خبرنامہ

مولانا سراج الحق کی پانامہ رٹ پیٹیشن…..اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

مولانا سراج الحق کی پانامہ رٹ پیٹیشن…..اسداللہ غالب
ملک میں اس وقت دو بڑے مسئلے ہیں اور دونوں کھٹائی کا شکار، ایک اسلام آباد کا دھرنا ، دوسری حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم۔ اس لئے میں آج پھر جناب سراج الحق ہی پر قلم اٹھا رہا ہوں، یہ ان پر چوتھا مسلسل کالم ہے، سراج الحق کو ایک دو گھنٹے میرے ساتھ گزارنے کے سودے میں کوئی گھاٹا نہیں پڑا۔

ادھر پانامہ پیپرز میں کرپٹ افراد کی لسٹ آئی، ادھر جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے اس فہرست میں شامل چار سو چھتیس پاکستانیوں کے ٹرائل کے لئے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی ۔ مگر آ بیل مجھے مار کے مصداق وزیر اعظم نوازشریف نے تین تقریریں فرما دیں جن میںحقائق کے تضاد کی بات زبان زد عام ہو گئی، وزیر اعظم نے یہ تقریریں کیوں کیں، انہیں اس کے لئے کس نے مشورہ دیا، جس نے بھی دیا اس نے وزیر اعظم سے دشمنی کی، ان تقریروں کی قطعی ضرورت نہ تھی، قانونی معاملات عوامی خطابات کے ذریعے حل نہیں ہوسکتے، چنانچہ عمران خان، شیخ رشید اورجماعت اسلامی نے ایک درخواست نئی دائر کر دی کہ سب سے پہلے وزیر اعظم کا معاملہ کھنگالا جائے۔
ان درخواستوں کے نتیجے میں فیصلہ آ گیااور نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا۔جماعت اسلامی نے ساتھ ہی ایک نئی متفرق درخواست دے دی کہ اس کی زیر التوا پٹیشن کو بھی ترجیحی طور پر سنا جائے۔ مطلب یہ تھا کہ پانامہ پیپرز میں سے صرف ایک پاکستانی کے بارے میں فیصلہ تو آ گیا مگرباقی چار سو پینتیس افراد کے خلاف الزامات کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ان میں آف شور کمپنیوں والے بھی تھے، ٹیکس چور بھی تھے۔ قرضے خور بھی اور دیگر کئی اقسام کی رشوت ستانی میں ملوث افراد بھی، جماعت اسلامی کا خیال تھا کہ ان کے جرائم بھی اتنے ہی سنگین ہیں جس قدر شریف خاندان کے جرائم ، مجھے سراج الحق نے فون پر بتایاا ور پھر اس امر کی خبریں بھی شائع ہو گئیں کہ ان کی نئی درخواست سماعت کے لئے قبول ہو گئی ہے۔
تو لیجئے صاحب ! اب ملک میں احتساب کا جمعہ بازار لگے گاا ور نیب اور دوسرے متعلقہ اداروں کو متحرک اور سرگرم ہونا پڑے گا اور یہ کام چل پڑا تو ملک میں اور کوئی کام نہیں ہو گا، نہ کوئی اور سودا بکے گا، احتساب کی ہی ایک دکان چلے گی اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان ساڑھے چار سو افراد کے خلاف تحقیقات اور پھر فیصلوں کے لئے ایک دو صدیاں تو در کار ہوں گی الا یہ کہ سمری ٹرائل کیا جائے اور دھڑا دھڑ فیصلے سنائے جائیں، پھر بھی ایک دو عشرے تو ان الزامات کی تفتیش پر لگ ہی جائیں گے۔
مجھے کوئی غرض نہیں کہ فیصلوں میں وقت کتنا لگتا ہے ، بس میری خواہش یہ ہے کہ یہ چار پانچ سو افراد باقی ماندہ زندگی پیشیاں بھگتنے میں گزار دیں۔ انہیںمزید لوٹ کھسوٹ کی تو کم ازکم فرصت نہیں ملے گی۔
پاکستان میں کرپشن کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس ملک کی تاریخ، آزادی کے فوری بعد کلیموں اور الاٹ منٹوں کی کرپشن کی لوٹ سیل دیکھنے میں آئی۔ جس کا جہاں زور چلا، جیب گرم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔یہ سلسلہ کسی وقفے کے بغیر آج تک جاری ہے۔
پانامہ پیپرز نے پاکستان میں کرپشن کی صرف ایک جھلک دکھائی ہے، اب کوئی پیرا ڈائز پیپرز آ گئے ہیں، کیا ان میں بھی پاکستانیوں کے نام ہیں، اگر ہیں تو جناب سراج الحق اسے بھی ایک ترمیمی درخواست کے ذریعے عدالت میں لے جاسکتے ہیں۔
کرپشن کے خلاف شورو غوغا توبہت مچایا جاتا ہے مگر عملی طور پر احتساب کی کارروائی نہ ہونے کے برابر، اب تک جو حکومت بھی برطرف کی گئی ، اس پر کرپشن ہی کے الزام لگے۔ یہ حکومتیں بے نظیر، نواز شریف اور زرداری کی تھیں۔ زرداری کو تو گیارہ برس تک احتساب کی چکی میں پیسا گیا مگر تفتیش کار ایک دھیلہ بھی اس سے واپس نہ لے سکے ، مشرف نے نواز شریف کے خلاف ہر نوع کے مقدنے درج کئے، سزائیں بھی سنائیں، جائیدادیں بھی ضبط کیں مگر پھر ایک این آر او کر لیا گیا۔ خود مشرف کے خلاف قتل اور کرپشن کے سینکڑوںالزامات ہیں مگر وہ احتساب سے صاف بچ نکلا۔مشرف کے بعد جنرل کیانی آرمی چیف رہے اور وہ بھی دو مرتبہ ، اب ان کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات ہیں اور ان کے بھائی ملک سے فرار ہیں ، مشرف بھی مقدمات سے مفرور ہے۔اس وقت کئی ایک مقدمات کئی ایک لوگوں کے خلاف چل رہے ہیں، ان میں سے کوئی ملک میں ہے اور کوئی ملک سے باہر مگر عدالت سے مفرور۔ عمران خان دو سال تک بھگوڑا رہا، اب ایک کیس میںمعافی مانگ کر گلو خلاصی کروائی، پاکستان میں جیتے جی تو کوئی اپنا احتساب نہیں چاہتا، نہ ہونے دیتا ہے۔
پاکستان میں کرپشن کے خلاف تحریک اٹھی تو سعودی عرب نے اسے ماڈل بنا لیا اور احتساب کر کے طاقت ور اور امیر کبیر شہزادوں کو جیلوں میں بند کر دیا۔ کیا پاکستان میں ایساہو سکتا ہے۔ شاید نہیں اس لئے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں احتساب محال بنا دیا گیا ہے، دنیا کے جمہوری ملکوں میں کبھی کبھار دکھاوے کے لئے احتساب کی اکا دُکا مثال قائم کر دی جاتی ہے تاکہ جمہور عوام مسرور ہو سکیں۔
ہم نواز شریف سے تو پوچھ رہے ہیں کہ اس نے دولت کہاں سے کمائی، مگر کیا کوئی صدر ٹرمپ سے پوچھ سکتا ہے کہ اس نے دولت کے انبار کیسے لگائے اور کیا آپ ماڈرن جمہوری ملکوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کے بینکوںمیں تیسری دنیا کی کرپشن کا سرمایہ بھرا پڑا ہے۔ امریکہ اور یورپ ہمارے خلاف دہشت گردی کا شور مچاتے ہیںمگر اپنی مالی دہشت گردی کے خاتمے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے۔
کرپشن کی بحث بڑی طویل ہے۔ مگر ایک بات سینے پر ہاتھ رکھ کر کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں ایک جماعت کے طور پر اگر کوئی کرپشن سے پاک ہے تو یہ جماعت اسلامی ہے۔اس جماعت کے اعلیٰ ترین عہدیدار پانچ مرلے کے مکان کی استطاعت نہیں رکھتے، اس لئے جب سراج الحق کی طرف سے جماعت اسلامی کرپشن کے خلاف بات کرتی ہے تو ہماری عدلیہ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے۔
٭٭٭٭٭