خبرنامہ

نواز شریف کا جاں نثار متوالہ،عارف سندھیلہ……اسداللہ غالب

نواز شریف کا جاں نثار متوالہ،عارف سندھیلہ
09 مارچ 2018

بھٹو کو پھانسی ہوئی تو سنا ہے کہ کئی لوگوں نے خود سوزی کی کوشش کی۔ ہمارے بعض اخبار نویس دوستوںنے بھی بھٹو کے حق میں جدوجہد کی اور کوڑے کھائے۔ یہ صحافی اپنی جدوجہد کو آزادی صحافت کے لئے قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ ان کی سراسر سیاسی جدوجہد تھی، بہرحال بھٹو کے جیالوں سے جو بن پڑا، انہوںنے کیا اور قربانیاں دیں۔ اب میاں نواز شریف پر برا وقت آیا ہے تو ان کے چاہنے والوں کو شدید صدمہ پہنچا ہے، یہ ایک فطری امر ہے۔ مگرا س صدمے کے اظہار میں ایک شخص نے ساری حدیں پار کردیں اور جیسے ہی نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ سامنے آیا تو انہوںنے مرن برت رکھ لیا۔ یہ تھے شیخوپورہ سے رکن صوبائی اسمبلی عارف خان سندھیلہ۔ میں نے انہیں اپنے برخوردار اور دوست تنویر نذیر کے دفتر یونی گائیڈ میں اکثر دیکھا ہے، ایک دوبار وہ نوائے وقت کے دفتر میں بھی ملے۔ وہ نواز شریف کی محبت میں اشتہارات بھی شائع کرواتے رہتے ہیں۔ بہرحال وہ اپنے لیڈر سے عشق کے اظہار کے لئے جو طریقہ ان کے ذہن میں آتا ہے، اختیار کرتے ہیں، وہ اپنی دھن کے پکے ہیں ۔ اور من کے سچے ہیں۔
نواز شریف کو پارٹی سے ہٹایا گیا تو انہوںنے شیخوپورہ کے ایک چوک میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگا لیا۔ ہر دن گزرنے کے ساتھ ان کی حالت بگڑنے لگی مگر انہیں کوئی پروا نہ تھی، انہوںنے اعلان کیا کہ میں اپنے لیڈر پر جان دے دوں گا اور اگر قبر میں اتر گیا تو اس پر نواز شریف کا ایک عاشق کا کتبہ لگا دینا، میرا نام نہ لکھنا۔
عارف سندھیلہ ایام طالب علمی سے ایکٹوسٹ رہے ہیں، ابھی کالج میں تھے کہ پی این اے کی تحریک نظام مصطفیٰ چل نکلی ۔شیخوپورہ میں مصطفیٰ کھر پر فائرنگ ہوئی۔ اس کا مقدمہ درج ہوا اور اس کا الزام عاررف سندھیلہ پر لگا دیا گیا اور انہیں ساہیوال جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ شاید وہیں گل سڑ جاتے مگر قدرت خدا کی یہ ہوئی کہ جنرل ضیا نے مارشل لا لگا دیا۔ اور ایک ایک کرکے سیاسی مقدمے ختم ہونے لگے تو عارف سندھیلہ کی جان بھی جیل سے چھوٹ گئی۔
مگر عارف سندھیلہ جان ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں اور کوئی موقع یا بہانہ ڈھونڈتے ہیں کہ یہ جان قربان کر دیں، وہ ہر ایک پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار نہیں، یہ کام وہ صرف اپنے قائد نوازشریف کے لئے مخصوص سمجھتے ہیں۔ چنانچہ میاںنواز شریف کو ایک عدالتی فیصلے کی وجہ سے پارٹی صدارت سے برطرف کیا گیا تو عارف سندھیلہ صدمے میں چلے گئے۔ ان کے لئے یہ فیصلہ برداشت سے باہر تھا، انہوں نے سوچا کہ ایسی زندگی سے موت اچھی، چنانچہ انہوں نے بھوک ہڑتال کر دی اور بالکل کھانا پینا بند کر دیا۔ عام طور پر بھوک ہڑتال محض رسمی اور دکھاوے کے لئے ہوتی ہے یا کچھ خاص وقت کے لئے، مقصد تو اپنی کاز سے گہری لگن کا اظہار ہی ہوتا ہے، اس لئے سمجھا یہ جاتا ہے کہ صرف ٹھوس غذا سے پرہیز اور اجتناب کرنا ہے، باقی مشروبات سے دل بہلایا جا سکتا ہے تاکہ صحت پر برے اثرات مرتب نہ ہوں ، مگر سندھیلہ صاحب تو کسی اور مٹی کے بنے ہوئے ہیں اور ٹھوس غذا یا مشروبات، وہ کسی کومنہ نہیںلگاتے اور اسی بنا پر ان کی جسمانی حالت بگڑنے لگی۔ اوپر سے سینٹ کے الیکشن آ پہنچے اور پارٹی کی طرف سے انہیں لاہور اسمبلی میں طلب کیا جانے لگا کہ وہ ووٹ ڈالنے آئیں مگر عارف سندھیلہ نے شرط عائد کی کہ جب تک ان کے قائد میاںنواز شریف ان کو فون کر کے بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لئے نہیں کہتے، وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گے، اس پر انہیں محترمہ مریم نواز اور نواز شریف دونوں کی طرف سے فون آیا اور محترمہ نے تو ایک ٹویٹ میں بھی ان سے اپیل کی کہ وہ بھوک ہڑتال ختم کر دیں، تب وہ ایک ایمبولینس میں لیٹ کر لاہور آئے اور حالت غیر میں ہی ووٹ کاسٹ کیا، یہ ووٹ دینا بھی ان کا فرض بنتا تھا ۔
اب ہم سندھیلہ صاحب کے ساتھ ان کے ماضی میں جھانکتے ہیں، وہ کئی امتحانوں سے گزرے۔
میاں نواز شریف اکثر گلہ کرتے ہیں کہ جب نناوے میں انہوںنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کے لوگ ساتھ چھوڑ کر غائب ہو چکے تھے، محترمہ کلثوم نواز نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس ابتلا کے دور میں وہ کسی کو بھی فون کرتیں تو فون بند ملتا یا حیلے بہانے سے انہیں ٹرخا دیا جاتا۔ مگر یہی وہ دور ہے جب محترمہ سیاسی جدوجہد کے لئے اپنی کار میں نکلیں اور ان کی کار کو پولیس کے ایک لفٹر نے ہوا میں اٹھا لیا۔ یہ لفٹر ایف سی کالج سے جی او آر ون کی طرف روانہ ہوا تو لفٹر کے ساتھ ساتھ دوڑنے والا واحد شخص عارف سندھیلہ تھا اور اسی کا محترمہ کے ساتھ موبائیل فون پر مسلسل رابطہ بھی قائم رہا، پولیس نے یہ کار جی او آر میں ایک جگہ لے جا کر کھڑی کر دی ا ور کسی کو قریب جانے کی اجازت نہ دی۔ اسی کشمکش میں رات کی سیاہی پھیل گئی۔ موقع پر اخبار نویس اور فوٹو گرافر بھی موجود تھے، عارف سندھیلہ نے ان سب کی ڈنر سے تواضع بھی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سب ان کے مہمان تھے اور ان کے لئے بھوک برداشت کر رہے تھے۔
اسی دور میں میاں نواز شریف کے وکیل اقبال رعد کو کراچی میں قتل کر دیا گیا، بیگم کلثوم نواز انکے خاندان سے تعزیت کے لئے تحصیل ننکانہ شیخوپورہ گئیں۔ بیگم صاحبہ نے دیکھا کہ وہاں سندھیلہ صاحب بھی موجود ہیں ،انہوں نے ازراہ مذاق کہا کہ اس وقت ہر کوئی میرے اوپر اپنے دروازے بند کر رہا ہے ، آپ بھی چاہیں تو مجھے چائے پلانے اپنے گھر نہ لے جائیں مگر عارف سندھیلہ نے سینہ تان کر کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ شیخوپورہ کی سرزمین پر قدم رکھیں اور میرے غریب خانے میں قدم رنجہ نہ فرمائیں۔ وہ بیگم صاحبہ کو گھر لے گئے، ان کی خاطر تواضع کی۔ جس کی پاداش میں انتظامیہ نے ان کے کینسر میں مبتلا والد صاحب کو تھانہ صدر فاروق آباد تحصیل ننکانہ کے تھانے لے جا کر بند کر دیا اور ان پر ٹریکٹر چوری کا مقدمہ بنا دیا۔
میاں صاحب جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ ایک روز عارف سندھیلہ کو کیا سوجھی کہ اپنے گھر میں میاں صاحب کا ٹیلی فونک خطاب رکھ دیا، پنجاب کے سیکرٹری داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا تعلق بھی شیخوپورہ سے تھا، انہوں نے سندھیلہ صاحب کو روکاکہ وہ خطاب نہ کروائیں مگر وہ کہاں باز آنے والے تھے، یہ خطاب ہوا، ادھر کرسیاں اٹھائی جارہی تھیں کہ ایک پولیس وین آئی، سندھیلہ صاحب کو اس میں پھینک دیا گیا اور میانوالی جیل میں لے جا کر بند کر دیا۔ اسی اثناء میں کینسر میں مبتلا ان کے والد اللہ کو پیارے ہوئے تو سندھیلہ صاحب کو پیرول پر جنازہ میں شرکت کی اجازت دی گئی۔یہ جنرل مشرف کا دور عقوبت تھا مگر سندھیلہ صاحب نے چوں تک نہ کی اور جیل کی سزا بھگتی۔
میاںنوازشریف جلا وطنی ختم کر کے واپس آئے ، پنجاب میں ان کی پارٹی کی حکومت قائم ہو چکی تھی کہ سندھیلہ صاحب کی والدہ بھی قضائے الہی سے فوت ہو گئیں، میاںنواز شریف غم گساری کے لئے خود شیخوپورہ پہنچے اور دعائے مغفرت کے بعد اپنے مختصر خطاب میں سندھیلہ صاحب کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوںنے کمال ہمت اور استقلال کے ساتھ ہر آزمائش اور چیلنج کا سامنا کیا اور عارف سندھیلہ کا ہاتھ اٹھا کر تاریخی جملہ کہا کہ جب میرے والد میاں شریف فوت ہوئے تو میں جلاوطن تھا جب سندھیلہ کے والد فوت ہوئے تو وہ جیلوں میں دھکے کھا رہا تھا۔
یہ درویش صفت انسان دیکھنے میں جوشیلا نہیں ہے مگر اس سمند رکی طرح ہے جس کی خاموش اور پر سکون موجوں کے نیچے ایک سونامی پل رہا ہوتا ہے۔ عارف سندھیلہ ایک جاں نثار ورکر ہے اور جب تک سیاسی پارٹیوں میںایسے پرخلوص اور بے لوث ورکر موجود رہیں گے، جمہوریت کو کوئی طاقت زیر و زبر نہیں کر سکتی۔
ایسے بے لوث اور جاںنثار کارکنوں پر کالم نہیں، کتابیں لکھی جانی چاہئیں کہ سیاسی رونق انہی کے دم قدم سے ہے۔
مجھے عارف سندھیلہ سے پیار اسلئے بھی ہے کہ وہ میرے دوست اور عاشق اقبال پروفیسر عبدالجبار شاکر کے شاگرد رشید رہے ہیں۔
الویرا یاسمین علی