خبرنامہ

میثاق لندن کے آنسو

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

میثاق لندن کے آنسو
یہ سیاہ دن تھے اور سیاہ راتیں۔ قائد اعظم کے پاکستان پر فوجی آمریت کی کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔
ملک کی دو طاقتور ترین عوامی شخصیات کو جلا وطن کر دیا گیا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو دو بار ملک کی وزیر اعظم رہ چکی تھیں اور میاں محمد نوا ز شریف بھی اسی اعزاز کے حامل تھے۔ دونوں شخصیات نے اپنے اپنے دور حکومت میں ملکی سیکورٹی کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ناقابل فراموش اور قابل فخرکارنامے انجام دیئے تھے۔ محترمہ نے جوہری اسلحے کی ڈیلوری سسٹم کے لئے میزائل پروگرام کو پروان چڑھایا تھا اور میاں صاحب نے امریکہ کی بھر پور مخالفت کی پروا کئے بغیر ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو لرزہ بر اندام کر دیا تھا۔
دونوں شخصیات اور ان کی سیاسی پارٹیوں کو عوام نے بار بار اکثریتی مینڈیٹ سے نوازا تھا۔ مگر پس پردہ سیا ہ طاقتوں نے بار بار عوامی مینڈیٹ کوکچل دیا اور بالآخر دونوں کو دیس نکالا دے دیا۔
ملک ایک فوجی آمر کے شکنجے میں تھا اور وقت کے نئے میر جعفر اور میر صادق اس ڈکٹیٹر کے بوٹ چاٹ رہے تھے۔
دونوں جلا وطن شخصیات جو اپنے اپنے دور میں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کی روادار نہ تھیں، انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اتحاد نہ کیا اور آپس کے اختلافات ختم نہ کئے تو ملک سے جمہوریت کا جنازہ ہمیشہ کے لئے اٹھ جائے گا۔ اس قومی ضرورت کے تحت دونوں کے درمیان لندن میں مذاکرات ہوئے۔ اور ان کے نتیجے میں انہوں نے ایک میثاق جمہوریت پر دستخط کئے جس میں طے کیا گیا تھا کہ آئندہ وہ ماضی کی طرح ایجنسیوں کے اشارے پر ایک دوسرے سے گتھم گتھا نہیں ہوں گے اور کسی بھی صورت میں ایک دوسرے کی حکومت نہیں گرائیں گے بلکہ آئینی ٹرم کی تکمیل کے لئے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔
میں یہ ساری تاریخ آصف علی زرداری کی توجہ کے لئے دہرا رہا ہوں۔
یہ میثاق جمہوریت کا سحر تھا کہ محترمہ نے ہر چہ بادآ باد کا نعرہ لگایا اور نام نہاد این آر او کو پس پشت ڈالا۔ اس این ا ٓر او کے تحت محترمہ دو ہزار آٹھ کے الیکشن سے پہلے جلاوطنی ختم نہیں کر سکتی تھیں مگر حالات کے تقاضے ایسے تھے کہ محترمہ نے اپنی جان تک کو خطرے میں ڈالا۔ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں ڈکٹیٹرپرویز مشرف ایک بار پھر صدر منتخب نہ کر لیا جائے اور اس کے ٹوڈی بھی سیاست ا ور حکومت پر حاوی نہ ہو جائیں۔ محترمہ نے جلاوطنی ختم کی تو میاں صاحب بھی پیچھے پیچھے چلے آئے حالانکہ ان کے معاہدے میں پابندی تھی کہ وہ دس سال گزارنے کے بعد ملک میں واپس آ سکتے تھے مگر میاں نواز شریف نے محترمہ کے شانہ بشانہ حالات کے جبر کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔
محترمہ تو جمہوریت کی بحالی کی جدو جہد میں جان سے گزر گئیں۔ اگلے الیکشن ہوئے تو نواز شریف اور زرداری نے مل کر ڈکٹیٹرپرویز مشرف کو چلتا کیا۔ میاں صاحب نے تمام تر مشکلات کے باوجود زرداری کو آئینی ٹرم پورے کرنے کے لئے بھر پور تعاون کیا۔بہت مدو جزر آئے، کبھی کیری لوگر بل۔ کبھی اسامہ کے خلاف امریکی آپریشن، کبھی میمو گیٹ۔ کبھی ریمنڈ ڈیوس کا قضیہ۔جمہوریت کی ناتواں کشتی بار بار ڈول رہی تھی مگر میاں صاحب نے میثاق جمہوریت کی مکمل پاسداری کی اور زرداری حکومت کو سہارا دیئے رکھا۔
یہ تھا میاں محمد نواز شریف کا کردار مگر جب نواز شریف کی حکومت آئی تو زرداری نے میثاق جمہوریت کو بالائے طاق رکھ دیا۔ ان کایہ بیان تاریخ کے ماتھے کی سیاہی بنا کہ وعدے قرآن حدیث کا درجہ نہیں رکھتے۔ یہاں تو لوگ قرآن حدیث کی قدر نہیں کرتے۔ زرداری نے میثاق جمہوریت کو لات ماری تو کسی کو تعجب نہیں ہوا۔ یہ شخص سیاسی پس منظر کا حامل نہیں تھا۔ اس نے بعض مقدمے توضرور بھگتے تھے، جیلیں بھی کاٹی تھیں مگر سیاسی جدو جہد کا اس ذات شریف کو قطعی تجربہ نہیں تھا۔وہ اپنے مزاج کی لہروں پہ تیرتے ہیں،تلاطم کی صورت حال میں ان کی کشتی ہچکولے کھانے لگتی ہے۔طوفانی تھپیڑوں کے سامنے ان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ان پر بھی کرپشن کے الزامات تھے مگرعدالتیں ان سے کچھ نہ نکلواسکیں اور وہ پاک پوئتر قرار دے دیئے گئے۔ سوئس اکاؤنٹس اور سرے محل الف لیلیٰ کے قصوں کا حصہ بن گئے اور زرداری صاحب نے پانامہ کا افسانہ سامنے آنے پر فرشتے کا روپ دھار لیا اور نواز شریف کو کڑی سزائیں دلوانے کی آرزو کرنے لگے۔سیاست میں ان کا نو مولود بیٹا ان سے دو ہاتھ آگے نکل گیا۔باپ بیٹا دن رات نوازشریف کو لگے گالیاں دینے۔ وہ بھول گئے کہ انہی کے خاندان سے تعلق رکھنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو نے نوازشر یف کے ساتھ میثاق جمہوریت پر بھی کبھی دستخط کئے تھے اور یہ پیمان باندھا تھا کہ دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی حکومت کے خلاف بلیم گیم کا حصہ نہیں بنے گا، نہ حکومت گرانے کی کوشش کرے گا بلکہ وہ ایک مقصد کے لئے باہمی تعاون کریں گے کہ اس ملک میں جمہوریت واپس آئے۔اپنے قدم جمائے اور اپنا سکہ چلائے۔مگر زرداری نے اس عہدو پیماں کو فراموش کر کے نوازشریف کے مخالفین سے ہاتھ ملا لیا بلکہ یہ خود ان کے مخالفین بھی تھے جو ہر قسم کی گالی سے انہیں نوازتے رہے تھے۔ان کے خلاف سازشیں کرتے رہے تھے۔مگر جب تعصب کی پٹی آنکھوں پر باندھ لی جائے تو اچھے برے کی تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
میثاق لندن خون کے آنسو رو رہا ہے۔ محترمہ کی لاش سے ابلنے والے خون کے قطرے بھی ماتم کناں ہیں کہ زرداری صاحب نے میثاق لندن کو دفن کیوں کر دیا۔
پاکستان ایک جدید اسلامی جمہوری ریاست کے نمونے کے طور پر تخلیق کیا گیا تھا مگر اقتدار کی راہ داریوں میں ایسی ریشہ دوانیاں چلیں کہ قیام پاکستان کے مقاصد دھندلا گئے اور مفاد پرستی غالب آ گئی۔میثاق جمہوریت نے ایک روشنی دکھائی تھی اور ہمیں ایک بھولا ہوا سبق یاد دلایا تھا۔ اب اس سبق کو ہی بھلا دیا گیا ہے۔ کہاں باتیں یہ ہو رہی تھیں کہ میثاق جمہوریت کو وسعت دی جائے اور اب ایک میثاق پاکستان پر دستخط کئے جائیں جس پر سبھی سیاسی پارٹیاں متفق ہوں اور فوج، عدلیہ اور انتظامیہ کو بھی اعتماد میں لیا جائے تاکہ بانیان پاکستان کی امنگوں کی آبیاری کی جا سکے اور پاکستان کو ایک جمہوری مملکت کا نمونہ بنایا جا سکے۔ مگر اے بساا ٓرزو کہ خاک شدہ!ہر کسی کو اپنی اپنی پڑ گئی ہے۔نواز شریف تو میدان میں جم کر کھڑے ہیں۔ مگر باقی سیاسی قوتیں گھر پھونک تماشہ دیکھ کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
میں شاعر کی زبان میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ
وطن کی فکر کر ناداں قیامت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں