خبرنامہ

نون لیگ کو اگلاالیکشن پنجاب جتوائے گا…..اسداللہ غالب

نون لیگ کو اگلاالیکشن پنجاب جتوائے گا…..اسداللہ غالب
چکوال،لودھراں اور لاہور کے حلقہ ایک سو بیس کے ضمنی الیکشن نے ایک بات ثابت کر دی ہے کہ تمام تر عدالتی فیصلوں اور نواز شریف کی نااہلی کے باوجود ان کی پارٹی کی مقبولیت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ لاہور کے ضمنی الیکشن میں تو محترمہ کلثوم نواز نے لندن کے ہسپتال کے بستر سے الیکشن لڑا ور بھاری کامیابی حاصل کی،وہ اپنی بیماری کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکیں بلکہ پاکستان میں بھی ان کے لئے قیام کرنا ممکن نہ تھا، صرف ان کی بیٹی مریم نے ان کی جگہ مہم چلائی اور ووٹروں کے دروازے پر دستک دی۔ لاہور کی یہ سیٹ تو ن لیگ کی پکی سیٹوں میں شمار کی جاتی ہے کیونکہ اس پر ہمیشہ ن لیگی امیدوار ہی الیکشن جیتتے رہے ہیں مگر لودھراں کاالیکشن بڑا ٹرکی تھا۔ یہاں سے جہانگیر ترین نااہل ہوئے تھے اور انہوںنے ترنگ میں آکر جھٹ اپنے بیٹے کو ٹکٹ دلوادیا ، وہ اس علاقے کے جاگیر دار تھے، ان کا شمار وڈیرہ شاہی میں ہوتا تھا اور ملک کی کاروباری ا ور صنعتی دنیا میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ ان کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کا الیکشن لڑنا ہی دل گردے کاکام تھا ، ن لیگ تو یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ ترین کو شکست دے پائے گی، ملک میں بعض سیٹیں جدی پشتی کسی نہ کسی خاندان کی ملکیت تصور کی جاتی ہیں،یہ سیٹ بھی انہی میں سے ایک تھی۔
یہ درست ہے کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ نے نہ صرف اس حلقے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے بلکہ پورے صوبے میں یکساں اور متوازن منصوبوں کو پروان چڑھایا تھا۔ ممکن ہے کہ خادم اعلی کویقین ہو کہ اس حلقے میں کسی مہم چلانے کی ضرورت نہیں ، وہ اپنے کاموں کے بل بوتے پر سیٹ جیت سکتے ہیں مگر غیر جانبداراورا ٓزاد تجزیہ کار یہ نتیجہ نکالنے سے قاصر تھے مگر جو نتیجہ آیا ہے، وہ عام ا ٓدمی کے لئے حیران کن ہے اور سیاسی تجزیہ کاروں کے لئے اس امر کا شاہد ہے کہ پنجاب میاں شہباز شریف کی مٹھی میں ہے ، یہ وسطی پنجاب ہو بالائی پنجاب ہو یا جنوبی پنجاب ہو۔ پورے صوبے میں ن لیگ کا ووٹ بنک حسب سابق قائم و دائم ہے۔ اورا سکی بنا پر بڑے یقین کے ساتھ یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اگلے الیکشن میںن لیگ پنجاب میں سویپ کر جائے گی اوراس اکثریت کے بل بوتے پر وفاق میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو گی۔
زرداری صاحب نے دعویٰ تو کیا ہے کہ وہ آئندہ پنجاب میں حکومت بنائیں گے۔ بلاول نے بھی بھڑک لگائی ہے کہ وہ پنجاب پر قبضے کے لئے آئے ہیں مگر پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی عزت بچا سکے تو اسے بھی معجزہ ہی سمجھا جائے گا کیونکہ کم و بیش ستر سے سندھ میں اسی پارٹی کی حکومت ہے مگر اس صوبے کی حالت زار بتاتی ہے کہ یہاں جنگل کا قانون رائج رہا ہے اور سوائے لوٹ کھسوٹ کے یہاں کوئی اور سرگرمی نہیں کی گئی۔کراچی اور حیدر آباد میں مہاجروںنے سیاسی بالا دستی قائم رکھی جو اب بد قسمتی کا شکار ہیں اور سینٹ کی ٹکٹیں دینے کے قابل بھی دکھائی نہیں دیتے۔ کراچی میں کوئی ڈھنگ کا منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا۔ اس شہر بے اماں کو اگر امن ملا ہے تو وہ وفاق کی مداخلت اور رینجرز کے سخت گیر ٓاپریشن کا نتیجہ ہے۔ سندھ حکومت کی تو کوشش رہی ہے کہ یہاں کوئی آپریشن نہ ہو سکے، وہ رینجرز کو اختیارات دینے میں ڈھل مل دکھائی دیتے رہے۔
اندرون سندھ میں صدیوں کی طرح اب بھی خاک اڑ رہی ہے، تھر میں قحط سالی کا دور دورہ ہے، بچے سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہیں ۔ اور ماﺅں کی گود میں دم توڑ دیتے ہیں۔ باقی سندھ میں نہ سڑکیں ہیں، نہ تعلیمی ادارے، نہ ہسپتال اور نہ امن و امان۔ ووٹوں کے حصول کے لئے صرف وڈیرہ شاہی اور جاگیر داری پر بھروسہ کیا جا رہا ہے مگر نئی نسل ان زنجیروں کو توڑنے کے موڈ میں ہے اور کسی کی غلامی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ ان وڈیروں اور جاگیرداروں اور تمن داروں کو الیکشن میں اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑے۔
اب آپ کے پی کے کا حال دیکھئے،۔ یہاں کی پولیس کے گن گائے جاتے ہیں مگر یہ پولیس نہ تو سکولوں میں تعلیم دے سکتی ہے، نہ ہسپتالوںمیں علاج کر سکتی ہے اورنہ صوبے کے طو ل وعرض میں سڑکیں اور موٹرو یز یا میٹرو بسوں کا جا ل بچھا سکتی ہے۔اس صوبے کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں وزیر اعلی کی نام نہاد حیثیت ہے جبکہ ایک اجنبی شخص جس کا تعلق اس صوبے سے بھی نہیں اور وہ رہتا بھی بنی گالہ میں ہے، وہی سارے حکم چلاتا ہے اور صوبے کے فیصلے کرتا ہے ۔ اس کا طرز حکمرانی صوبائی خود مختاری کی صریح خلاف ورزی ہے اور عوام کے مینڈیٹ پر کھلا ڈاکہ ہے۔
عمران خان اپنے آپ کے وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے مگر ہر سیاسی تجزیہ کار کو نظر آرہا ہے کہ عمران کی پارٹی کو کے پی کے میں بھی جیتنا مشکل ہو جائے گا، لاہور کے جلسے نے تو اس کی تقدیر پر تھپڑ رسید کیا ہے ا ورا سے پنجاب بدر کر دیا ہے، وہ دور لد گیا جب کبھی عمران خان لالک چوک کو بند کر سکتاتھا، اب تو وہ زمان پارک میں ایک رات چین کی نیند بھی نہیں سو سکتا کیونکہ پنجاب میں شہباز شریف کے ہاتھوں عظیم الشان ترقی اسے ڈراﺅنے خواب دکھاتی ہے۔
ملک میں اندھیرے چھائے تھے۔ یہ زرداری کا ورثہ تھا ، آج چار سال بعد ن لیگ نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے ہیں اور لوڈشیڈنگ کولوگ بھول گئے ہیں۔ پورے ملک میں بجلی کے نئے کارخانے نصب ہوئے ہیں جن سے بیس کروڑ عوام مستفید ہو رہے ہیں۔سی پیک کا وہ منصوبہ ہے جس نے ن لیگ کے سیاسی مخالفیں کی بد قسمتی پر مہر ثبت کر دی ہے۔یہ ایسامنصوبہ ہے جو صرف پاکستان کی ترقی کا ہی ضامن نہیںبلکہ خطے کی تقدیر بدلنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے اورخطے سے بھی آگے تین بر اعظموں کو تجارت کے وسیع تر روابط میںمنسلک کرتا ہے۔
اس پس منظر میں بڑی آسانی سے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی کوششوںنے ن لیگ کی اگلی کامیابی کی راہ ہموار کر دی ہے۔پنجاب کی ترقی سے سیاسی مخالفین کی آنکھیں ششدر رہ گئی ہیں اور انہیں اپنی شکست واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔اسی لئے انہوںنے ن لیگ کے خلاف اوچھے وار شروع کر دیئے ہیں مگر سیاسی کھیل کھیلنا نواز شریف کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔زرداری کا سحراس شعبے میں ٹوٹ چکاہے اور نواز شریف نے اپنا سکہ جمانے میں جو محیر العقول کامیابی حاصل کی ہے، ا س سے سیاسی تجزیہ کار بھی دنگ رہ گئے ہیں۔
آج ایک جلسے میں شہباز شریف نے میرا دل جیت لیا، انہوںنے عوام سے کہا کہ اگر ن لیگ کو جتواﺅ گے تو پاکستان معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط ہو گا اور یہ مودی کے لئے سخت ناکامی اور صدمے کا باعث ہو گی۔ مودی کے خلاف اس کھلی دشمنی کا اظہار کرنے پر میں شہباز میاں کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔