خبرنامہ

کوئٹہ میں پھر سے دہشت گردی……اسداللہ غالب

کوئٹہ میں پھر سے دہشت گردی……اسداللہ غالب

کوئٹہ لہو لہان ہے۔ کوئٹہ نے فیصلہ تو کرنا تھا کہ کیا ان کے وزیراعلیٰ زہری صاحب کو آﺅٹ کیا جاتا ہے یا نہیں۔اس فیصلے کی نوبت تو آئی نہیں کہ وزیراعلیٰ صاحب نے خود ہی فیصلہ دے دیاا ور مستعفی ہو گئے، چنانچہ وہ طوفان جو چائے کی پیالیوںمیں جوش مار رہا تھا وہ ابل کر بحیرہ عرب کی متلاطم موجوں سے ہم آغوش ہو کر سونامی کی شکل اختیار نہیں کرسکا مگر جب ارکان اسمبلی ایوان سے رخصت ہو رہے تھے تو گھات میں بیٹھے ہوئے ایک دہشت گرد نے اپنی موٹرسا ئیکل ایک سیکورٹی بس سے ٹکرا دی جس سے پولیس کے اہل کاروں سمیت سات افراد شہادت سے ہمکنار ہو گئے اور دو درجن کے قریب زخمی پڑے ہیں جن کے زخم کتنے گہرے ہیں، ان کی کوئی تفصیل میڈیا میں نہیں آ سکی ۔ ان کی ساری زندگی بھی اجیرن ہو سکتی ہے۔
کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر نے تو فوری ردعمل نہیں دیا ، میڈیا سے کہا کہ وہ بس انتظار کرے جبکہ صوبے کے آئی جی پولیس نے کہا کہ ظاہر ہے دہشت گرد سرحد پار سے آیا ہے۔
جس صوبے میں گزشتہ دو ہفتوں سے سیاسی بھونچال کی سی کیفیت ہو، وہاں نظم ونسق کی توقع رکھنا عبث ہے حالانکہ ریاست کے اداروں کو اپنی اپنی جگہ پر فعال رہنا چاہئے، وزیراعلیٰ رہتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ اسمبلی پر چھوڑ دینا چاہئے۔ مگر لگتا ہے کہ سارے ادارے ایک وزیراعلیٰ کو بچانے یا گھر بھیجنے میںمصروف تھے، مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق تک نے کوشش کر دیکھی، آخر میں وزیر اعظم بھی حالات کا جائزہ لینے موقع پر پہنچے ا ور انہوںنے وزیراعلیٰ کومشورہ دیا کہ وہ اکثریت کھو چکے ہیں تو از خود مستعفی ہو جائیں تاکہ یہ کھیل تو ختم ہو۔
بلوچستان ا ور خاص طور پر کوئٹہ ایک عرصے سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے،پے در پے سانحے رونما ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ اس لئے بھی نشانے پر ہے کہ صوبے میںکوئی ا ور جگہ ایسی ہے نہیں جسے نشانہ بنایا جاسکے، قائد اعظم کی آخری رہائش گاہ زیارت ریذیڈنسی کو کئی برس پہلے بھسم کر دیا گیا تھا، گوادر میں بھی ہلکی پھلکی موسیقی چلتی رہتی ہے اور اگر چینیوںنے یہاں سرگرمیوںمیں اضافہ کیا تو خدشہ ہے کہ دہشت گرد بھی ادھر کا رخ زیادہ کریں گے، یہ حقیقت سیکورٹی ایجنسیوں کو بھی معلوم ہے۔
اطمینان کی بات یہ ہے کہ کوئٹہ اسمبلی کے اجلاس کی وجہ سے سیکورٹی ہائی الرٹ تھی اور اسمبلی کے سامنے جی پی او چوک سے آ گے صرف ارکان اسمبلی کو جانے کی ا جازت تھی، ان کا اسٹاف بھی جی پی اوچوک میں ہی روک لیا گیا، حتیٰ میڈیا کو بھی اس چوک سے آگے نکل کر کوریج کی اجازت نہ دی گئی۔ یہی ایک احتیاطی تدبیر دہشت گرد کے راستے میں اسمبلی بلڈنگ میںموجود ارکان ا سمبلی کو نشانہ بنانے میں رکاوٹ ثابت ہوئی ۔ تواس کا مطلب یہ ہوا سیکورٹی ا نتظام میں کوئی بڑی خامی بھی دیکھنے میں نہیں آئی جس کی وجہ سے پولیس ، رینجرز یا فوج کو مطعون کیا جاسکے مگر کسی کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی۔ کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے ، جب امریکہ ہماری نیت اور کوشش پر شک کر رہا ہے تو ہم میں سے کئی ایسے ہوں گے جو امریکہ کو خوش کرنے کے لئے اس کی زبان بولنا پسند کریں گے۔
بلوچستان بھارت کے نشانے پر ہے، اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے لمبی چوڑی دلیلیں دینے کی ضرورت نہیں، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خود کہہ چکا ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کو حقوق دلوائے گا تو اس کے لئے ا سے بلوچستان میں اکہتر کی طرح کے وہ حالات پیدا کرنا ہیںجواسوقت مشرقی پاکستان میں بھارت نے مکتی باہنی کی مدد سے پیدا کئے، بلوچستان میں اس مقصد کے لئے اسے بلوچ لبریشن آرمی میسر ہے ، ایک بلوچ لیڈر نئی دہلی میں براجمان ہیں، مشرقی پاکستان کے باغی لیڈر تو کلکتہ ہی میں رہے مگر بلوچ لیڈر کو نئی دہلی میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہو جانا چاہئے کہ بربادیوں کے منصوبے کہاں بن رہے ہیں۔
کل بھوشن یادیو بھی بلوچستان کی سرحد پار کرتے ہوئے فوج کے ہتھے چڑھا، وہ ایران سے ا ٓیا ، اس کے پاس ایک مسلمان کے نام سے پاسپورٹ تو موجود تھا مگرا س پر پاکستان کا ویزہ نہیں تھا، وہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوااور اب تو وہ ساری دنیا کے سامنے یہ تسلیم کرچکا ہے کہ وہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہے اورا سے دہشت گردی کے لئے را جیسے بدنام زمانہ ادارے میں بھرتی کر لیا گیا اور پاکستان میں دہشت گردی پر مامور کیا گیا،اس کا ہیڈ کوارٹر، ایرانی بندر گاہ چاہ بہار کا شہر تھا۔ اب کل بھوشن تو پاکستان کی حراست میں ہے مگر اس کے چیلے چانٹوں کا نیٹ ورک تو اپنی جگہ پر کام کر رہا ہے جو دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
بلوچستان پر دہشت گردوں کی نظر کرم کی ایک وجہ گوادر کی بندرگاہ ہے جو سی پیک سے جڑی ہوئی ہے اور امریکہ اور بھارت اس کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔ سی پیک چین کے ایک بڑے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ہے جو تین براعظموںکو تجارتی طور پر مربوط کر ے گا، صدر ٹرمپ نے واضح طور پر دھمکی دی ہے کہ وہ امریکہ کے سامنے کسی تجارتی بلاک کو کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، اس وقت سی پیک کے روٹ پر بلوچستان واقع ہے جسے آئے روز نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بلوچستان میںبد امنی کی وجہ سمجھنے میں کسی کو مشکل نہیں پیش آنی چاہیے۔یہ عالمی بساط پر ایک کھیل کا حصہ ہے اورا سے ٹارگٹ کئے بغیر عالمی کھیل جیتنا ممکن نہیں۔پاکستان کو اس ضمن میں چین کی مدد طلب کرنی چاہئے جو ہمارا بااعتماد دوست ہے اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ا ور چین مل کر اس مذموم عالمی کھیل کو الٹ سکتے ہیں۔