خبرنامہ

ناکہ، ناکہ ہوتا ہے، پلس کا ہو یا ڈاکو کا۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
کلب روڈ کے چوک میں ناکہ ہو تو معصوم اور بھولا بھالا، انعام اللہ نیازی یہی سمجھے گا کہ یہ پلس کا ناکہ ہے، وقت بھی دن دیہاڑے کا ہو تو شک بھی نہیں گزرتا کہ ڈاکو بھائی یہاں ناکہ لگانے کی جرات کر سکتے ہیں۔فیصل ٹاؤن کے چوک میں بھی سرخ بتی پر آپ کار روکیں اور کوئی شخص خواہ سول کپڑوں میں ملبوس ہو تو آْپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ و ہ ڈاکو بھائی ہو گا۔ اور آپ اپنی دکان پر معمول کے کام کاج میں مصروف ہیں تو بھی کوئی مسلح شخص دیکھ کر آپ یہی سوچیں گے کہ یہ کوئی خفیہ والا ہے،وہ آپ کو گولیاں مارے گا، آپ کی دکان میں موجود پانچ اور لوگوں کو بھی گولیوں سے بھون دے گا اور جو نقدی وغیرہپڑی ہے، لے بھاگے گا۔
یہ سب لاہور کی باتیں ہیں، کراچی کی نہیں۔ وہ لاہور جہاں شہباز شریف تیسری یا چوتھی مرتبہ وزیراعلی کے طور پر حکومت کر رہے ہیں مگر جس طرح انسان بوڑھا ہو تا ہے،ا سی طرح حکومتیں بھی بوڑھی ہو جاتی ہیں ، آئین میں لکھ بھی دیا جائے کہ تین مرتبہ سے بھی زیادہ آپ وزیر اعظم یا وزیراعلی بن سکتے ہیں تو آپ کا یا حکومت کاجوبن تو اس آئینی حکم کے تحت واپس نہیں آ سکتا۔ شہباز شریف ان دنوں لندن میں ہیں ، کہا یہ گیا ہے کہ معمول کے چیک اپ کے لئے گئے ہیںؓ مگر معمول کا چیک اپ ان کے اپنے شریف ہسپتال یا قریبی رشتے داروں کے اتفاق ہسپتال میں بھی ہو سکتا تھا، سرکاری ہسپتال تو وزیرا عظم اور وزیر اعلی کے چیک اپ یا علاج کے معیار پر پورے نہیں اترتے، ان میں تو صرف غریب غربا ہی موت کی تلاش میں داخل ہوتے ہیں۔خدا سے دعا ہے کہ وہ شہباز شریف کوصحت کاملہ سے نوازے تاکہ وہ گورننس کی خامیوں اور کوتاہیوں پر قابو پا سکیں،فاٹا ، سندھ ا ور بلوچستان میں گورننس کی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے فوج اور رینجرز کو متعین کیا گیا مگر پنجاب میں فوج اور رینجرز کو پر مارنے کی اجازت نہیں دی گئی، اس لئے یہاں چوروں ڈاکووں ، رشوت خوروں، اٹھائی گیروں ، ٹارگٹ کلرز کو کھلی چھٹی حاصل ہے، وہ ناکہ لگا کر واردات کریں یا ناکے کے بغیر کریں، یہ ان کی صوابدید ہے۔ اور سارا ثواب بھی لوٹنے کی انہیںآزادی حاصل ہے۔
ڈاکو اور پلس میں تمیز مشکل ہو گئی ہے، نوائیو قت کے ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی اور ان کے اہل وعیال کو گھر کے سامنے جن لوگوں نے ہراساں کیا، گالیاں دیں اور ہاتھا پائی کی، وہ پلس والے نہیں تھے تو پلس والوں کے بیٹے ضرور تھے۔ان کے پاس بھی وہی اختیارات ہیں جو ان کے باپوں کو حکومت نے بخش رکھے ہیں۔مجھے رہ رہ کر گورنر میاں اظہر کا دور یا د آتا ہے جب انہیں مختصر عرصے کے لئے لا اینڈ آرڈر کا چارج دیا گیا تو انہوں نے جس کسی پر ہاتھ ڈالا وہ کسی رکن اسمبلی کا ڈیرے دار یا پہریدار نکلا۔اس آپریشن کو ارکان ا سمبلی ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کر سکتے تھے، وہ وزیر اعلی غلام حیدر وائیں کے سامنے واویلا مچانے پہنچ گئے اور وزیر اعظم نوازشریف نے گورنر اظہر سے مخصوص چارج واپس لے لیا، ڈاکو پھر سے آزاد ہو گئے ا ور تب سے آزاد ہیں، میرے گھر ڈاکہ ڈالنے والا اسلام آباد میں ایک مسلم لیگی کے گھر سے گرفتار ہوا تھا اور اسے ضمانت کرانے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔
سعید آسی کے گھر میں بھی چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں ہو چکی ہیں، آپ سوچتے ہوں گے کہ نوائے وقت کا ڈپٹی ایڈیٹر بہت مالدار ہوتا ہے، میرے گھر میں بھی پانچ وارداتیں ہوئیں ۔اصل میں حکومت یا پولیس نوائے وقت سے تنگ آ جائے تو وہ چیف ایڈیٹر کا کچھ بگاڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ، اس لئے نزلہ عضو ضعیف پر گرتا ہے، میرے گھر میں چوری کی ایک سنگیئن واردات ہوئی تو شور مچانے پر پولیس کے پی آرا واپنے باس کا یہ پیغام لائے کہ پچاس ہزار لینے ہیں تو مل سکتے ہیں ورنہ صبر کرو، میں نے کہ آپ چوریاں ہی ا سلئے کراتے ہیں کہ میں آپ سے کوئی معاوضہ وصول کر لوں اور حق گوئی لکھنے والے ہاتھ کٹو ابیٹھوں۔میری ایک گاڑی کی نمبر پلیٹ پر معمولی سی تبدیلی کر کے پولیس والے سال دو سال تک مزے ا ڑاتے رہے، جب یہ کھٹارابن گئی تو اسے چند اینٹوں پر کھڑا کر کے کہہ دیا کہ یہ برآمد ہو گئی ہے۔لیاقت بلوچ کی گاڑی ڈی ایس پی ماڈل ٹاؤن کے تصرف میں رہی، یہ ریکارڈکی بات ہے ، بلوچ صاحب کو یہ گاڑی طاقت کے زور پر واپس چھیننا پڑی۔میرے بیٹے کی موٹر سائیکل حال ہی میں وزیر اعلی کی ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ کے قریب سے اڑا لی گئی۔ تخت لاہور کی رٹ اس قدر محدود ہو جائے تو دور دراز کجا، لاہور شہر کی بھری پری سڑکوں پر کیا لوٹ مار نہیں مچے گی۔وزیرا علی کو پویس کی سستی اور کاہلی کا پورا پورااحساس ہے اور وہ ایک بار پھٹ پڑے تھے کہ اسقدر بجٹ ا ور سہولتیں لینے کے بعد بھی پولیس کی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی تو پھران سے کام لینے کے لئے کوئی اور طریقہ استعما ل کرنا پڑے گا۔مگر صاحبو! جب اسی پولیس کو آپ عمران خان اور وزیرا علی خیبر پی کے ، کے کارکنوں کی پٹائی کے لئے استعمال کریں گے، انہیں یہ آزادی دیں گے کہ وہ کسی کا بھی ٹرالا اور کنٹینر قبضے میں لے سکتے ہیں خواہ اس کے اندر کا سامان گل سڑ جائے مگر کوئی شخص پنجاب اور اسلام آباد میں داخل نہ ہونے پائے تو پھرا س پولیس سے قانون کی پیروی کی توقع عبث ہے۔یہ ہتھ چھٹ پولیس یہی کرے گی جو ہو رہا ہے، سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے والی پولیس چوروں، ڈاکووں، رسہ گیروں، بدمعاشوں، قاتلوں ، قبضہ مافیا کا پیچھا کرنے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بئٹھتی ہے۔ ویسے پولیس میں بھرتی کا معیار کیا ہے، چند برس قبل ڈینگی کی وبا پھیلی اور میرے گھر کے پانچ افرادا سکا شکار ہوئے تو میں نے لکھ کرو اویلا مچایا، اگلے روز علاقے کا تھانیدار آیا ،ا سنے کہا کہ اسے خواجہ سلمان رفیق نے بھیجا ہے تاکہ مریضوں کے علاج معالجے میں مدد کی جا سکے، میں سر پکڑ کر رہ گیا کہ علاج ڈاکٹر نے کرنا ہے یا پولیس انسپکٹر نے۔
حکمرانوں کی طرح ، حکومت بھی ضعیف العمری کا شکار ہو جاتی ہے، پتہ نہیں رنجیت سنگھ اورا کبر بادشاہ کے پا س تواناا ور چوکس رہنے کا کیا نسخہ تھا۔اگر یہ نسخہ ہاتھ لگ جائے تو بے شک ہمارے موجودہ حکمران ہماری آئندہ نسلوں پر بھی اپنا سایہ برقرار رکھیں۔ ورنہ انہیں اپنے گھر سے کسی کو سکھا پڑھا کر آگے لے آنا چاہئے جیسے بھٹو نے بے نظیر کی تربیت کی تھی، جیسے زرداری صاحب بلاول کی تربیت کر رہے ہیں، میرے خیال میں حمزہ اور مریم کی ٹریننگ مکمل ہو چکی ہے، وہ آ گے آئیں اور بزرگوں کو آرام کا موقع بہم پہنچائیں یا پھر بزرگ حکمران اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور ڈاکووں کو نکی ڈالیں جو کلب روڈ، فیصل ٹاؤن،اور ماڈل ٹاؤن تک میں شیروں کی طرح وارداتیں کرتے ہیں۔ جو پولیس طاہر القادری کے پرامن کارکنوں کو بھون کر رکھ دیتی ہے، اسے ڈاکووں کا قلع قمع کرنے کاٹاسک دیا جائے تو مجھے کامل امید ہے کہ یہی پولیس اس ٹاسک پر پورا اترے گی، مگر پہلے حکمرانوں کی ترجیحات تو بدلیں، مخالفیں کا صفایا کرنا یاڈاکو گردی کا صفایا کرنا ، دونوں میں سے پولیس ایک کام کر سکتی ہے اور بہتر طور پر کر سکتی ہے، دونوں کام ایک ہی پولیس سے بیک وقت نہیں لئے جا سکتے۔