خبرنامہ

نادرا چیئرمین اور قومی تقدیر کا فیصلہ….کالم اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نادرا چیئرمین اور قومی تقدیر کا فیصلہ….کالم اسد اللہ غالب

الیکشن کا موسم آیا ہے تو نادرا بحث کا مرکز ہے۔ عمران کہتے ہیں کہ دس ہزار افراد بھی احتجاج کے لئے ان کے دروازے پر بیٹھ جائیں تو وہ اپنے فیصلے نہیں بدلیں گے، اتنے پکے ہیں ان کے فیصلے تو عمران خان جان لیں کہ نادرا کا ڈیٹا بیس ان کے ٹکٹ اجرا کے فیصلوں سے بھی پکا ہے۔ عمران کا الزام یہ ہے کہ نادرا کا ڈیٹا افشا کیا گیا ، اگرچہ نادرا حکام نے عدالت میں کہا ہے کہ ان کا ڈیٹا ا آج تک افشا نہیں ہوا مگر میں ایک جاہل سا صحافی یہ پوچھتا ہوں کہ نادرا میں میرا نام لکھا ہے، میرے والد، میری ماں کا نام بھی لکھا ہے اور گھر کا پتہ لکھا ہے، ہاں یہ بھی لکھا ہے کہ مرد ہوں یا عورت، اور تاریخ پیدائش کیا ہے تو ان معلومات کے افشا ہونے میں عمران خان کو کیا نقصان پہنچتا ہے، مجھے تو نہیں پہنچتا اور اگر نادرا کا سارا ریکارڈ اس کی ویب سائٹ پر عام لوگوں کے لئے آجائے تویہ اچھی بات ہوگی۔ مجھے اپنے ہمسائے کے بارے میں پتہ ہو نا چاہئے کہ وہ کس قماش کا ہے اور کسی حلقے سے الیکشن لڑنے والوں کے پاس ووٹرز ڈیٹا پورے کا پورا ہونا چاہئے، الیکشن کمیشن یہ ڈیٹا ازخود فراہم کرتا ہے تو یہ اس کی ذمے داری ہے، نہ کرے تو یہ جرم بنتا ہے۔
مگر جب نیت صرف فساد کھڑا کرنے کی ہو تو سب کٹ حجتی جائز سمجھی جاتی ہے، یہی کچھ عمران خان کر رہا ہے اور شور مچا رہا ہے کہ نادرا چیئرمین کو نکالا جائے۔ کیوں نکالاجائے، کوئی وجہ نہیں، نادرا چیئر مین کوئی کلرک نہیں ہے کہ آپ اسے کان سے پکڑ کر نکال دیں، حضور! اس کی کوالی فکیشن دیکھیں، تعلیمی صلاحیتیں دیکھیں، پروفیشنل اسکل دیکھیں ، آپ کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی۔
پہلی بات نادرا چیئرمین سفارشی بھرتی نہیں ہوا، ڈیڑھ سو امیدو اروں میں سے تین افراد کو شارٹ لسٹ کیا گیا، ان میں سے ا س شخص کے نام قرعہ نکلا، اس لئے کہ اس کے پائے کا ہنر مند آج اس ملک میں اور کوئی نہیں اور اگر ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ پاکستان سے ہنر مندوں کو بھگانا ہے اور انہیں ملک و قوم کی خدمت کے ارفع ترین مشن کی تکمیل سے روکنا ہے تو پھر بھئی! لگے رہئے مگر میرا فرض بنتا ہے کہ میں اس نابغہ روزگار شخص کا پورا تعارف تو کرا دوں تاکہ ہر کوئی ان کے خلاف پروپیگنڈے کی حقیقت جان سکے کہ ا س میں سچ کیا ہے، جھوٹ کیا ہے۔
نادرا چیئرمین کی سلیکشن کے لئے خالی اسامی کا اشتہار نیویارک ٹائمز کے علاوہ پاکستان کے تمام اہم اخبارات میں شائع کرایا گیا- اس کے لئے کل ڈیڑھ سو افراد نے درخواستیں دیں، جن میں سے تیس بہترین امیدواروں کو انٹرویو کے لئے بلایا گیا- اس انٹرویو کے لئے پانچ افراد کا ایک پینل مقرر کیا گیا جس میں وزارت داخلہ کے دو ایڈیشنل سیکرٹری بھی شامل تھے- انٹرویو کے دوسرے رائونڈ کے لئے آٹھ افراد شارٹ لسٹ کئے گئے – فائنل انٹرویو لینے والے نو افراد کے پینل کی صدارت وفاقی وزیر داخلہ نے کی- اس بورڈ کے دوسرے اراکین میں نادرا بورڈ کے دورکن، سیکرٹری امور داخلہ ، چیئرمین پی ٹی اے، اور انسپیکشن کمیشن، لائ، فنانس اور محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری شامل تھے- اس بورڈ نے تین امیدواروں کے نام منتخب کئے جن سے نادرا میں شاندار کارکردگی کی بنا پر وزیراعظم نے عثمان یوسف مبین کو منتخب کیا۔
عثمان یوسف مبین پاکستان کے ان گنے چنے چند افراد میں سے ایک ہیں جنہیں حقیقی طور پر قوم و ملک کا گراں قدر سرمایہ قرار دیا جاسکتا ہے- آج نادرا جو کچھ ہے اسے یہ مقام دلانے میں عثمان مبین کا کردار بے حداہم ہے- اپنے کام کی بنا پر ہی آج وہ پاکستان کے اہم ترین اداروں میں سے ایک کے سب سے کم عمر سربراہ ہیں- 2002ء میں عثمان مبین نے جی پی اے پانچ کے ساتھ ایچی سن کالج لاہور سے گریجوایشن کی اور ایچی سن کالج کی تاریخ میں شاندار نیا ریکارڈ قائم کرنے کے علاوہ اے لیول کرنے والے دنیا بھر کے طالبعلموں میں اول پوزیشن حاصل کی- دنیا بھر میں اپنے معیار کے لحاظ سے نمبر ایک ادارے ایم آئی ٹی نے انہیں امتحانی نتائج کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی اپنے ہاں داخلہ دے دیا۔ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کا یہی سپوت ہے جس نے اپنی طالبعلمی کے زمانے ہی میں ایم آئی ٹی میں ایک پراجیکٹ پر کام کرتے ہوئے اپنی ٹیم کے دوسرے ارکان کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر انٹرنیٹ پر ای میل کے ایڈریس بنانے کی صلاحیت میں چھ گنا اضافہ کردیا تھا- اگر پہلے تین ارب ایڈریس بن سکتے تھے تو ان کی تحقیق اور کام کے نتیجے میں انٹرنیٹ پر مختلف لوگوں کے لئے اٹھارہ ارب ای میل ایڈریس بنانا ممکن ہوگیا- اسی طرح عثمان مبین نے اپنے چند دوسرے طالبعلموں کے ساتھ ایک پراجیکٹ پر کام کرتے ہوئے یہ ممکن بنا دیا کہ وائر کے ذریعے انٹرنیٹ کے کنکشن حاصل کرنے کے بجائے لوگ براہ راست سٹیلائٹ سے سو گنا زیادہ سپیڈ کے ساتھ انٹرنیٹ کے کنکشن حاصل کرسکیں- ان کی طرف سے اس سلسلے میں سب ٹیکنیکل کام مکمل ہے – اس کو ممکن بنانے کے لئے صرف بین الاقوامی قوانین اور انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والوں سے معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے- عثمان یوسف مبین نے ایم آئی ٹی سے ڈبل گریجوایشن کی اور الیکٹریکل انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی- ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں ڈگری حاصل کرنے سے قبل بہت سے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بھاری معاوضے پر ملازمت کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے اپنے ملک میں واپس آکر قوم وملک کی خدمت کرنے کو ترجیح دی-انہوں نے چار مارچ 2002ء کو وطن واپس آکر نادرا کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر کی حیثیت سے کام سنبھالا- نادرا کو جوائن کرنے کے ایک دن بعد یعنی پانچ مارچ کو ان کی عمر تیئس برس ہوئی- اب تک وہ نادرا میں بہت سے بے حد اہم پراجیکٹس مکمل کر چکے ہیںجس سے نہ صرف پاکستان کے بہت سے کام سہل ہوئے ہیں بلکہ بہت سے دوسرے ملکوں نے بھی ان سے مدد لے کر اپنے اداروں کی کارکردگی کو شاندار بنا لیا ہے- ایک اندازے کے مطابق دنیا کے کم از کم بیس کروڑ افراد براہ راست عثمان مبین کے کام سے استفادہ کررہے ہیں- 2008ء میں انہیں عوامی خدمات کے عوض تمغہ امتیاز دیا گیا- عثمان مبین ایچی سن کالج کے زمانے میں بارہ برس تک مسلسل صدارتی انعام حاصل کرتے رہے ہیں- انہوں نے فاسٹ کا انعام جیتا اور 1996ء میں بنکاک میں پاکستان کی نمائندگی کی- عثمان مبین کے نادرا میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر کا عہدہ سنبھالنے کے وقت نادرا کا ڈیٹا ویئر ہائوس کا کام ایک امریکی کمپنی NCR کے سپرد تھا- انہوں نے یہ کام مقامی طور پر اپنے لوگوں کے سپرد کرکے ادارے کو بھاری اخراجات سے نجات دلائی-ان کی طرف سے متعارف کرائے گئے نئے انتظامات کے تحت شناختی کارڈ ز کی پرنٹنگ کا کام کئی گنا زیادہ تیز ہو گیا- انہوں نے گاڑیوں کو ٹول ٹیکس پلازا پر رکے بغیر ٹیکس ادا کرنے کا نظام ای ٹیگ کے ذریعے متعارف کرایا، اس کے علاوہ سمارٹ شناختی کارڈ، سول رجسٹریشن سسٹم، بینظیر انکم سپورٹ کارڈ، وطن کارڈ، شہریوں کے نقصان کے معاوضہ کا پروگرام، اسلحہ لائسنس،بائیو میٹرک پاسپورٹ، جیسے پروگرام متعارف کراکے ان کاموں کو فول پروف بنانے میں مدد کی- پاکستان کے علاوہ انہوں نے سری لنکا کے لئے سٹیزن رجسٹریشن پراجیکٹ اور شناختی کارڈ کی مینجمنٹ جیسے پراجیکٹ مکمل کئے- سوڈان کے لئے مشین ریڈایبل پاسپورٹ کا پراجیکٹ اورکینیا اور بنگلہ دیش کے لئے ڈرائیونگ لائسنس کے پراجیکٹ مکمل کئے۔
عثمان مبین کے ذاتی کردار کا جائزہ لینا ہو تو آپ ان کے خاندانی بزرگوں پر نظر ڈالیں جوبے حد نیک ، بے لوث اور پرہیز گار لوگ ہیں- ان کی ذاتی زندگی کی جھلکیاں اس رمضان المبارک میں لوگ دیکھ چکے ہیں۔
کیا کسی کوا سکی شکل ناپسند ہے، یا پروفیشنل کردار سے الرجی ہے، ٹی وی پر ان کے خلاف غوغہ آرائی کرنے والوں پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔ عمران خان کو بھی الیکشن کے شفاف ہونے سے غرض ہونی چاہئے۔ باقی رہا ڈیٹا لیک کا مسئلہ تو میری رائے ہے کہ نادراکاسار ا ڈیٹا ہر شہری کی رسائی میں ہونا چاہئے مگر عمران خان کوا س سے کوئی خوف محسوس ہوتا ہے تو بہر حال انہیں الیکشن کے میدان میں انہی لوگوں کاسامنا کرنا ہے جن کا اندراج نادرا کے ریکارڈ میں ہے۔ عمران خان میری مانیں اور یہ مطالبہ کریں کہ ہر پولنگ بوتھ پر نادرا کی مشین پر بائیو میٹرک تصدیق کے بعد ووٹ کی پرچی جاری کی جائے۔ لیجئے جی! یہ مسئلہ تو حل ہوا کہ کوئی جعلی ووٹ بھگتا گیا اور یہ بھی سردردی ختم کہ ووٹر دو ہزار تھے مگر ووٹ تین ہزار بھگتا دیئے گئے۔ عمران مجھے ٹیکنالوجی کا مشیر بنا لیں، مجھے اس میدان میں بائیس برس ہو چلے ہیں۔ پھر دیکھیں کہ کون الیکشن میں دھاندلی کرتا ہے۔