خبرنامہ

نئے آبی ذخائر کے لیے چیف جسٹس کاخوش آئند اقدام….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نئے آبی ذخائر کے لیے چیف جسٹس کاخوش آئند اقدام….اسد اللہ غالب

محمود شام کاا یک شعر میں اکثر نقل کرتا ہوں۔
اب آئو یہ بھی کر دیکھیں کہ جینے کا مزہ آئے
کوئی کھڑکی کھلے اس گھر کی اور تازہ ہوا آئے
چیف جسٹس آف پاکستان اس وقت بے حد سرگرم ہیں۔ انہوںنے پاکستان میں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لئے ایک انشی ایٹو لیا۔ اول تو ان کی کوشش تھی کہ کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے ہو جائے۔ انہوںنے اس کا نام بھی پاکستان ڈیم تجویز کیا مگر متعصب سیاسی لیڈروںنے دھمکیاں دیں کہ کالا باغ ڈیم ان کی لاشوں پر ہی بن سکتا ہے۔ان لیڈروںکو اپنی لاشیں تو نظر آ گئیں مگر تھر میں پیاس سے مرنے والے بچوں کی لاشیں نظر نہیں آئیں اور ملک کے ہر حصے میں گندے، زہریلے اورا ٓلودہ پانی کے ہاتھوں ہیپاٹائٹس سے مرنے والوںکی لاشیں بھی نظر نہیں آئیں،بہر حال چیف جسٹس نے کسی انا کا مظاہرہ نہیں کیا اور سیاستدانوں کو مہمند ڈیم اور دیامیر بھاشہ ڈیم کی تعمیر پر متفق کر لیا۔ چیف جسٹس کو یہ بھی ا حساس تھا کہ پاکستان کا خزانہ ان ڈیموں کے لئے ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتاا ور بھاشہ ڈیم کے لئے عالمی مالیاتی ادارے بھی قرضہ جاری کرنے سے ا اس لئے انکار کر چکے ہیں کہ یہ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے میں تعمیر ہو گا۔ اس کے پیش نظر چیف جسٹس نے دونوں نئے ڈیموں کے لئے ایک فنڈ تشکیل دیا جس میں سب سے پہلے انہوںنے اپنی جیب سے عطیہ دیا، پوری عدلیہ نے ان کے فنڈ میں اپنا حصہ ڈالا اور پھر افواج پاکستان نے بھی اس مثال کی پیروی کی اور اسٹیٹ بنک بھی کسی سے پیچھے نہ رہا، اس کے گورنر اورمیرے دوست طارق باجوہ نے خودٹی وی پر آ کر اپنے عطیات کاا علان کیا۔ اس کے بعد تو عطیات دینے والوں کی جیسے لائن ہی لگ گئی ،اب ہر چند سیکنڈ بعد کسی نہ کسی نجی بنک کا ایس ایم ایس موصول ہوتا ہے کہ پاکستانی شہری ان کی برانچوں میں ڈیموں کے لئے فراخدلانہ حصہ ڈالیں ، میں نے ابھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھی ہے، چند ہی دنوں میں نو کروڑ روپے اکٹھے ہو چکے ہیں۔
مہمند ڈیم کو منڈا ڈیم بھی کہا جاتا ہے اور یہ دریائے پنجگو اور سوات کے پانی کو ذخیرہ کرنے اورا س سے آٹھ سومیگا واٹ بجلی تیار کرنے کا ایک سستا منصوبہ ہے ، اس کا فوری فائدہ یہ ہو گا کہ ہر سال خِیبر پی کے میں بارشوں سے سیلاب کی وجہ سے جو تباہی ہوتی ہے وہ رک جائے گی اور اضافی اور سستی ہائیڈل بجلی بھی قومی گرڈ میں شامل ہو جائے گی۔
دیامیر بھاشہ ڈیم البتہ ایک مشکل منصوبہ ہے مگر قومیں جب کسی عزم سے سرشار ہوں تو وہ پہاڑوں کو ہلا کے رکھ دیتی ہیں ۔ بھاشہ ڈیم ایک مشکل تریں علاقے میں واقع ہے۔ اس کے اخراجات بھی بے اندازہ ہیں یعنی کوئی پندرہ ارب ڈالر کے قریب ۔ اس سے پینتالیس سو میگا واٹ ہائیڈل سستی بجلی حاصل ہو گی مگر اس کے ا ٓبی ذخیرے میں قراقرم ہائی وے کا بہت بڑا حصہ ڈوب جائے گا ، جس کے لئے کوئی متبادل کوشش کرنا ہو گی قراقرم ہائی وے پہلے بھی چین نے تعمیر کی تھی اور سینکڑوں جانوں کی قربانی کے نتیجے میںتعمیر کی۔ اس ہا ئی و ے کا بڑا فائدہ بھی چین کو ہو گاا ور اب سی پیک منصوبے کے لئے تو یہ شاہراہ بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ا س لئے چین نے اس کا متبادل حل ضرور سوچ رکھا ہو گا اور چینیوں کے لئے کوئی کام مشکل اور ناممکن نہیں، بھاشہ ڈیم کی مجوزہ بلندی کی وجہ سے ایک خدشہ ہمیشہ رہے گا کہ اگر خدا نخواستہ یہ ٹوٹ گیا تو پورا پاکستان بحیرہ عرب میں بہہ جائے گا، انیس سو چوہتر میں تربیلہ ڈیم کے ٹوٹنے سے بھی پاکستان ڈوب گیا تھا۔ اس قسم کے خطرات کے لئے قومیں تیار رہتی ہیں اور ان سے بچنے کے لئے کوششیں بھی کی جاتی ہیں ، ممکنہ طور پر اگر بھاشہ کی بلندی کم کر لی جائے تو سیلاب کی قیامت کا خطرہ کم ضرور ہو جائے گا۔
اس وقت پورے پاکستان میں چیف جسٹس کے انشی ا یٹو کی تحسین کی جا رہی ہے۔ مقام شکر ہے کہ پیپلز پارٹی کے چوٹی کے لیڈر فارق ایچ نائیک نے اس پر چیف جسٹس کو مبارکباد پیش کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ان کا نام تاریخ میںسنہری حروف سے لکھا جائے گا۔دیگر قومی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوںنے بھی چیف جسٹس کو اس انشی ایٹو پر مبارکباد پیش کی ہے۔
اصل مسئلہ پیسے کا ہے، چیف جسٹس نے قوم میں یہ شعور پیدا کر دیا ہے کہ ملک میں پانی کی شدید کمی ہے۔ اور اس کمی کو دور کرنے کے لئے نئے آبی ذخائر کی تعمیر از بس ضروری ہے،مجھے بر منگھم سے اقبال چیمہ صاحب کا ایک تفصیلی مکتوب موصول ہوا ہے۔ انہوں نے بھی چیف جسٹس کے فیصلے کو سراہا ہے البتہ یہ تجویز پیش کی ہے کہ ڈیموں کے لئے فنڈ قائم کرنے کی بجائے ایک فنانس کمپنی تشکیل دی جائے جس میںلوگوں کو یہ کہہ کر سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے کہ وہ جو رقم ڈالیں گے،اس کا سورس نہیں پوچھا جائے گا ۔ اور پھر جو سرمایہ جمع ہو، اس پر ڈیموں سے ملنے والے منافع کا شیئر سرمایہ کاروں کو ادا کیا جائے۔ میں اقبال چیمہ صاحب کی اس تجویز میں یہ ترمیم کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح سابق حکومت نے ایک ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا، اسی انداز کی ا یک اور ایمنسٹی ا سکیم کا اعلان ڈیموں میں سرمایہ کاری کے لئے کیا جائے اور جن لوگوں کے خلاف نیب میںمقدمے چل رہے ہیں یا جنہیں آئندہ کرپشن کے سلسلے میں پکر دھکڑ کا شکار کیا جائے، انہیں دعوت دی جائے کہ وہ ڈیموں پر اگر ایک خاص شرح سے لوٹی ہوئی دولت کاحصہ ڈال دیں تو ان کے خلاف مقدمے واپس لے لئے جائیں گے، میں تو یہ کہوں گا کہ یہ پیش کش سب سے پہلے شریف خاندان اور زرداری خاندان کو کی جائے ا ور پھر پانامہ کی لسٹ میںشامل ہر کمپنی کو بھی یہ پیش کش کی جائے ۔ورنہ خدشہ یہ ہے کہ ان لوگوں پر مقدمے چلنے یا انہیں جیلوں مین ڈالنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا،اس لئے بھاگتے چور کی لنگوٹی پر ہی اکتفا کر لیا جائے۔ مجھے مشرف دور میں کرپشن کے سلسلے میں گرفتار ایک شخص سے تھانہ سرور روڈ لاہور میں بات کرنے کا موقع ملا ، میں نے کہا کہ آپ اپنی نیک نامی پر دھبہ کیوں لگوا رہے ہیں اورا وپر سے جیلیں بھی کاٹیں گے، ان کا جواب تھا کہ کرپشن کو محفوظ بنانا بھی ایک سائنس ہے اورا سکے لئے ہم لوگ لوٹ کھسوٹ کا پیسہ تو بیرون ملک محفوظ کر لیتے ہیں جس پر ہمارے بچے باہر اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں مگر ہم لوگ چند ماہ یا چند برس کی قید کاٹ لیتے ہیں ، وہ بھی کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کسی بیماری کا بہانہ لگا کر ہسپتال کے ٹھنڈے کمروں میں گزارتے ہیں اور پھر ہماری ضمانتیں ہو جاتی ہیں یا کوئی ایمنسٹی اسکیم آ جاتی ہے۔ اور کھیل ختم ، پیسہ ہضم۔ مجھے نہیں پتہ کہ میری اس تجویز کو چیف جسٹس صاحب خاطر میں لاتے ہیں یا نہیں مگر ان کا صرف یہ اقدام ہی کافی ہے ا ور ان کی نیک نیتی اور ملک و قوم سے محبت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ دو ڈیموں کے لئے ایک بڑی اور سنجیدہ مہم کاآغاز کر چکے ہیں۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر بھارت کی ایک ویڈیو وائرل ہو چکی ہے جس میں یہ دھمکی دی گئی ہے بھارت نے پاکستان کو بوند بوند پانی کے لئے ترسانے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے چناب اور جہلم پر ڈیم بنا کر اور اگلے مرحلے میں ان کا مکمل طور پر رخ تبدیل کرنے کے لئے منصوبہ بنایا ہے۔ اس ویڈیو کی زبان اتنی گندی ہے کہ میں اسے یہاںنقل کرنے کی ہمت نہیں پاتا۔ جو کام چیف جسٹس اکیلے کر سکتے ہیں، اگر ہمارے قومی سیاستدان اکٹھے ہو جائیں تو وہ محیرالعقول کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں، ان کے سامنے چیف جسٹس کی مثال مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔