خبرنامہ

نواز شریف کی سیکورٹی پر اعتراضات….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نواز شریف کی سیکورٹی پر اعتراضات….اسداللہ غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ خواہش تو یہ ہے کہ یہ سب نیوز چینلزا ور ٹاک شوز بند ہو جائیں مگر منکہ مسمی خود ایک صحافی ہوں اس لئے ایسی خواہش کیوں اور کیسے کر سکتا ہوں مگر ان ٹاک شوز کی وجہ سے جو مسائل کھڑے ہو رہے ہیں، ان پر قابو پانے کی کوئی تدبیر کی جانی چاہئے۔
اب ادھر کوئی سیاستدان بولتا ہے، ادھر ٹی وی کیمرے آن ہو جاتے ہیں اور پھر جوابی بیانات شروع ہو جاتے ہیں۔بالآخر یوں لگتا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ وہی ہے جو ٹی وی اسکرین پر ڈسکس ہو رہا ہوتا ہے۔
اب دیکھئے، لندن سے نواز شریف واپس آئے، ادھر ان کو پروٹوکول ملا یا سکیورٹی کے انتظامات کئے گئے، ادھر اعتراض وارد ہو گیااور پہلا اعتراض عمران خان کی طرف سے آیا، عمران خان نے اعتراض کیا کہ نواز شریف کو پروٹوکول کیوں دیا گیا اور عوامی ٹیکسوں سے ان کی آﺅبھگت کیوںکی گئی۔پنجاب ہاﺅس پر ایک نااہل وزیر اعظم کا سایہ کیوں پڑا۔ لو جی اس کے بعد تو بیانات ہی کامقابلہ چل نکلا، ہر طرف سے دھول اڑائی جانے لگی۔ یہ کیوں، وہ کیوں ، ایک سوال سے سو سوال پیدا ہو گئے۔
اعتراض کرنے والے یہ بھول گئے کہ ا س ملک میں سابق حکمرانوں کو سیکورٹی کی فراہمی کے لئے ایک قانون موجود ہے۔ یہ قانون ختم کر دیجئے تو کسی سابق حکمران کو سرکاری سکیورٹی نہیں ملے گی ، اب سابق حکمران کی تشریح میں یہ نہیں لکھا کہ وہ ناہل ہو گا تو سیکورٹی کا حقدار نہیں ہو گا۔ جب یہ شرط نہیں لکھی گئی تو یہ اعتراض کاہے کو۔
پنجاب ہاﺅس ہو، سندھ ہاﺅس ہو بلوچستان ہاﺅس ہو یا اسلام آباد میں کشمیر ہاﺅس۔وہاںمتعلقہ صوبے کا کوئی سرکاری شخص اپنے لئے یاا پنے مہمان کے لئے کمرہ بک کروا سکتا ہے۔ مری کے پنجاب ہاﺅس اور اسلام آباد کے کشمیر ہاﺅس میں تو میں بھی ایک زمانے میں ٹھہرا تھا۔ اور میں ایک اورصحافی کوجانتا ہوں جس نے اپنا ہنی مون منانے کے لئے مری کے پنجاب ہاﺅس کو استعمال کیا۔اب ان کمروں میں قیام کا خرچہ کوئی نہیں ہوتا۔ کھاناپینا خود کر لیجئے یا میزبان کے بل میں ڈلوا دیجئے۔
یہ سب کچھ عمران خان کے علم میں ہے اور اگر علم میں ہے تو پھر ایک سابق وزیر اعظم کے پنجاب ہاﺅس میں قیام پر ان کاا عتراض بے معنی بلکہ لا یعنی ہے۔
عمران خان تو پھر بھی صوبے کی حکمران پارٹی کے صدر ہیں ، اس لئے انہیں نتھیا گلی میں عزت دی گئی مگر جن دنوں ریحام خان ان کے عقد میں تھیں، ان کے پروٹو کول کو ابھی تک لوگ یاد کرتے ہیں،جنہیں صوبے کی حکومت بیسیوں گاڑیوں کا پرٹوکول اور سیکورٹی کیوں فراہم کرتی تھی، کبھی عمران خان اپنے آپ سے یہ سوال پو چھیں اور پھر یہ بتائیں کہ کیا نواز شریف کی بیگم یا شہباز شریف کی بیگم کو اس ملک میں یہی پروٹوکول ملتا ہے۔کبھی کسی نے ملک کے صدر کی بیوی کے لئے ایساپروٹو کول اور سیکورٹی دیکھی ہے جو وہ انجوائے کرتی رہیں، کیا استحقاق تھا اس خاتون مکرم کاا ور اب اسے وہ ادب آداب کیوں میسر نہیں، اس کا مطلب یہ ہو اکہ یہ سب کچھ عمران خان کی نسبت سے تھا مگر عمران خان تو محض ایک رکن اسمبلی کبھی پشاور میں اس کا پروٹوکول اور سیکورٹی ملاحظہ فرمایئے، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔میں ایک مرتبہ ٹوکیو میں سرکاری دورے پر تھا، انارکلی یا لبرٹی کی طرح کا ایک بازار۔ پر رونق۔ کھوے سے کھوا چھلتا ہوا، اچانک دور سے گاڑیوں کاایک قافلہ آتا دکھائی دیا اور بازار کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، ایک ہو کا عالم تھا، میں نے اپنے سرکاری گائیڈ سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا، کہنے لگے، یہ مافیا چیف کا قافلہ تھا۔ میںنے حیرت سے پوچھا جاپان جیسے ملک میں مافیا، ایساتو اب اٹلی میں بھی نہیں دیکھنے میں آتا۔ گائیڈ ہنس دیا، کہنے لگا کہ یہ مافیا چیف پولیس اور ملک کی تمام سکیورٹی فورسز سے زیادہ طاقتور ہے ، جسے کوئی مجرم پولیس اور سکیرٹی ادارے مل کر بھی نہ پکڑ سکیں، پھر کیس اس کو ریفر کیا جاتا ہے اور مجرم کی کیا مجال کہ اس کے سامنے پیش نہ ہو۔
اب میں اپنے ملک میں دیکھتا ہوں، سڑکوں پر سکیورٹی کے قافلے دندناتے پھرتے ہیں۔ بھانت بھانت کے مافیا چیف!ان میں کوئی زرداری کا قافلہ ہے۔کوئی بلاول کا ، کوئی فریال کا اور باقی ارکان پارلیمنٹ کا کرو فر اور جا ہ جلال۔ مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوتا، ہر کہ و مہ نے اپنے ٹوہر ٹپے کے لئے سکیورٹی ایجنسیوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جہاں بوڑھے ریٹائرڈ فوجی بمشکل ہتھیار اٹھائے گاڑیوں سے لٹکے نظر آتے ہیں۔ایک زمانے میں گورنر میاں اظہر نے کن ٹٹوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو جو پکڑا جاتا، وہ یہ کہہ کر چھوٹ جاتا کہ وہ دن کو کسی رکن اسمبلی کا گارڈ ہوتا ہے اور رات کو پیشہ ور ڈاکو بن جاتا ہے۔عمران خان ان باتوں کو کیا سمجھیں گے، انہوںنے اعتراض برائے اعتراض کرنا ہوتا ہے، وہ اپنا شوق پورا کئے چلے جا رہے ہیں۔ خود وہ کسی منصب پر فائز نہیں بس ان کے ذہن میں ہے کہ وہ وزیراعظم بننے والے ہیں وہ بھی اس لئے کہ انہوںنے ایک ورلڈ کپ جیتا تھا۔ مگر وہ لوگ جنہیں سیاست ا ور حکومت میں چالیس پچاس برس ہو گئے، ان کے ساتھ ان کا کیا مقابلہ۔ وہ لوگ اس ملک کی قسمت سنوارنے والے ہیں ، اسے اندھیروں سے نکالنے والے ہیں۔