خبرنامہ

نہ جنگ لگنی تھی، نہ لگے گی۔۔اسداللہ غالب

ہم عام لوگ ہیں اور ذرا ٹھوں ٹھاں ہو تو ڈر جاتے ہیں کہ بس جنگ لگی کہ لگی۔عام آدمی کیا ، یہ جو پاکستان اور بھارت کے ایک سو ایک ٹی وی چینلز پر تبصرہ نگار اور تجزیہ کار براجمان ہیں، وہ بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں ا ور گلا پھاڑ پھاڑ کر جنگ کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔
مگر یہ جنگ نہ ہوئی تھی، نہ ہوئی اور نہ ہو گی۔
وجوہات ایک سے زیادہ ہیں، ایک تو اوڑی پر پاکستان سے جا کر کسی نے حملہ نہیں کیا، یہ بھارت نے جھوٹ تراشا، کیوں تراشا،ا سکی وجہ آپ سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
پاکستان پر کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں ہوئی، بھارت نے ایک اور جھوٹ گھڑا، کیوں گھڑا،اسکی وجہ بھی آپ ڈھونڈیں ا ور مجھے بھی بتائیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایک ٹی وی چینل کو آڈیو انٹرویو میں جنگ نہ ہونے کے حق میں دلیل پیش کی کہ پاکستان اور بھارت دونوں نیوکلیئر پاورز ہیں، ا سلئے یہ نعرے لگا سکتے ہیں، مگر جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ جنگ کا مطلب بر صغیر کو دنیا کے نقشے سے ملیا میٹ کرنا ہو گا۔کس میں ہمت ہے کہ اس قدر دلیرانہ یاا حمقانہ فیصلہ کرے۔
عمران خان نے کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے موجودہ صدر ضیا شاہد کو گھر بلا کر بتایا کہ میں اپنے پروگرام کے مطابق چلوں گا ، جنگ کا مصنوعی ہوا مجھے میرے ارادوں سے باز نہیں رکھ سکتا۔
ضیا شاہد ہی راوی ہیں کہ انہوں نے سی پی این ای کے ایک حالیہ اجلاس میں آزاد کشمیر کے نئے وزیر اعظم کو مدعو کیا، چائے کی میز پر وزیر اعظم نے کہا کہ آپ لوگ اس جنگ کے بخار کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ ان سے کہا گیا کہ یہ بخار تو آپ کی کنٹرول لائن کی حدت سے پیدا ہوتا ہے جس پر وزیر اعظم آزاد کشمیر نے حتمی لہجے میں کہا کہ کوئی جنگ نہیں ہو گی، ا سلئے جنگ کی باتیں بند کی جانی چاہیءں۔
جنگ کرنی ہو تو ملک میں کم از کم دکھاوے کے لئے ہی اتحاد کی فضا پیدا کی جاتی ہے، پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں قومی اتحاد مفقود ہے، بھارت والے اپنے حکومتی دعووں کو جھوٹ خیال کرتے ہیں،ا سلئے وہاں ایک شور ہے کہ جھوٹ بند کیا جائے۔ یہ اوم پوری نے بھی کہا۔ دہلی کے چیف منسٹر کیجری وال نے بھی کہا۔ کانگرسی لیڈروں نے بھی کہا اور بھی کئی بارٹی لیڈروں نے کہا، پاکستان میں یک جہتی اور اتحاد کی فضا پیدا کرنے کے لئے وزیر اعظم نے کئی اجلاس بلائے، ایک اجلاس میں تو سیدھے سیدھے فوج کی اعلی قیادت پر تنقید کی گئی، اور پھر اس خفیہ اجلاس لی خبر بھی افشا کروائی کی گئی، ایک اجلاس پارلیمنٹ کا بھی ہوا جس میں قومی اتحاد پر پہلی ضرب عمران خاں نے لگائی جس کی پوری جماعت نے اجلاس میں شرکت ہی نہ کی،یہ پارلیمنٹ کی بھی تحقیر تھی اور جمہوریت کی بھی نفی۔ باقی جو پارٹیا ں شریک ہوئیں انہوں نے باہم سر پھٹول کا مظاہرہ کیا۔خوریشید شاہ ، اعتزاز احسن،مشاہداللہ وغیرہ نے ایک دوسرے کے لتے لئے، اس پر عمران خاں نے تو سب کے سامنے بغلیں بجائیں اور اسد عمر کو مبارکباد دی مگر بھارت کے طول و عرض میں جو گھی کے چراغ جلائے گئے، وہ ہم نے دیکھے نہیں مگر ان کے بارے میں سنا ضرور ہے۔
ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے طیش کا مظاہرہ کیا اور پاکستان پر دباؤبڑھا دیا، یہ دباؤ اس قدر حقیقی تھا اور وہ سرجیکل اسٹرائیک پر تلا ہوا تھا کہ ہمارے جیٹ طیارے تین دن تک سرحدوں پر دن رات پرواز کرتے رہے، مگر اس بار بھارت کی طرف سے ویسا ہی خطرہ محسوس نہیں ہوا، اسلئے ہمارے جنگی طیاروں نے دفاعی پروازیں نہیں کیں۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ براس ٹیکس، بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملے کے بعد دونوں ممالک کی فوجیں چھاؤنیوں سے نکل ر اگلے موچوں پر پہنچ گئی تھیں، اس بار فوج کی نقل و حرکت دونوں طرف دیکھنے میں نہیں آئی، یہ خبریں ضرور آئیں کہ بھارت نے کشمیرا ور پنجاب میں سرحدی دیہات خالی کروا لئے ہیں مگر آزاد میڈیا ان خبروں کی تصدیق نہ کر سکا، ایک عالمی ارد ویب سئاٹ نے یہ خبر اڑائی کہ نارووال کے پاکستانی دیہات خالی ہو رہے ہیں، میں نے خود ناروال کے رہائشی اخبار نویسوں سے اس کے بارے میں تصدیق چاہی تو مجھے جواب ملا کہ متعلقہ ویب سائٹ نے بے پر کی ا ڑائی ہے اور اس کی شکایت ویب سائٹ کے پاکستانی بیورو چیف سے کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے ایک غیر ذمے دار نمائندے کو جھوٹ گھڑنے سے باز رکھے۔ میرا اپنا گاؤں فتوحی والہ، بھارت کی ساندہ پوسٹ کے عین سامنے مشین گنوں کی زد میں رہتا ہے اور سہجرہ سیکٹرکے بارہ دیہات تو بھارت کے اندر محصور ہیں، مگر کیا مجال وہاں سے کسی ایک شخص نے بھی ہجرت کے بارے میں سوچا بھی ہو۔پینسٹھ ا ور اکہتر کی دونوں جنگوں میں برستی گولیوں میں ہی ہم نے اپنے دیہات خالی کئے تھے۔رن آف کچھ کی لڑائی کے دوران بھی ہمارے کھیتوں میں ہر قسم کی بارودی سرنگیں نصب کر دی گئی تھیں مگر ہمارے کسان ان بارودی سرنگوں کے اندر سے چارہ وغیرہ کاٹنے کے عادی ہو گئے تھے۔
کنٹرول لائن ، کارگل اور سیاچین میں محدود جنگ ایک عرصے سے جاری ہے، صرف پینسٹھ میں جوڑیا ں کی فتح اور اکھنور کی طرف پیش قدمی کی بنا پر بھارت نے بوکھلا کر راجستھان، سلیمانکی، قصور، لاہور اور سیالکوٹ پر جارحانہ یلغار کر کے جنگ کا دائرہ عالمی سرحد تک وسیع کیا تھا۔سیاچین میں انیس سو چوراسی سے دونوں ممالک کی فوجیں نا مساعد موسم کی پروا کئے بغیر آمنے سامنے مورچہ زن ہیں۔ مگر کارگل میں ہمارے مجاہدین بھارتی ایئر فورس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیئے گئے تھے، اس لڑائی کے دوران اسلام آباد کے چوراہوں میں یوم تکبیر منانے کے چکر میں غوری، ابدالی،وغیرہ میزائلوں کے مجسمے نصب تھے مگر اصلی میزائلوں کا کسی نے بٹن نہ دبایا۔یاکسی نے یہ بٹن دبانے کی اجازت نہ دی۔ایک مرتبہ چودھری شجاعت نے کہا تھا کہ ہمارا ایٹمی اسلحہ اور میزائل شادی بیاہ پر پٹاخے چلانے کے لئے تو نہیں، مگر عام لوگ یہی کہتے ہیں کہ اس اسلحے کا اور کوئی مصرف نہیں ہے، ورنہ کارگل میں ہمارے مجاہدین کا قیمہ نہ بنتا۔ دوسری طرف بھارتی ایئر فورس اپنی شکست خوردہ زمینی فوج کی مدد کے لئے دن رات اڑانیں بھر رہی تھی اور ہمارے مجاہدین کو رونے والا بھی کوئی نہ تھا۔
گمان غالب یہ ہے کہ ہماری فوج نے آج کارگل کے تلخ تجربے کی وجہ سے بھارت کی کسی شرارت کا جواب نہ دینے میں مصلحت سمجھی ہے۔اور یہی احتیاط جنگ شروع ہونے میں مانع ثابت ہوئی ہے۔
جنگ میں کئی دیگر عوامل بھی رکاوٹ بنے ہیں، امریکہ پاک فوج کو جس حد تک دباؤ میں لانا چاہتا تھا،ا س میں وہ کامیاب رہا ہے،پاکستان کے اندر بھی ایسے عناصر ہیں جو فوج پر بالا دستی قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی کامیاب ٹھہرے، دوسری طرف کسی جنگ کو روکنے مین چینی فیکٹر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اکہتر میں روس کھل کر اندرا گاندھی کی پشت پر کھڑا تھا مگر آج ضروری نہیں کہ پوٹن بھی مودی کی پیٹھ ٹھونکنے میں سنجیدہ ہو۔ اسوقت روسی فوجیں تو پاکستا ن میں مشترکہ مشقیں کر رہی یں۔
امریکی الیکشن آخری مرحلے میں ہے ۔ جس طرح ہمارے آرمی چیف کے جانے میں بس تھوڑا عرصہ باقی ہے ، اسی طرح امریکی صدر کا بھی چل چلاؤ ہے،آج اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو جنرل راحیل کو تو نہیں بدلا جاسکتا اور انہیں توسیع مل سکتی ہے مگر امریکی صدر کو ایک دن کی بھی توسیع ملنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا،ا س وقت عملی طور پر امریکی صدر کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے،ا سلئے امریکہ کے لئے پاک بھارت جنگ کے شعلے بھڑکانا ممکن نہیں رہا۔
میں نے جنگ نہ ہونے کے حق میں دلائل کا ڈھیر لگا دیا ہے، پھر بھی کوئی ٹریگر دبانا چاہتا ہے تو اس کی خوشی، میں اس کا کیا علاج کروں۔