خبرنامہ

میری صحافتی زندگی کے چند امتحانی لمحات۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

سر منڈاتے ہی اولے پڑے، میری صحافت کاآ غاز ہی ایک کڑی آزمائش سے ہوا۔میں گورنمنٹ کالج میں تھرڈ ایئر میں تھا کہ راوی کی مجلس ادارت کے لئے منتخب کر لیا گیا، دو طالب علم مجھ سے سینیئر تھے۔مگر میری افتاد طبع ہے کہ سارا کام اپنے سر لے لیتا ہوں، پہلے ہی پرچے میں ایک سینیئر ایڈیٹر کی غزل شائع ہوئی جس پرکسی طالبہ کے نام انتساب بھی تھا۔ میں نے دوران اشاعت اپنے دونوں ایڈیٹروں سے گزارش کی کہ یہ انتساب والی بات غلط ہے، اسے شائع نہیں ہونا چاہئے مگر مجھے یہ کہہ کر خاموش کروا دیا گیا کہ ہم سینیئر ہیں، آپ اپنا حکم نہیں چلا سکتے، راوی چھپ کر کالج پہنچا، ہمارے نگران نے اسے دیکھااور مجھے طلب کر کے پوچھا کہ یہ غزل کیسے شائع ہوئی۔میرا جواب تھا کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا ، ا س پر دونوں سینیئر ایڈیٹروں کو طلب کیا گیا جس پر میری تو جان بخشی ہو گئی مگر ان دونوں کو مجلس ادارت سے نکال دیا گیا ور ان کی جگہ نئے لوگ آ گئے، اگلا پرچہ مرتب ہو رہا تھا کہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد ریٹائر ہو گئے، ان پر ایک محترم پروفیسر کا لکھا ہوا مضمون مجھے سینیئر ایڈیٹر نے دیا کہ ا سے اگلے پرچے میں شامل کرنا ہے، بظاہر اس میں کچھ بھی قابل اعتراض بات نہ تھی ، یہ پرچہ شائع ہوا تو پھر ایک آفت آ گئی۔ کہ یہ مضمون کیوں شامل کیا گیا،نئے پرنسپل نے ڈاکٹر نذیر احمد جیسے مہان استاد کا قصیدہ گورار نہ کیا تھا۔اس مرتبہ انکوائری مجھ سے سے سینیئر ایڈیٹروں کی ہوئی ، انہیں بھی نکال دیا گیا ور مذکورہ مضمون پھاڑ کر رسالہ دوبارہ جلد کرانا پڑا۔
میری پہلی صحافتی ملازمت کے چند ماہ بعد ہی مجھے ایک سخت جھٹکا لگا، پاکستان دو لخت ہو چکا تھا اور ہم لوگ مشرقی محاذ سے آخری خطوط کو سلسلہ و ار چھاپ رہے تھے، ایک خط ایسا چھپا کہ جیسے زلزلہ آ گیا ہو، آنا بھی چاہئے تھا، اس خط میں چندمجرمانہ باتیں شامل تھیں۔ شکر کی بات یہ ہے کہ قارئین اور حکومت نے اس خط کو نہیں پڑھا اور بات آئی گئی ہو گئی، میں یہ بتاتا چلوں کہ سارے خط ہمارے ایڈیٹر صاحب منتخب کر کے مجھے دیتے تھے، میرا کام انہیں سلیقے سے شائع کرنا اور کاپی پریس بھجوانے کا تھا۔ بعد میں اسی ادارے کے ہفت روزے کا ایڈیٹر بنا، ایک پرچہ شائع ہوا تو آزاد کشمیر میں آگ لگ گئی، لوگ بھڑک اٹھے، حکومت نے پرچہ ضبط کر لیا اور آئندہ سے اس کا داخلہ بند کر دیا۔ہمارا گناہ یہ تھا کہ ٹائٹل اسٹوری انتہائی قابل اعتراض تھی، اتفاق کی بات ہے کہ اسے بھی میرے ایڈیٹر نے یہ حکم دے کر میرے حوالے کیا تھا کہ اسے ٹائٹل اسٹوری بنانا ہے، میں نے اس کی سرخی کسی حد تک مرچدار بنا دی۔مگر میری پرسش اس سرخی کے لئے بھی نہ ہوئی کیونکہ مضمون کے مندرجات اس سے بھی زیادہ تلخ تھے، مجھے معلوم نہیں کہ پرچے کی انتظامیہ نے حکومت آزاد کشمیر کو کیسے ٹھنڈا کیا۔
نوائے وقت میں آیا تو ایک روز سیڑھیوں پر چڑھتے ہی منیر صاحب نے پیغام دیا کہ سیدھے مرشدنظامی کے کمرے میں چلو، وہاں پہنچا تو ایک اور صاحب بھی موجود تھے، مسئلہ زیر بحث یہ تھا کہ اس روز رفیق ڈوگر نے ایک ا سٹوری حمو دالرحمن کمیشن رپورٹ کے حوالے سے فائل کی تھی جو بائی لائن چھپ بھی گئی، یہ خبر اس وقت کے سیکرٹری جنرل دفاع کے خلاف تھی، وہ ایک میجر جنرل تھے ۔ حکومت کا مطالبہ تھا کہ رفیق ڈوگر کو ا سکے حوالے کر دیا جائے، جی دار مرشد نظامی کا جواب تھا کہ اخبار کا مالک اور ایڈیٹر میں ہوں ، کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو میں سزا بھگتنے کے لئے حاضر ہوں ، گھر سے آتے وقت کپڑوں کا سوٹ کیس اور اپنی دوائیں لے آیا ہوں، کسی نے لے جانا ہو تو میں حاضر ہوں۔ میں نے یہ سب کچھ سنا اور تجویز دی کہ اتفاق سے اس خبر میں جو واقعہ درج ہے ، وہ زیادہ تفصیل کے ساتھ آئی ایس پی آر کے سربراہ بریگیڈیئر صدیق سالک کی کتاب۔۔ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا۔۔ میں موجود ہے، یہ کتاب جی ایچ کیو کی ا جازت سے چھاپی گئی ہے، اس لئے ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ نوائے وقت کو اس خبر کی سزا دینے سے پہلے اپنی ہی لکھی ہوئی اور جی ایچ کیو سے باقاعدہ سنسر شدہ کتاب پر بھی نظر ڈال لو، یہ کتاب میں نے چھاپی تھی، میں گھر واپس گیا، ایک کاپی لے کر آیا، وہی واقعہ ہم نے ادارتی صفحے پر مکمل تفصیل کے ساتھ اگلے روز کے اخبار میں چھاپ دیا، رفیق ڈوگر کی خبر چند سطروں کی ہو گی مگر ؂اس کی تفصیل اخبار کے آدھے صفحے پر محیط تھی۔ میرا خیال ہے کہ حکومت کو چپ لگ گئی اور متعلقہ میجر جنرل بھی خاموش ہو گئے۔
ایک بار پھر میں اخبار کی سیڑھیاں چڑھنے لگا کہ وہی منیر صاحب نے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ سیدھے مرشد نظامی کے کمرے میں حاضری دو،مجھ سے محترم نظامی صاحب نے پوچھا کہ آج جو کلر ایڈیشن شائع ہوا ہے، وہ آج ہی کیوں شائع ہوا۔ان کا سوال مکمل نہیں تھا، میں سمجھا کہ وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ میں نے یہ کلر ایڈیشن شائع کرنے میں تاخیر کیوں کی، اس ایڈیشن میں ایم آر ڈی کے راہنماؤں کے ساتھ ایک مذاکرے کی تفصیل تھی۔ مذاکرے میں نوابزادہ نصراللہ خان، اعتز از احسن، افضل حیدر،اور چھ سات ایم آر ڈی کے راہنما اور بھی شامل ہوئے تھے۔ میں نے ساری تفصیل بتائی کہ یہ مذاکرہ فلاں دن ہوا، اسے ٹرانسکرائب کرنے میں اتنا وقت لگا، پھر ان دنوں ہاتھ سے کتابت ہو تی تھی ار دو صفحات کی کتابت میں اتنا وقت صرف ہوا، اسکے بعد کاپی تیار ہوئی تو ا سکی پلیٹیں بنا کر معمول کے مطابق سارے اسٹیشنوں کو بھیجی گئیں تاکہ ایک ساتھ اس کی ا شاعت ہو سکے، اس حساب کتاب سے میں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ آج سے پہلے نہیں چھپ سکتا تھا۔ مرشد نظامی ساری کتھا سن کر ہنس دیئے اور کہنے لگے کہ آج پاک پتن میں نواز شریف کی ایک شوکر مل کا افتتاح جنرل ضیاا لحق نے کرنا ہے، اس کے مہمانوں کو لے جانے کے لئے پنڈی سے ایک خصوصی ٹرین چلنی ہے جس کی ہر سیٹ پر نوائے وقت کی کاپی رکھنا تھی مگر جب صبح میں نے یہ ایڈیشن دیکھا تو فیصلہ کیا کہ نہ تو خود جاؤں گا ، نہ اخبار ٹرین میں رکھواؤں گا، اس طرح دو ہزار کاپیوں کی فروخت کا نقصان ہو گیا اور تعلقات میں خرابی تو مور اوور والی بات ہے۔ظاہر ہے ضیاا لحق تو ایم آری ڈی کا نام تک سننا گوارا نہ کران تھا ، کجا ان کا بھاشن اسے پڑھنے کو ملے۔
میں ایک اور اخبار میں تھا کہ پنجاب حکومت کی ایک میڈیا ٹیم کے ساتھ غازی گھاٹ پل کی افتتاحی تقریب کے لئے گیا، یہ پل جنرل جیلانی کے خواب کی تعبیر تھی۔واپسی پر ہم نے رات مظفر گڑھ میں گزاری ، میری نیت میں فتور آ گیا،میں نے ایک فوٹو گرافر مجید میر کوساتھ ملایا، اگلی صبح ہم بزرگ سیاستدان حمیددستی کے ہاں ناشتے پر پہنچ گئے۔وہ بڑے حیران ہوئے کہ ضیا الحق کے معتوب کے گھر کا رخ کیسے کر لیا، اس کے بعد ہم نے خان گڑھ کا رخ کیا اور ہم نے نظر بند نوابزادہ نصراللہ خاں سے ملاقات کی، ان کے کمرے کے دروازے پر پولیس کا دستہ فروکش تھا، ہم ان کے سامنے سے کمرے میں داخل ہوئے ، کوئی پون گھنٹہ تک میں نے ان کا ایک انٹریو ریکارڈ کیا اور پھر چلے آئے، لاہور پہنچ کر اپنی خبر مع تصویر فائل کی، اخبار نے ایک دن کے لئے اسے نہ چھاپا، اور جب ملاقات کے پانچویں روز یہ خبر چھپی تو طوفان برپا ہو گیا، میرے اوپر جیل توڑنے کامقدمہ درج ہو گیا تھا۔ جیل تو بہر حال ٹوٹی تھی مگر یہ مقدمہ درج کرنے والے کسیے فرض شناس تھے کہ انہیں خبر کی اشاعت کے ساتھ پانچویں روز وقوعہ کا پتہ چلا تھا، ایسی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ میرے ا ور فوٹو گرافر کی گرفتاری کے لئے مظفر گڑھ پولیس لاہور آ رہی ہے، مگر بات وہیں اٹک گئی کہ ہماری گرفتاری سے پہلے حکومت کو اپنے کئی ایک سر تن سے جد ا کرنے پڑتے تھے، سو معاملہ مظفر گڑھ اور لاہور کے رستے میں ہی دب گیا۔
آزامائشیں اور بھی آئیں۔ مظفر گڑھ پولیس والا رویہ ایک بار آئی ا یس آئی نے بھی اپنایا۔ میں جنرل مشرف کی دعوت پر ان سے ملنے گیا، واپس آ کر کالم لکھا جو ملاقات سے چوتھے روز چھپا ، اس پر آسمان سر پہ ا ٹھا لیا گیا اور ایک آئی ایس آئی اہلکار ہاتھ د ھو کر میرے پیچھے پڑ گیا کہ وہ مجھے اسلام آباد اپنے باس کے پاس لے جاناچاہتا ہے۔میں نے کہا کہ میں دن کی روشنی میں آن دی ریکارڈ صدر اور آرمی چیف جنرل مشرف سے ملا اور آپ کو میرے کالم کی اشاعت سے ملاقات کی خبر ہوئی، ا سلئے میں اب کسی صورت اسلام آباد جانے کے لئے تیار نہیں۔میں نے کالم کی تین قسطیں اور بھی لکھیں، آئی ایس آئی والا میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا رہا کہ چلو، چلو، میں نے کہا کہ میرے پاس جو کچھ تھا، لکھ دیا، اب مزید بتانے کو کچھ نہیں، اس لئے میں نے نہ جانا تھا ، نہ گیا۔میری تربیت مرشد نظامی کی درسگاہ سے ہوئی تھی۔ درس نظامیہ کا سرچشمہ جاری و ساری ہے ۔ مرشد نظامی جیسا جی دار ایڈیٹر کہاں سے آئے گا۔