مگرا س پر عمل نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں ایک ا یسا خطرہ نمودار ہوا کہ شیعہ سنی ایک دوسرے کا خون بہائیں گے۔ ا س موقع پر بھی ہر مکتبہ فکر کے علما نے متحد ہو کر ملی یک جہتی کونسل تشکیل دی اور فرقہ ورانہ قتل و غارت کا خطرہ ٹال دیا، مشرقی پاکستان میں قومی بقا کی جنگ پیش آئی تو بھی جماعت اسلامی کے نوجوانوں اور بوڑھوںنے قربانیاں پیش کیں اور ایک سال تک بھارت کی یلغار کو روکے رکھا۔ کشمیر میں بھارتی فوج کے جبر کی صورت میں پاکستان کے اسلامی عناصر ہی کشمیری بھائیوں کی عملی مدد کیلئے آگے بڑھے ا ور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا ، جب تک جنرل مشرف نے اس جدوجہد کو دہشت گردی قرار نہیں دے ڈالا۔ امیر العظیم کا کہنا تھا کہ مولوی تھری پیس سوٹ نہیں پہنتا، روز ٹائیاں نہیں بدلتا۔اس لئے عوام سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کو کیسے چلا سکتے ہیں اور ستر برس تک تھری پیس سوٹڈ بوٹد طبقے نے پاکستان کی وہ لوٹ مار کی ہے کہ خدا کی پناہ۔ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے، روپے کی قدر رل گئی ہے، نوجوان کروڑوں کی تعداد میں بے روزگار ہیں۔ا ور یہ ر عایا بھوک ، بیماری ا ور جہالت کا شکار ہے۔ یہ ہے سوٹڈ بوٹد ہر روز رنگ برنگی ٹائیاں بدلنے والے حکمرانوں کا کردار۔
پاکستان کی بدقسمتی پر روناا ٓتا ہے۔سراج الحق کی شکست پر رونا آتا ہے، یہ پاکستان کے لیئے نئی کربلا کا منظر ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک فائٹر ہیں ا، نہوں نے نئی کربلا میں اترنے کا اعلان کر دیا ہے۔