خبرنامہ

ناگہانی یلغار کاوقت گزر چکا: جنرل مصطفی۔۔اسداللہ غالب

میڈیا کی طرف سے جنگی جنون کو فروغ دیا جا رہا ہے مگر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اوڑی حملے کو نو دن گزر گئے،اب بھارت کی طرف سے ناگہانی یلغار کا امکان ختم ہو چکا ہے، یہ جواب تھا جنرل غلام مصطفی کا میرے ا س سوال کے جواب میں کہ کیا اب بھی ہمیں کسی ناگہانی یلغار کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
جنرل صاحب سے گفتگو سوال جواب کی صورت میں پیش کرتا ہوں ۔
سوال۔ تو کیا اب بھارت کی طرف سے ہر خطرہ ٹل گیا۔
جواب: نہیں، ایسا ہر گز نہیں، وہ نچلا نہیں بیٹھے گا، اپنے عوام کی تسلی کے لئے کچھ ضرور کر گزرے گا۔
س: کیا کر گزرے گا۔
ج:وہ آزاد کشمیر کی سرحد پر پاکستان کے کسی فوجی ٹھکانے کو توپوں کی گولہ باری یا کسی میزائل یا کسی ہیلی بارن آپریشن کے ذریعے نشانہ بنا کر یہ شور کر سکتا ہے کہ اس نے درا ندازوں کے تربیتی اڈے کو تباہ کر دہا۔
س: کیا ہمیں اس خطرے کا احساس ہے۔
ج؛ بالکل ہے، پوری طرح ہے اور ہم اس کی راہ روک سکتے ہیں۔
س: کون کون سے آپشن بھارت کے لئے ختم ہو چکے۔
ج:بھارت اوڑی حملے کے روز یاا گلی رات ہی کو پاکستان اورآزاد کشمیر کو ناگہانی یلغار کا نشانہ بنا سکتا تھا۔ اس کے سامنے کئی چوائس تھے کہ پاکستان کی کسی فوجی چھاؤنی کو نشانہ بنائے، یا شوقیہ طور پر کوئی میزائل داغ دے یا لشکر طیبہ اور جیش محمد کے مراکز پر یلغار کرے، وہ کہیں کمانڈوز اتارنے کی کوشش بھی کر سکتا تھا۔
س: توا س نے ایساکیوں نہیں کیا۔
ج: پاکستان میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اوڑی حملے کے شور شرابے میں اٹھارہ ستمبر ہی کو کورکمانڈرز کو مشاورت کے لئے جی ا یچ کیو مدعو کر لیا تھا۔ ان کا باقاعدہ اجلاس تو اگلے روز ہوا اورا س کی خبر کہیں شام تک ریلیز ہوئی مگر کور کمانڈرز میٹنگ سے بھارت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ پاکستان نے جوابی تیاری کر لی ہے۔اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ ا س کا ہر وار خطا جائے گا اور پاک فوج اسے بری طرح ناکام بناد ے گی۔
س: مگر ایبٹ آباد کے واقعے میں تو ہمارا موقف تھا کہ ہمارے راڈار کام نہیں کر رہے تھے، اب ایسی کیا جوہری تبدیلی آ گئی ہے۔
ج: میں پوری تفصیل میں نہیں جا سکتا، کیونکہ دفاعی نظام کی تشکیل میں خود میرا بھی کردار ہے اور میں اپنے حلف کا پابند ہوں مگر خاطر جمع رکھئے کہ ہماری پوری سرحد بلکہ اس کاایک ایک چپہ پوری طرح راڈرز سے کورڈ ہے اور کوئی اطلاع ملنے پر ایک لمحہ ضائع کئے بغیر جوابی کاروائی کی جاسکتی ہے۔
س:آپ کامطلب ہے کہ مشرقی سرحد پر بھارت کی فوجی چھاؤنیوں اور فضائیہ کے اڈوں پر ہماری نظر ہے۔
ج: آپ نے بہت محدود علاقے کا ذکر کیا، بھارت کا کونہ کونہ ہماری نظروں میں ہے ا ور ہمارے دفاعی نظام کی زد میں ہے۔
س:اس صورت میں بھارت اور کیا سوچ سکتا ہے۔
ج:بھارت دھوکے اور فریب کی چالیں چل رہا ہے، کبھی کہتا ہے، آؤ خطے سے غربت ختم کریں، کبھی کہتا ہے کہ کشمیر کو بھول جاؤ اور سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کر لیتے ہیں۔
س: کیا یہ درست ہے کہ بھارتی آرمی چیف نے مودی سے کہا ہے کہ ہم پاکستان سے نہیں لڑ سکتے یا یہ کہ بھارتی فوج بزدلی کا راستہ اختیار کر رہی ہے اور بڑی تعداد میں چھٹیوں کی درخواستیں دی جا رہی ہیں۔
ج: یہ نفسیاتی جنگ کے حربے ہیں، مگر ان میں کوئی حقیقت نہیں۔
س:پاکستان میں ماحول ٹھندا کیوں ہے۔
ج: یہ بات تشویش کاباعث ہے کہ بھارتی وزیر اعظم تو پل پل نئی میٹنگ کر رہے ہیں، وہ کابینہ سے مشاورت کر چکے ہیں۔فوجی سربراہوں سے مل چکے ہیں، قومی سلامتی کے خصوصی اجلا میں شرکت کر چکے ہیں اور عوامی سطح پر بھی متحرک ہیں مگر ہمارے ہاں سرکاری ا ور عوامی سطح پرٹھنڈ ہی ٹھنڈ نظر آتی ہے، وزیر اعظم الٹااپنے دورے میں توسیع کر چکے ہیں، اس سے عوام بے حد پریشان ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم کی دھمکیوں یا کسی شرارت کا جواب کون دے گا، مودی نے یہ کہہ کر ہمارے آرمی چیف کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے کہ اس کا آرمی چیف بولے گا نہیں، ایکشن کرے گا۔
س:ماضی میں جب بھی کشیدگی پیدا ہوئی، یہ پاکستان ہی تھا جس نے گردن جھکائی اور ما حول کو ٹھنڈا کیا، ضیاا لحق مونچھیں نیچی کر کے بھارت میں ایک کرکٹ میچ دیکھنے چلاگیا، اس کرکٹ ڈپلومیسی سے کشید گی ختم ہو گئی۔، دو ہزار دو میں بھی یہ مشرف تھے جوچین کا لمبا سفر کر کے کٹھمنڈو پہنچے اور انہوں نے واجپائی سے مصافحہ کرنے مں پہل کی۔کیا ایک بار پھر ہمی کو بھارت سے ہاتھ ملانے میں پہل کرنا ہوگی۔
ج: ضیا الحق بھارت ضرور گئے تھے مگر یہ بتانے کہ راجیو صاحب، فوج واپس نہ کی تو میں واپس جا کر بٹن دبا دوں گا، راجیو کو پتہ تھا کہ یہ کس چیز کا بٹن ہے۔ دو ہزار دو میں مشرف نے مصافحہ میں پہل ضرور کی ، یہ سفارتی عمل تھا لیکن اس سے پہلے پاکستان نے ایک بیلسٹک میزائل کا تجربہ عین اسوقت کیا جب ماسکو میں بش اور پوٹن کی ملاقات ہو رہی تھی، اسی روز بش اور پوٹن نے بھارت ا ور پاکستان کو فون کر کے فوجیں واپس چھاؤنیوں میں لے جانے کا مطالبہ کر دیا تھا۔آج بھی امریکہ کہہ رہا ہے کہ دونوں ملک بات چیت سے مسائل طے کریں۔
س: چین کا رویہ کیا ہوگا،کہا جاتا ہے کہ چین کسی کی جنگ نہیں لڑتا۔ بھارت کے خلاف پاکستان کو چین سے کیا مدد مل سکتی ہے،
ج: چین نے یہ تاثر ختم کر دیا ہے کہ وہ کسی کی جنگ نہیں لڑتا، اس وقت چینی فوج روسی فوج کے ساتھ مل کر بشار الاسد کو بچانے کے لئے شام میں لڑ رہی ہے۔
س: مگر پاکستان میں چینوں کی حفاظت کے لئے ہم فوج کھڑی کر رہے ہیں، اسے کیا پڑی کہ وہ ہمارے لئے کوئی تردد کرے۔
ج: پاکستان میں چین کا جو پھیلاؤ ہے، اس قدر بڑا پھیلاؤ چین نے کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں کیا۔ سی پیک اور گوادر کی تکمیل کے لئے وہ سر دھڑ کی بازی لگا سکتا ہے، یہ سی پیک ہمارا مفاد تو ہے مگر اصل مفاد چین کا ہے۔ وہ اپنے مفادکی حفاظت کرنا جانتا ہے ۔
س: کہا جا تا ہے کہ بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری اصل میں جنگ روک رہی ہے، یہ سرمایہ کار خطے میں جنگ نہیں چھڑنے دیں گے۔
ج: یاد رکھئے، جنگ کسی حساب کتاب سے نہ شروع ہوتی ہے، نہ ختم ہو تی ہے، اگر حساب کتاب کی اہمیت ہوتی تو دنیا میں کوئی جنگ نہ چھڑتی کیونکہ جنگ سے فریقین کو برابر کا نقصان پہنچتا ہے۔
س: پاکستان میں پہلی بار روسی فوج مشقوں کے لئے آئی ہے، کیایہ فیکٹر پاکستان کے لئے مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔
ج: یہ محض ایک محدود سی شرکت ہے مگرا س کی علامتی اہمیت بہر حال بہت زیادہ ہے۔ویسے بھارت کے ساتھ روس کے روابط کئی عشروں پر محیط ہیں، اس قدر عجلت میں روس کی پالیسی نہیں بدل سکتی۔
س: تو نتیجہ کیا نکلا کہ جنگ حساب کتاب کے پیش نظر شروع نہیں ہو گی، جنگی جنون سے شروع ہو گی۔جو انتہا پر ہے۔
ج؛: جنگ کا وقت گزر چکا۔ بھارت اپنا وہ موقع کھو چکا جسے ناگہانی یلغار کہتے ہیں، اب وہ ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ ادھر ادھر کی ہانک رہا ہے مگر اسے اپنے عوام کے سامنے فخر سے سینہ پھلانے کے لئے کوئی نہ کوئی کاروائی ضرور کرنی ہے اور ہم اسے بھی روکنے پر قادر ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے، ہم نے پینسٹھ اور اکہتر سے بہت کچھ سیکھا، آج پاک فوج بالکل نئے انداز سے میدان میں اترے گی اور اس کی یہی صلاحیت کشیدگی ختم کرانے میں اہم کردارا دا کرے گی۔