خبرنامہ

نتائج مسترد، تحریک چلانے کی دھمکی….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نتائج مسترد، تحریک چلانے کی دھمکی

توقع کے مطابق الیکشن کی ساکھ کو کوئی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں سوائے پی ٹی آئی کے اور یہی کہا جا رہا تھا کہ میدان ایک پارٹی کے لئے ہموار کیا جارہا ہے۔ اس صورت حال کاذمے دار کون ہے۔ نگران حکومت کہتی ہے کہ اس نے الیکشن کروائے۔ الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ اس نے الیکشن کروائے، چیف جسٹس کہتے ہیں کہ انہوںنے اپنا دعوی پورا کر دکھایا اور آرمی چیف کہتے ہیں کہ الیکشن ان کی مدد سے ممکن ہو سکے۔ الیکشن کا کریڈٹ لینے والے اتنے زیادہ مگر الیکشن شکایات اور دھاندلی کاا لزام کوئی اپنے سر لینے کو تیار نہیں، ایک خدشہ یہ تھا کہ غیر ملکی مداخلت ہو سکتی ہے۔ ممکنہ طور پر بھارت نے مداخلت کی ہو گی کہ وہاں سے عمران خان کو ویلکم کرنے کی آوازیں زیادہ ا ٓ رہی ہیں۔ امریکہ نے اس الیکشن کو خوش آئند قرار دیا ہے ، یورپی یونین نے بھی یہی کہا ہے اور برطانیہ تو اچھل اچھل کر پاکستانی الیکشن کے گن گا رہا ہے۔ ان میں سے بھی کوئی طاقت ایسی ہو گی جس نے الیکشن میں مداخلت کی ہو اور اب پھل ملنے پر خوشی اور اطمینان کاا ظہار کیا جا رہا ہو۔ الیکشن کمیشن کاکہنا ہے کہ نتائج نہ ملنے کی شکایات غلط ہیں ، عمران کہتے ہیں کہ جو حلقہ چاہیں کھلوا لیں۔فوجی ترجمان نے اپنی سابقہ میڈیا بریفنگ کا اختتام اس جملے پر کیا تھا کہ اب چھبیس جولائی کو ملاقات ہو گی، یہ ملاقات کیوںنہیں ہو سکی۔ہو جاتی تو دھاندلی کے الزامات پرفوج کا رد عمل سامنے آ جاتا، سابقہ بریفنگ میں میڈیا نے پری الیکشن رگنگ کے تمام سوالات کئے تھے، فوجی ترجمان نے ان سب کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ پاکستان میںکونسا الیکشن ہے جسے خوشدلی سے قبول کیا گیا ہو۔ میرے خیال میں یہ جواب مناسب نہیں تھا ، فوجی ترجمان کو اپنی بات کرنا چاہئے تھی۔ اور ان الزامات کی واضح تردید پر اکتفا کرنا چاہئے تھا ، جوابی الزام نہیں عائد کرنا چاہئے تھا۔
میں لکھ لکھ کر تھک گیا کہ نتائج تیار ہیں ، پولنگ تو صرف ایک رسمی کارروائی ہے اور عوام کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کے مترادف ، چلئے پولنگ بھی ہو گئی مگر ا س روز نتائج کے اعلان میں تاخیر اور مصدقہ نتائج ایک فارم پر لکھ کر دینے سے گریز کیا گیا۔ پولنگ کی رفتار جان بوجھ کر سست رکھی گئی۔ اس پر سیاسی جماعتوںنے بیک آواز مطالبہ کیا کہ پولنگ کے وقت میں اضافہ کیا جائے جسے الیکشن کمیشن نے یکسر مسترد کر دیا۔
سیاسی جماعتوں کی اکژیت ایک اے پی سی میں اکٹھی ہوئی، سر جوڑ کر مشاورت ہوئی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے شرکت نہ کی۔ اے پی سی نے اعلان کیا کہ الیکشن مسترد، الیکشن کمیشن کے استعفے کا مطالبہ۔ نئے الیکشن کا بھی مطالبہ اور کامیاب ارکان کاحلف نہ اٹھانے کا اعلان۔
اے پی سی کے ا س اعلامیئے میں کھنڈت ڈالنے میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی پیش پیش ہیں ، صرف ا سلئے کہ ایک کو پنجاب میں اور دوسری کو سندھ میں حکومت ملنے کی آس ہے۔شہباز شریف کوسوچنا چاہئے کہ انہوں نے تو الیکشن کے بعد نصف شب کو الیکشن کے نتائج مسترد کر دیئے تھے تو اب اسی الیکشن کے نتائج کا حلوہ کھانے کی خواہش کیوں رکھتے ہیں، صرف اس لئے کہ ان کو عمر کے آخری حصے میں اپنے بیٹے کو تاجدار لاہور بنانے کا خواب پورا ہوتا نظرا ٓ رہا ہے مگر شہباز شریف کو ذرا سی ہمت کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے کہ انہیں تین سیٹوں سے بری طرح شکست بھی دلوائی گئی اور پارٹی کا ملک گیر صفایا کر دیا گیا ہے، یہی کچھ بلاول بھٹو کو سوچنا چاہئے، سندھ کی حکومت ملنے پر ان کی رال تو ٹپک رہی ہے، مگر سندھ کہیں نہیں جاتا، دوبارہ الیکشن ہوئے تو یہ حکومت پھر بلاول ہی کی جھولی میں گرے گی مگر ملک بھر میں پیپلز پارٹی کا جو حشر نشر کر دیا گیا ہے،اس پر بلاول کو گریبان میں ضرور جھانکنا چاہئے۔ اس کا دامن لیرو لیر کر دیا گیا ہے مگر اسے پارلیمانی عمل میں حصہ لینے کا شوق چرایا ہے، دوبارہ الیکشن ہو گئے تو بلاول پھر قومی اسمبلی میں پہنچ جائیں گے مگر لیاری کی شکست کا داغ تو شاید وہ دوبارہ الیکشن ہونے پر دھو ہی لیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کو ا سقدر سیٹیں دے دی گئی ہیں‘ لگتا ہے کہ مشرقی پنجاب کے ووٹروںنے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ آخر پنجاب میں تحریک انصاف نے کیا جنت کے پھول کھلائے کہ اسے اتنی بڑی اکثریت دلوا دی گئی۔دھاندلی ا ور کیا ہوتی ہے۔
77ءمیں بھٹو کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے تحریک چلائی تھی اور حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ آج بھی ملکی اپوزیشن کو اسی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے ورنہ وہ طاقتیں جو الیکشن میںمداخلت کی شوقین ہیں، ان کا راستہ نہیں روکا جا سکے گا۔ ایسے مواقع کبھی کبھی آتے ہیں اورا ٓتے ہیں تو قدرت کی طرف سے آتے ہیں ، ان کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا گیاتو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو تاریخ بھی پائے حقارت سے ٹھکرا دے گی۔
اپوزیشن کے اسی بٹوارے کو دیکھتے ہوئے عمران خان کی اے ٹی ایم مشینیں پوری طرح حرکت میں ہیں۔ جہانگیر ترین کا طیارہ شہر شہر اتر رہا ہے اور آزاد امیدواروں کا مال غنیمت سمیٹ کر انہیں بنی گالہ پہنچا رہا ہے، ایک طرف عمران خان نے کہا ہے کہ وہ گھر سے کرپشن کے احتساب کو شروع کرے گا۔ دوسری طرف عدلیہ کے فیصلے سے نااہل ہونےوالے اور صادق و امین نہ ہونے کی مہر لگوانے والے جہانگیر ترین کوکھلی چھٹی ہے کہ وہ مویشی منڈی میں خریدو فروخت کرتا پھرے۔اسی طرح پرویز الہی جو عمران خان کا طرف دار ہے، وہ بھی اپنی گنتی پوری کرنے میںمصروف ہے۔ یہی ہتھکنڈے تو ملکی سیاست میں ہمیشہ سے استعمال کئے گئے ، کبھی میریٹ ہوٹل میں مویشیوں کی منڈی لگی، کبھی انہیں ہانک کر چھانگا مانگا کے جنگل لے جایا گیا، کبھی مالم جبہ کی سیر سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا گیا اور کبھی مہران بنک کا پیسہ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی نے پانی کی طرح بہایا۔ یہی کچھ عمران خان نے کرنا ہے تو پھر تبدیلی کہاں ہے، نیا پاکستان کہاں ہے۔سوشل میڈیا پر ایک کارٹون وائرل ہو رہا ہے جس کا کیپشن ہے کہ تھیلے مت کھلوانا ورنہ ان کے اندر سے پراناپاکستان نکل آئے گا۔
اس الیکشن میں سیاسی جماعتوںنے جوچیخ و پکار کی ہے اس کی وجہ صاف ظاہر ہے اور اس کے لاڈلے کے لاڈلوں کو بھی جتوایا گیا ہے۔خیبر پی کے میں اس کی کوئی کارکردگی نہیں ،ایک ارب درخت لگانا بڑ ہانکنے کے مترادف ہے اور اگر یہ لگائے بھی گئے تو ان سے عام آدمی کو روٹی کیسے ملی۔ دوائی کیسے ملی۔تعلیم کیسے ملی، ٹرانسپورٹ کیسے ملی۔پشاور میں جنگلہ بس بنانے کا ادھورا منصوبہ کھنڈرات پر مشتمل منصوبہ کونسی کارکردگی ہے کہ صوبے میں دو تہائی اکثریت دے ڈالی۔پنجاب میں شہباز شریف کے کارنامے گننے بیٹھو تو گن نہ سکیں، چھوڑیں جنگلہ بس کو یہ جو بجلی کے منصوبے لگے، اس پر تو شہباز شریف کو الیکشن سویپ کر لینا چایئے تھا مگر ان کو شکست سے دوچار کر دیا گیا، پری الیکشن رگنگ کا تو ریکارڈ قائم کیا گیا، پارٹی لیڈر اور وزیراعظم نااہل اور پھر قید، اس کی بیٹی بھی پھر قید۔ اس کا داماد نااہل ا ور پھر قید، کئی پارٹی لیڈر نااہل اور پھر قید۔ جو باقی بچے ہیں ،وہ اگلے چند دنوںمیں جیل بھجوا دیئے جائیں گے۔ مخالفوں سے انتقام نہ لینے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
ملک کی ٹاپ کی سیاسی قیادت کو چن چن کر ہروایا گیا، جس طرح روس نے بڈ بیر کے اڈے پر سرخ نشان لگا دیا تھا، اسی طرح شاید روس کی اسی ٹیکنالوجی نے پاکستان کی قومی قیادت کے گرد سرخ دائرے لگا دیئے اور وہ ایک کے بعد ایک سبھی ہروا دیئے گئے، جیسے کوئی سرخ آندھی چلی ہو۔ الیکشن کروانے والے بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہوں گے کہ کچھ مصالحہ زیادہ لگ گیا۔ ایک دہشت گرد نے آسمانوں سے پیغام بھیجا تھا کہ اس کی بیلٹ میں بارود کچھ زیادہ ہی بھر دیا گیا، وہ جنت سے آگے نکل گیا۔ یہی کچھ الیکشن میںہوا، مولانا فضل الرحمان نے شکست دینے والی طاقتوں کو چیلنج کیا ہے کہ اب عوام کی طاقت بھی دیکھ لیں۔ انہوںنے بلاجھجک یہ الزام عائد کیا ہے کہ الیکشن عملہ فوج نے یرغمال بنا لیا تھا۔ اس پر فوج کا تسلی بخش ردعمل فوری، بلاتاخیر آ جانا چاہئے۔
میری جچی تلی رائے میں الیکشن کمشن اس قدر تحفظات، شکوک وشبہات کی وجہ سے اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھا ہے۔
٭٭٭٭