خبرنامہ

نواز شریف سے میرے تعلقات کی طوطا مینا…..اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نواز شریف سے میرے تعلقات کی طوطا مینا…..اسد اللہ غالب

کیا ہی اچھا ہوتا کہ ضیا شاہد نے نواز شریف کی کہانی لکھنا شروع کی ہے تو وہ تہلکہ مچانے کے لئے اس سلسلے کا آغاز اس دھماکہ خیز کہانی سے کرتے کہ سیتا وائٹ کے خلاف طوفان کیوں کھڑا کیا گیا‘ کس نے کھڑا کیا‘ کن مقاصد کے تحت کیا اور کیا اس پروپیگنڈے سے عمران کی سیاست اور ذات کو کوئی جھٹکا لگا یا نہیں اور سیتا وائٹ سے عمران کا کوئی تعلق تھا یا نہیں۔
ضیا شاہد نے میری تصویر کشی کرتے ہوئے مجھے اپنا حاشیہ بردار، طفیلیہ اور پینڈو کہا ہے اور بار بار میرے گائوں فتوحی والا کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ اس سے میری اور میرے گائوں کی تضحیک کی بو آتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ میں پینڈو تھا، پینڈو ہوں اور پینڈو رہوں گا۔ مگر کیا خود ضیا شاہد واشنگٹن سے لاہور تشریف لائے تھے۔ میرے گائوں کا تذکرہ مولانا غلام رسول مہر کی تحریر کردہ تین جلدوں پر محیط تاریخ مجاہدین میںموجود ہے، عبداللہ ملک اور مولانا اسحاق بھٹی نے قصوری خاندان پر الگ الگ کتابیں لکھیں‘ ان میں میرے گائوں کا تذکرہ شامل ہے مگر کیا ضیا شاہد کی جنم بھومی کے بارے میں کوئی جانتا ہے۔
نواز شریف ا س ملک کے سیاسی لیڈر ہیں۔ ہر صحافی کی طرح میرا بھی ان سے رابطہ رہا۔ میں ضروری سمجھوں گا تو خود اس موضوع پر قلم اٹھا سکتا ہوں مگر ان دنوں ضیا شاہد نے نوازشریف سے اپنے تعلقات پر کالموں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے‘ پہلے چھ کالم میری ذات کے گرد گھومتے ہیں۔اس کی وجہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ ان کالموںمیں میرے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ احادیث کے بارے میں امام بخاری نے راوی کی دیانت اور صداقت کا ایک معیار مقرر کیا تھا۔ہر راوی کی صداقت کو کسی نہ کسی معیار پر جانچا جاتا ہے‘ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ ایک بار ان کے اخبار کے مالک انہیں لے کرگورنر جیلانی کے پاس گئے ا ور انہوں نے یہ ہدایت کی کہ نواز شریف کوہر اخباری فورم میں بلایا جائے‘ وہ خود اخبار میں ان کی خبریں اور تصویریں گنا کریں گے۔ گورنر جیلانی سے سوال کیا گیا کہ آپ نواز شریف کو کیا بنانا چاہتے ہیں تو جواب ملا کہ پہلے تو وزیر خزانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ضیا شاہد نے لکھا ہے کہ اس کے بعد انہوںنے ہر اخباری فورم میںنوا زشریف کو مدعو کیا۔ اس حوالے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گورنر جیلانی سے یہ ملاقات نواز شریف کے وزیر خزانہ بننے سے قبل ہوئی۔ مگر حقائق کے مطا بق اس وقت نہ تو ضیا شا ہد اس اخبار کا حصہ بنے تھے‘ نہ اس کا فورم وجود میں آیا تھا اور در حقیقت ضیا شاہد ان دنوں نوائے وقت لاہور میں رہے یا نوائے و قت کراچی میں، یہ سلسلہ 1984ء میں ختم ہوا جبکہ نواز شریف پانچ برس سے صوبے میں وزیر خزانہ کے طور پر کام کر رہے تھے۔
ضیا شاہد جب تک اردو ڈائجسٹ میں رہے‘ میری ان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی‘ ان کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ وہ مجھے نوائے وقت میں لے کر آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے برادرم مجیب الرحمن شامی نے پیغام دیا تھا کہ جناب مجید نظامی کو میگزین ایڈیٹر کی تلاش ہے، قیوم اعتصامی ادارہ چھوڑ گئے تھے۔ میں اگلے ہی روز نظامی صاحب سے ملاا ور کام کرنا شروع کر دیا‘ نظامی صاحب اس کے فوری بعد بوسٹن چلے گئے جہاں ان کا پہلا بائی پاس ہوا‘ واپس آئے تو مجھے تقرری کا لیٹر ملا اور وہ اسی تاریخ سے تھا جب انہوںنے مجھے ادارے میں کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ میں برادرم مجیب شامی کا زندگی بھر احسان مند رہوں گا کہ انہوںنے مجھے میرے مرشد مجید نظامی کی راہ دکھائی اور ڈیلی جرنلزم کے پیشے میں شامل ہونے میں مدد دی۔
ضیا شاہد کا اگلا دعویٰ یہ ہے کہ وہ نوائے وقت چھوڑ کر دوسرے اخبار میں گئے تو میں بھی پیچھے چلا گیا‘ یہ بھی خلاف واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جناب مجید نظامی 1984ء میں ایک بار پھر چیک اپ کے لئے بوسٹن گئے تو اگلے ہی روز میرا تبادلہ کراچی کر دیا گیا اور میری جگہ ضیا شاہد کو میگزین ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا‘ ٹرانسفر لیٹر میں مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر کراچی پہنچوں اور نئی ذمے داریاں سنبھالوں۔ میں نے انتظامیہ سے کہا کہ صرف ایک روز پہلے ضیا شاہد کو کراچی سے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے عہدے سے ہٹا کر واپس لاہور بلایا گیا ہے‘ اگر انہیں میگزین ایڈیٹر ہی بنانا تھا تو انہیں واپس نہ بلاتے۔ انتظامیہ نے میری بات سنی ان سنی کر دی اور میں ایک ماہ کی چھٹی لے کر گھر بیٹھ گیا کہ نظامی صاحب واپس آئیں گے تو ان سے بات کروں گا‘ مگر نظامی صاحب کا قیام لمبا ہو گیا۔ میں بے روزگار تھا‘ بیوی بچے فاقہ کشی سے تنگ آ کر ننھیال چلے گئے تھے‘ ناچار میںنے دوسرا اخبار میگزین ایڈیٹر کے طور پر ہی جوائن کر لیا مگر چند ہی روز بعد ضیا شاہد بھی وہاں آ گئے۔ ان کے ذمے فورم تھا۔ اسی سال ضیا الحق نے ریفرنڈم منعقد کروایا تو مجھے اضافی ذمے داری کے طور پر اس کی کوریج کا حکم ملا‘ بعد میں مجھے سیاسی اور پھر الیکشن سیل کا بھی سربراہ بنا دیا گیا اور الیکشن کے بعد وزیراعلیٰ بننے کی دوڑ شروع ہوئی تو اسے بھی میںنے ہی دفتری ڈیوٹی کے طور پر کور کیا۔ نواز شریف کا میں نے پہلا اخباری انٹر ویو ریفرنڈم کے موضوع پر کیا ‘ یہ اس روز چھپا جب لاہور کے باغ جناح میں ضیا الحق نے ریفرنڈم کا جلسہ کیا۔ اس دوران کبھی نواز شریف اخباری فورم میں نہیں آئے۔
ضیا شاہد کی یہ بات بھی درست نہیں کہ حلف لینے کے چند روز بعد نواز شریف نے سیکرٹریٹ جانے کا فیصلہ کیا اور میں بھی ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا۔ درست بات یہ ہے کہ جیسے ہی نواز شریف نے حلف لیا‘ وہ گاڑی میں سوار ہو گئے‘ اسے اختر رسول ہی چلا رہے تھے مگر گاڑی کے آگے پیچھے کوئی پروٹوکول یا سکیورٹی کا قافلہ نہیں تھا۔ اس گاڑی کی پچھلی سیٹ پر میں اور ضیا شاہد بھی موجود تھے۔ مجھ سے ضیا شاہد نے موجودہ کالموں کا سلسلہ لکھنے سے قبل کہا تھا کہ میں نے سیکرٹریٹ جا کر اس کمرے میں بطور میڈیا ایڈوائزر بیٹھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جس میں حنیف رامے کے میڈیا ایڈوائزر فتح محمد ملک بیٹھا کرتے تھے۔ میںنے ضیا شاہد کو جواب دیا کہ وہ میرے بارے میں غلط دعویٰ کر رہے ہیں‘ البتہ بعد میں چودھری غلام رسول اور ڈاکٹر طاہر القادری نے مجھے ایک فیصلے کی اطلاع دی کہ مجھے میڈیا ایڈوائزر بنایا جا رہا ہے تو میں نے بار بار کے رابطے پر یہ ملازمت لینے سے انکار کیا تھا‘ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں نوکری کرنے کے حق میں نہیں ہوں بلکہ میرے الفاظ تھے کہ میں کلرک بننے کے لئے پیدا نہیں ہوا۔ ضیا شاہد نے طعنہ دیا ہے کہ کیا میںنے مختلف اخبارات میں نوکری نہیں کی اور مجھ سے سوال کیاہے کیا مجھے ان اخبارات کا مالک بنایا گیا تھا تو میرا جواب یہ ہے کہ میںنے کلرکی سے انکار کیا تھا اور جس ادارے نے مجھے کلرک بنانے کی کوشش کی‘ میںنے اسے خیر باد کہہ دیا کہ کلرکی میری سرشت میں نہیں ہے۔
میں ضیا شاہد کے ایک ایک لفظ‘ ایک ایک کومہ‘ ایک ایک فل سٹاپ کی تردید یا وضاحت ضروری نہیں سمجھتا ‘ صرف دیگ کے چند دانے چکھ کر آپ بھی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ضیا شاہد نے کس حد تک میرے بارے میں سچ لکھا ہے۔ تاریخ نویسی ا نتہائی نازک اور حساس معاملہ ہے۔ خاص طور پر جب آپ ایسے لوگوں کے بارے لکھ ر ہے ہوں جن کے اپنے ہاتھ میں بھی قلم ہو اور وہ تردید یا وضاحت کر سکتے ہوں۔
ضیا شاہد نے ملکی اور قومی تاریخ کے ایک اہم ترین کردار نواز شریف پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ وہ نواز شریف کے سیاسی اور حکومتی کردار کا جائزہ پیش کریں۔ میرے جیسے راستے میں کھڑے کرداروں کو بھول کر ایک مؤرخ بن کر لکھیں۔ حقیقت نگاری کریں اور آج کے حالات میں جب الیکشن سر پہ کھڑے ہیں اور نواز شریف کی کردار کشی ہر طرف سے ہو رہی ہے تو عوام کے سامنے نواز شریف کا اصلی چہرہ سامنے لائیں‘ ایک دن عمران خان کو دعوت میں مدعو کرتے ہیں اور اس کے گن گاتے ہیں‘ دوسرے دن نواز شریف کی شان میں قلم اٹھا لیتے ہیں۔ اگر انہوںنے قلم اٹھا ہی لیا ہے تو بتائیں کہ جب وہ نواز شریف کے ا سقدر قریب تھے کہ ان کی جماعت کے اعلیٰ عہدیدار تک بن گئے تو اس دوران جاگ پنجابی جاگ‘ سیتا وائٹ‘ مہران گیٹ‘ رضی فارم‘ ارکان ا سمبلی میں نئی گاڑیوں کی چابیوں کی تقسیم اور پارٹی کے پہلے باقاعدہ اخبار کی اشاعت اور پھر اچانک تحریک انصاف کی شروعات کی تفصیلات کیا ہیں اور ان میں خود جناب ضیا شاہد کا بطور سینئر مسلم لیگی لیڈر یا صحافی کیا کردار رہا؟ تاریخ نویسی واقعی اتنا آسان کام نہیں ہے۔ بالکل نہیں ہے جناب۔
مجھ پر ایک الزام یہ عائد کیا گیا ہے کہ مجھے نوا ز شریف کی قربت کے باوجود پیسہ کمانے کا ہنر نہیں آیا اور میں آج بھی پانچ مرلے کے ایک مکان میں مقیم ہوں‘ میں واضح کر دوں کہ یہ گھر بھی میرا نہیں‘ یہاں میں ایک پے انگ گیسٹ کے طور پر رہتا ہوں دس برس سے نچلے پورشن میں رہائش اور دفتر کا کرایہ ادا کرتا ہوں اور کچن کا حصہ بھی برداشت کرتا ہوں۔ دوسرا مجھے یہ علم نہیں کہ صحافت کا پیشہ کب سے مال بنانے کا ذریعہ ٹھہرا اور اگر میں مال نہیں بنا سکا تو خود ضیا صاحب نے کس قدر مال بنایا ہے اور اگر نہیں بنایا تو میرے نزدیک اچھا کیا۔