خبرنامہ

مکہ کالونی سے رولز رائس تک کا سفر………………………….اسداللہ غالب

مکہ کالونی سے رولز رائس تک کا سفر………………………….اسداللہ غالب

رولز رائس کے بس خواب ہی دیکھے جاسکتے ہیں ۔
خوابوں کے ذکر سے پہلے کچھ حقیقت کی دنیا کی باتیں سن لیں۔
ایک صاحب نے رولز رائس خریدی ا ور فیملی کے ساتھ یورپ کے سفر پر چل نکلا۔ کہیں جرمنی پہنچ کر کار نے اسٹارٹ ہونے کا نام ہی نہ لیا، صاحب کار نے رولز رائس سے شکایت کی، جواب ملا کہ ہم آپ کونئی گاڑی بھجوا رہے ہیں، فی الحال آپ کو قریب ہی سیون اسٹار ہوٹل بک کروائے دیتے ہیں، ساتویں روز ان کے پا س نئی گاڑی پہنچ گئی۔ فیملی نے سیرو سیاحت کا پھر سے آ غاز کر دیا ، کئی ماہ بعد وہ برطانیہ واپس گئے تو گاڑی بدلوانے کے لئے رولز رائس کے شور روم گئے، انہوں نے اسی شو روم سے گاڑی خریدی تھی۔ شو روم والوںنے جواب دیا۔ ہماری گاڑی خراب نہیں ہو سکتی، بس آپ سے ا سٹارٹ نہیں ہوئی تو ہم نے آپ کو نئی گاڑی دے دی، آپ والی گاڑی ہم نے کسی دوسرے گاہک کو بیچ دی۔
یہی کہانی دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں کہ کسی نے رولز رائس خریدی اور سفر پر روانہ ہو گئے ۔ ایک سو میل دور جا کر گاڑی بند ہو گئی۔ شوروم والوں سے شکایت کی ایک ڈرائیور نئی گاڑ ی میں معائنے کے لئے آیا اور اس نے پوچھا کہ گاڑی میں کیا خرابی ہے۔ اسے بتایا گیا کہ گاڑی اچانک رک گئی، رولز رائس کے مکینک نے گاڑی کا بونٹ کھولا اور حیرت سے کہا کہ اوہو! ہم اس میں انجن رکھنا تو بھول ہی گئے تھے۔ کار کے مالک نے کہا کہ ہم نے ا س میں ایک سو میل کا سفر تو کیا ہے، انجن کے بغیر گاڑی یہاں تک کیسے پہنچ گئی۔ رولز رائس کے نمائندے نے کہا کہ ہماری گاڑی ایک سو میل کا سفر اپنی شہرت کی بنا پر طے کر لیتی ہے۔شاید یہ و اقعات آپ کو غیر حقیقی لگیں مگر نواب آف بہالوپور ایک دن لندن کے ہوٹل سے سیر کو پیدل نکلے، راستے میں رولز رائس کا شو روم دیکھا، اندر گئے، گاڑیوں پر نگاہ دوڑائی اور گاڑی کا آرڈر دیا ، شوروم والوںنے ان کی ہیئت کذائی دیکھ کر گاڑی فروخت کرنے سے ا نکار کر دیا، رولز رائس والے گاہک کا حلیہ اور اس کی مالی اورسماجی حیثیت دیکھ کر ہی گاڑی بیچتے ہیں ، نواب آف بہاولپور اس وقت سادہ کپڑوں میں تھے۔ انہیں سخت غصہ آیا ، واپس ہوٹل گئے ، شاہی لباس پہنا، دوبارہ اسی شو روم پر گئے اور اکٹھی چھ گاڑیاں خرید کر جہاز پر لدوا دیں اور واپس اپنی ریاست پہنچ کر ان گاڑیوں کے او پر سڑکیں صاف کرنے والے جھاڑو باندھنے کا حکم دیا اور عملہ صفائی سے کہا کہ ان میں بیٹھو اور شہر کی صفائی کیا کرو۔ رولز رائس والوں کوپتہ چلا کہ انہوںنے اپنے گاہک کی جو بے توقیری کی تھی ، اب اس کے بدلے میں ان کی گاڑیوں کی عزت خاک میں مل گئی ہے، ان کے نمائندے بہاولپور آئے ا ور نواب صاحب سے دست بستہ معافی مانگی۔ رولز رائس کی ایک کہانی اور ، یہ چشم دید واقعہ ہے۔ لاہور کی وحدت روڈ کی ایک بستی کی لڑکی نے اپنی شادی کی ساری تیاری ایک کھٹارہ سی سوزوکی خیبر میں کی، اس کی رخصتی کے لئے لبرٹی پارک میں انتظام کیا گیا، اس وقت وزیراعظم ملک معراج خالد تھے، وہ بھی بچی کو رخصت کرنے کے لئے وہاںموجود تھے۔ رخصتی کا وقت آ ٓیا تو ایک رولز رائس گاڑی عین اسٹیج کے پاس آ کر رکی، ہمارے معاشرے میں میت کی رخصتی اور دلہن کی رخصتی پر آنسو بہائے جاتے ہیں مگر اس دلہن کی رخصتی میں عزیز و قارب رولز رائس دیکھتے رہ گئے اور رونا دھونا بھول گئے۔ اس ہفتے کے روز کچھ یہی کیفیت ایک نوجوان کی تھی جس نے اپنی زندگی کے سفر کاآغاز گلبرگ کے نواح میں ریلوے پٹری کے ساتھ پھیلی ہوئی ایک تنگ وتاریک بستی مکہ کالونی سے کیا، مگر اب وہ اپنے دوستوں سے پارٹیاں کھاتا پھرتا ہے کیونکہ وہ دو دن بعد انگلینڈ جا رہا ہے ، وہاں وہ رولز رائس کمپنی میں انجینیئر بھرتی کر لیا گیا ہے۔ میں نے ایک جست میں اسے رولز رائس کی فیکٹری میں پہنچا دیا ہے مگر وہ ایک طویل اور کٹھن سفر طے کر کے اس منزل سے ہمکنار ہو پایا ہے۔ اس نوجوان کا نام ہے ڈاکٹر زاہد عثمان، مگر مجھے ایک اور نوجوان تنویر نذیر کا ذکر پہلے کرنا چاہئے تھا یہ دونوں سکول فیلو تھے۔ تنویر نذیر آئی ٹی کی طرف نکل گیا اور زاہد عثمان نے مکینیکل انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ تنویر نذیر نے کچھ عرصہ آئی ٹی کی فرموں میں ملازمت کی مگر جلد ہی اسے پتہ چل گیا کہ وہ اس شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتا بلکہ اسے کنسلٹنسی میں قسمت آزمائی کرنی چاہئے، یعنی وہ نوجوان طلبہ کی راہنمائی کرے کہ وہ اعلی تعلیم کے لئے بیرونی یونیورسٹیوں میں کس طرح داخلہ لے سکتے ہیں ، انہیں اسکالر شپ کیسے مل سکتا ہے، ویزے کی مشکلات کیسے سر کرنی ہیں۔ اس مقصد کے لئے اس نے ایک فرم بنا لی۔ بیرونی یونیورسٹیوں سے رابطہ قائم کیا، انہیں بتایا کہ وہ انہیں بزنس بھی دے سکتا ہے اور ذہین طالب علموں سے بھی متعارف کرا سکتا ہے۔ اس کام کے لئے وہ طالب علموں سے کوئی فیس نہیں لیتا بلکہ خدمت کے جذبے کے تحت کام کرتا ہے اور روزی روٹی کمانے کے لئے بیرونی اداروں سے ملنے والے معاوضے پر قناعت کرتا ہے، بیشتر کیسوں میں اسے یہ معاوضہ بھی نہیں ملتا۔پچھلے پانچ چھ برسوں میں وہ ہزاروں طالب علموں کو بیرون ملک اعلی تعلیم کے لئے بھجوا چکا ہے۔ان میں سینکڑوں کی تعداد میں پی ایچ ڈی کر کے پاکستان میں اعلیٰ مناصب پر کام کر رہے ہیں، بیس فیصد نوجوان باہر کے ہو کے رہ جاتے ہیں کیونکہ جیسے ہی وہ تعلیم ختم کرتے ہیں، وہیں کا کوئی ادارہ انہیں پر کشش تنخواہ پیش کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر عثمان کو بیرون وطن راہ دکھانے والا یہی نوجوان تنویر نذیر ہی ہے، اس نے ایک سکول فیلو اور محلے دار کے ساتھ نیکی کمائی۔ زاہد عثمان نے مکینیکل اینجنیئرنگ کی تعلیم مکمل کی تو اسے اینجینیئرنگ یونورسٹی میں ہی لیکچرر شپ مل گئی مگر چند برسوں میں اسے محسوس ہو اکہ وہ ایک رٹا رٹایا لیکچر دیتا ہے اور بس اس کے دل میںاعلیٰ تعلیم کی خواہش تو تھی مگر کوئی راستہ نظر نہ آ رہا تھا، یونیورسٹی نے اسے اسکالر شپ آفر کیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ بانڈ بھر کے دے گا کہ تعلیم مکمل کر کے واپس اپنی نوکری پر آجائے گا، عثمان نے کہا کہ میں بانڈڈ لیبر میں یقین نہیں رکھتا۔ اسکالر شپ دینا ہے تو اوپن شرائط کے ساتھ دیں، یونیورسٹی نے انکار کر دیا ، اس کے دوست تنویر نذیر کو اس کی ابتلا کا پتہ چلا تو اس نے ہاتھ پاﺅں مارے اور بیرونی یونیورسٹیوں کے ساتھ خط و کتابت شروع کر دی، خوش قسمتی سے برطانیہ کے ایک کالج نے اسے اسکالر شپ پر قبول کر لیا۔ وہ وہاں چلا تو گیا مگر اپنے تعلیمی پس منظر کی وجہ سے چار سال میں پی ایچ ڈی مکمل نہ کر سکا،اس کی ریسرچ تو مکمل ہو گئی تھی مگر تھیسس لکھنے کے لئے اسے مزید دو سال قیام کرنا تھا، اس کے پا س ایک ٹکا تک نہ تھا، اس نے پھر لاہور میں انجنیئرنگ یونیورسٹی سے رابطہ قائم کیا مگر جواب وہی تھا کہ بانڈ بھر دو ، اسکالر شپ مل جائے گا۔ زاہد عثمان کے ضمیر نے بانڈڈ لیبر کے نظریئے کو قبول نہ کیا مگر جیسے تیسے اس نے پی ایچ ڈی مکمل کر لی۔ وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا،اس کی محنت رنگ لائی اور اسے وہیں کے ایک کالج میں لیکچرر شپ مل گئی اور ایک دن اس نے اخبار میں اشتہار دیکھا کہ رولز رائس میں کام کے مواقع موجود ہیں، اس نے درخواست دی، اس کی خداداد صلاحیتوں کے بل پر اسے اس اعلیٰ ترین ادارے میں بطور انجینئر بھرتی کر لیا گیا ہے۔ یہ سفر اتنی آسانی سے طے نہیں ہوا۔ وہ ہم سے باتیں کر رہا تھا اور اسے پہلی ملازمت شیخوپورہ کے ایک ٹریکٹر کے کارخانے میں یادآ گئی جہاں اس کے شعبے کے سربراہ نے اسے ٹاسک دیا کہ جس دن دو سو ٹریکڑ اسمبل کرنے میں کامیاب ہو جاﺅ تو رات ہو یا دن، اس کی ا طلاع ضرور کرنا۔ عثمان نے دن رات ایک کر کے محنت کی ، ایک صبح وہ ٹارگٹ حاصل کر چکا تھا، اس نے اپنے جنرل منیجر کو فون کیا جو اس وقت ایک ا ور ٹریکٹر کے کارخانے کے جنرل مینجر کے ساتھ صبح کی سیر کر رہا تھا، یہ خبر سن کر جنرل مینجر کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ علامہ اقبال نے خدا سے دعا کی تھی کہ جوانوں کو پیروں کا ا ستاد کر۔
تنویر نذیر اور ڈاکٹر زاہد عثمان علامہ قبال کے اسی خواب کی تعبیر اور دعا کی تاثیر ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو برین ڈرین کی کہانی ہوئی۔ محفل میں موجود ڈاکٹر محمود شوکت نے بے ساختہ کہا کہ برین ڈرین نہیں برین پروٹیکشن کا قصہ ہے، بیرونی ممالک ہمارے ذہین اور فطین نوجوانوں کی پرورش کرتے ہیں اور جب وطن کو ان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرح وطن کے افق پر جگ مگانے لگتے ہیں۔
٭٭٭٭٭