خبرنامہ

نواز شریف کو نکالا نہیں جا سکا………..اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نواز شریف کو نکالا نہیں جا سکا………..اسداللہ غالب

نواز شریف نے پوچھا تھا ، بار بار پوچھا تھا مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا،سوشل میڈیا کے بھوتوں نے بڑی گرہیں لگائیں مگر جیسے جیسے حلقہ ایک سو بیس لاہور کے ضمنی الیکشن کا نتیجہ آتا چلا گیا، ان تمام دیکھی ا ور ان دیکھی قوتوں کو سانپ سونگھتا چلا گیاا ور رات گیارہ بجے عظیم باپ کی حوصلہ مندبیٹی نے لندن فون کر کے والد گرامی کو خوش خبری سنائی کہ آپ کو لوگوں کے دلوں سے کوئی نہیں نکال سکا۔

میری آواز لندن پہنچ سکتی ہو تو میں کہتا ہوں کہ نواز شریف کو کوئی نکال بھی نہیں سکے گا۔ اسلام آباد کا تخت تو عارضی ہے ، وہاں وہ نہیں رہ سکے جو گیارہ گیارہ سال تک ڈکٹیٹر بن کر چمٹے رہے، وہ تو لوگوں کے دلوں سے بھی نکل گئے، شرط لگاتا ہوں کی آج کے نوے فی صد نوجوانوں کو یحییٰ خان کا نام بھی نہیں آتا جو اس ملک پر۔۔ قائد اعظم کے ملک پر۔ اتنا بڑا ظلم ڈھا گیا۔ اور وہ جو دعویٰ کرتا تھا کہ اس نے دنیا کی دوسری سپر پاور کو شکست دی، اسے ٹکڑے ٹکڑے کیا، اس کا نام نناوے فی صد نوجوان نہیں جانتے مگر نوازشریف کا نام آسمانوں پر ستاروں کی طرح چمکتا ہے، چودھویں کے چاند کی طرح دمکتا ہے۔ قوس قزح کی طرح رنگ بکھیرتا ہے، اور کہکشاﺅں کی طرح افق تا افق روشن روشن ہے۔وہ لوگوں کے دلوں میں دھڑکتاہے، وہ لوگوں کی سانسوں میں مہکتا ہے۔وہ لوگوں کی امنگوں، وہ لوگوں کی آدرشوں ، وہ لوگوں کی آسوں اور امیدوں کا مرکز ہے۔ جسم سے جان الگ ہو سکتی ہے مگر نواز شریف اور پاکستان کے عوام لازم و ملزوم بن گئے ہیں۔
اب نواز شریف بھی ہنستے ہوں گے کہ کیوں پوچھا تھا کہ مجھے کیوں نکالا، انہیں جواب چاہئے تھا، یہ مل گیا کہ انہیں کسی نے، کہیں سے نہیں نکالا، وہ وہیں ہیں جہاں تھے اور وہیں رہیں گے، جہاں ہیں۔پاکستان کے ایٹمی ہیرو کوکون کہیں سے نکال سکتا ہے، پاکستان کو موٹر ویز کا جال دینے والے کو کون کہاں سے نکال سکتا ہے۔پاکستان کو لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں سے نجات دلوانے والے کو کون کہاں سے نکال سکتا ہے، پاکستان کو چین، ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ لازوال رشتوں میں پرونے والے کو کون کہیں سے نکال سکتا ہے، اور پاکستان کو سی پیک اور گوادر کا نادر اور بیش قیمت تحفہ دینے والے کو کون کہیں سے نکال سکتا ہے، کس کی مجال ہے کہ اسے نکال سکے بلکہ نکالنے کا خیال بھی دل میں لا سکے۔ اہل لاہور نے ایک دن میں ثابت کر دکھایا کہ چالیس برس قبل انہوں نے نواز شریف کو جو اعتماد بخشا تھا، آج بھی وہ نواز شریف پر وہی والہانہ اعتماد کرتے ہیں۔نواز شریف بھول گئے ہوں گے میںنہیں بھولا۔ اپریل پچاسی کی وہ نصف شب جب وہ اتفاق کے دفتر میں اکیلے بیٹھے تھے، ان کی جبین روشن تھی،ان کے ہونٹوں پر الوہی مسکان تھی، انہوںنے مجھے بتایا تھا کہ وہ چیف منسٹر شپ کی دوڑ جیتنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور میںنے بغل گیر ہو کر انہیں مبارکباد دی تھی۔ اس کے بعد ہم پھر کبھی نہیں ملے مگر تاریخ ہمیں کیسے فراموش کر سکتی ہے۔میں اسی نواز شریف کو پھر خوش خبری سناتا ہوں کہ اب وہ وزیراعلیٰ بن چکے، وزیر اعظم بن چکے ، اب وہ لوگوں کے دلوں کے تاجدار بن کر رہیں گے۔دلوں کی سلطنت کو زوال نہیں اور دلوں کا تاجدار بھی لازوال ہوتا ہے۔تاریخ کے صفحات میں اس کا ذکر سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے ، وہ شاہناموں کا عنوان بنتا ہے۔ نواز شریف ایک اساطیری شخصیت ہے جو ابدالا ٓباد تک تذکروں کامرغوب موضوع بنی رہے گی۔
نواز شریف کے مقابلے میں سب بونے ہیں۔وہ حسد کی آگ میں جل بھن رہے ہیں، انہیں غرور، تکبرا ور گھمنڈ نے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔
ٹھیک کہا قوم کی بیٹی مریم نواز نے کہ نواز شریف کے خلاف سبھی تھے، کبھی ضنمنی الیکشن کے دنگل میں چھیا لیس امیدوار نہں کودتے۔ یہ جنرل الیکشن نہیں تھا کہ ہر کوئی قسمت آزمائی کی کوشش کرتا ، یہ تو ون ٹو ون مقابلہ تھا ، یہاں تونتیجہ واضح تھا مگرنواز شریف کے ووٹروں کو گمراہ کرنے، ابہام اور مخمصے میں ڈالنے اور پنجابی محاورے کے مطابق گتال چالے میں مبتلا کرنے کے لئے ووٹ کی پرچی کو جس قدر لمبا کیا جا سکتا تھا ، کر کے دیکھ لیا گیا، اس سے ووٹ کا عمل ضرور سست ہوا، ہزاروں ووٹروں کو ان کا حق رائے دہی استعمال کرنے سے بھی روکا گیا مگرنتیجہ وہی نکلنا تھا جو کہ نکل آیا، کوئی اس نتیجے کو روک نہ سکا، اس بار تو نتیجہ سیدھے پولنگ بوتھ سے آیا،ا س لئے نتائج میں گڑ بڑ بھی نہیں کی جاسکی، کمپیوٹر میںنتیجہ نہیں گھڑا جا سکا۔ہاں،اوچھے ہتھکنڈوں سے بیگم کلثوم نواز کی لیڈ کو ضرور کم کر دیا گیا،ان کے ورکروں کے منہ پر کالی چادریں ڈال کر اغوا کیا گیا، اکثر ووٹروں سے کہا گیا کہ ان کا ووٹ کسی دوسرے پولنگ اسٹیشن پر ہے ، اس لئے کہ ان ووٹروں کے بارے میں پتہ تھا کہ وہ شیر کووو ٹ دیں گے۔اجنبی چہرے بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوںمیں دندناتے پھرے اور کچھ بے چہرہ لوگ بھی ووٹروں کو ڈراتے دھمکاتے رہے ۔ مگر صاحب ، اہل لاہور شیر کے جاں نثار تھے، انہیں گیدڑ بھبکیوں سے کیا خوف زدہ کیا جا سکتا تھا۔
ہر شخص جانتا ہے کہ مائنس ون فارمولا کس فیکٹری میں بنتا ہے۔ مگر اس بار یہ فارمولا اپناجادو نہیں دکھا سکا۔ نواز شریف کو فیصلے کی چند سطروں کی مدد سے وزارت عظمی سے تو نکال دیا گیا مگر دنیا کی کسی عدالت کا فیصلہ کسی کو بھی لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال سکتا، سقراط کو بھی کسی عدالت ہی نے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا مگر سقراط مر کر بھی نہ مرا، بھٹو کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دے کر قبر میں اتار دیا گیا مگر بھٹو آج بھی زندہ ہے، کل بھی زندہ رہے گا۔ قرطبہ ا ور غرناطہ سے مسلمانوں کا نام و نشاں مٹا دیا گیا مگر ان مسلمانوںنے علم و حکمت کی جو شمع جلائی تھی، اس کی کرنوںسے یورپ نے اپنے اندھیرے دور کئے۔ابن سینا، ابن رشد اور ابن خلدون آج کی سائنس، میڈیسن ، ٹیکنالوجی اور فلسفے کے باوا آدم تسلیم کئے جاتے ہیں۔
نواز شریف کے احسانات تلے ہم دبے ہوئے ہیں، ہمیشہ دبے رہیں گے ۔اس کے کارنامے ملک اور قوم کو ترقی اور خوش حالی کی شاہراہ پر گامزن کر چکے۔
کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ نواز شریف واپس آئے گا امام خمینی کی طرح ، ماﺅزے تنگ کی طرح، نیلسن منڈیلا کی طرح۔روک سکتے ہو تو روک لو، نواز شریف آ رہا ہے، دلوں کا حکمران اپنی سلطنت میں آ رہا ہے۔ روک لو۔ روک لو۔