خبرنامہ

وزیرا عظم کی اپیل پر کشمیر کا یوم سیاہ ۔۔اسداللہ غالب

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کے خلاف وزیر اعظم نواز شریف کی اپیل پر گزشتہ روز ملک بھر میں یوم سیاہ دراصل اس امر کا اعلان تھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑا ہے اورقوم کو بھارتی جارحیت کسی طور پر بھی قبول نہیں۔ لندن میں دل کا آپریشن کروانے کے بعد پاکستان پہنچتے ہی وزیراعظم نے گویاپاکستان کے دل پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس یوم سیاہ سے بھارت کو یہ پیغام بھی ملا کہ کشمیر اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں بلکہ بیس کروڑ پاکستانی عوام بھی شریکِ جدوجہد ہیں۔برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہونے والوں کی تعداد 48تک جا پہنچی تھی ۔بھارت کی بڑھتی ہوئی حالیہ جارحیت کا پول کھولنے کے لئے یوم سیاہ منانا از حد ضروری تھا۔ وزیراعظم کے اس اقدام کے بعد وہ چہ میگوئیاں بھی دم توڑگئیں جو وزیراعظم کی صحت یابی کے حوالے سے کی جا رہی تھیں کہ شاید وہ ملکی معاملات میں دلچسپی نہیں لے پا رہے۔ کشمیر کے حوالے سے گورنر ہاؤس لاہور میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت کابینہ کا پانچ روز قبل جو خصوصی اجلاس ہوا س نے ناقدین کو ناخن چبانے اور یہ ماننے پر مجبور کر دیا ہو گا کہ وزیراعظم اپنے صحت کے مسائل کے باوجود کشمیر جیسے حساس ایشو پر ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کو تیار نہیں۔ خود اس اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف کے اپنے الفاظ تھے کہ برہان وانی آزادی کا سپاہی تھا اور کشمیریوں کی تحریک، آزادی کی تحریک ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی خاطرجدوجہدکرنے والے بہادرکشمیری کمانڈربرہان وانی کوبھارتی فوجی درندوں نے جس ظالمانہ طریقے سے شہید کیا، وہ قابل مذمت ہے۔پوری پاکستانی قوم عظیم مجاہدکی شہادت پرخراج تحسین پیش کرتی ہے۔مظلوم کشمیریوں کوصرف اس بات کی سزادی جارہی ہے کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں ۔ ازلی دشمن بھارت نے ہمیں1947 ء سے اب تک کب چین سے رہنے دیاہے۔ پاکستان بنتے ہی ہماری شہ رگ کشمیر پرفوجی یلغار،1948ء میں پاکستان سے چھیڑچھاڑپھر 1965ء میں اچانک پاک وطن پرحملہ پھر1971ء میں نام نہادجنگ کی آڑ میں مشرقی پاکستان کوجداکردیاپھر یہاں بس نہیں کیااب تک پاک وطن کی سرحدی خلاف ورزی ،کنٹرول لائن اورنارووال سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری لائن پر بلااشتعال فائرنگ ،بم دھماکوں اورتخریبی کارروائیوں میں پاک وطن کے مال وجان کانقصان کیاجارہاہے۔ آئے روز را کے ایجنٹ مختلف شہروں سے پکڑے جا رہے ہیں۔ اگر حکومت اور فوج ایک پیج پر نہ ہوتیں تو بھارت اپنی مکاریوں اور سازشوں میں کامیاب ہو جاتا۔
جو لوگ وزیراعظم پر یہ کہہ کر تنقید کرتے ہیں کہ وزیراعظم بھارت کے ساتھ نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اسے اس کی زبان میں جواب نہیں دیتے ان کے لئے وزیراعظم کا یہ جملہ کافی ہونا چاہیے کہ ’’بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف کشمیریوں کی سفارتی ، سیاسی اور اخلاقی مدد جاری رکھیں گے‘‘۔ اس سے واضح الفاظ میں اور کیا کہا جا سکتا ہے‘ کم از کم مجھے تو علم نہیں۔ گورنر ہاؤس لاہور میں ہونے والی اس پریس کانفرنس سے قبل اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور کشمیر پر پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا ۔
گزشتہ رو ز اس سلسلے میں شہر شہر ریلیاں اور جلوس نکالے گئے۔ سیمینار بھی منعقد کئے گئے۔دفاتر میں سرکاری ملازمین سیاہ پٹیاں باندھ کر پہنچے اور پوری قوم نے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے یہ عزم دہرایا کہ آزمائش کی ہر گھڑی میں وہ کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے۔پاکستانی سفارت خانوں میں بھی یوم سیاہ کی مناسبت سے خصوصی تقریبات ہوئیں۔ اقوام متحدہ کے دفاتر کے سامنے بھی احتجاج کیا گیا۔ اس یوم سیاہ سے کم از کم بھارت کو یہ پیغام تو چلا گیا کہ پاکستان کی حکومت اور اس کے عوام اس مسئلے پر یکجا ہیں اور حکومت خاص طور پر اس مسئلے پر کسی قسم کا کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت اگر سمجھتا ہے کہ اس کے سنگین مظالم اور بربریت کی داستانیں جہدوجہد آزادی کشمیر کو دبا دیں گی یا وہاں کے لوگوں میں جذبہ حریت کمزور پڑ جائے گا‘ تو یہ اس کی بھول ہے۔ بھارت نہتے کشمیری عوام پر مظالم کے جتنے پہاڑ توڑے گا‘ یہ جدوجہد اتنی ہی مضبوط ہو گی۔ جہاں تک کشمیر میں موجود بھارت کے سات آٹھ لاکھ فوجیوں کی بات ہے‘ تو گزشتہ چھ عشروں سے وہاں یہ لاکھوں فوجی جدید اسلحے ‘بڑی تعداد اور بھارت کی پشت پناہی کے باوجود کشمیر کی تحریک کو دبا نہیں سکے اور دبانا تو دُور کی بات، اسے کمزور تک نہیں کر سکے۔بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے تو کہتا رہے‘ ہو گا وہی جو کشمیری عوام چاہیں گے۔ انہوں نے اپنے خون سے جدوجہد کی جو داستان لکھی ہے، وہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور ظلم و ستم سے مٹنی ہوتی تو کب کی مٹ چکی ہوتی۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور رہے گی۔ گزشتہ دنوں جس رفتار سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت میں اضافہ ہوا ہے، اس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ کشمیر ی لیڈر برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کو مزید تیز کر دیا ہے۔ بھارت کشمیری عوام پر ظلم و بربریت کی انتہا کر کے اس بھول میں مبتلا ہے کہ وہ ڈرا دھمکا کر اپنے نتائج حاصل کر لے گا۔ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت ملنا ان کا بنیادی حق ہے۔ گزشتہ روز یوم سیاہ میں ہر تقریر اور ہر بیان بھارت کے دل پر برچھیوں کے وار کر رہا تھا۔ بھارت اپنے گھناؤنے ارادوں سے اقوام متحدہ اور دنیا کو جس طرح گمراہ کرتا آ رہا ہے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔تاہم جن تحریکوں میں خون شامل ہو جائے ،وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں‘ خون اپنا انتقام خود لے کر رہتا ہے۔دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مقبوضہ کشمیرمیں ہو رہی ہیں۔ایسے ایسے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں کہ ہر درد مند دل کانپ اٹھا ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے یہ الفاظ باعث اطمینان ہیں کہ اب دنیا کو کھل کر بتانا ہوگا کہ بھارت کس طرح خطے کے امن کو برباد کر رہا ہے ۔ انہوں نے توقع کی کہ کم ازکم اپوزیشن بھی اس معاملے پر کھل کر حکومت کا ساتھ دے گی۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا شاید اس سے بہتر موقع میسر نہ آسکے ۔ اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف اگر اس معاملے میں بھی حکومت کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی تو اس کے رہنماؤں کی حب الوطنی پر لوگ انگلیاں اٹھائیں گے کیونکہ یہ مسئلہ کسی حلقے میں دھاندلی یا اقتدار کی رسی کشی کا نہیں بلکہ لاکھوں کشمیریوں کی عزتوں‘ عصمتوں اور جانوں کا معاملہ ہے۔ انہیں کسی طور پر بھی بھارتی بھیڑیوں اور لاکھوں فوجی درندوں کے سامنے نوچ کھانے کے لئے نہیں چھوڑا جا سکتا۔گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے یوم سیاہ میں عوام کی بھرپور شرکت کو بھارت کے لئے طمانچہ قرار دیا اور اس امر کو دہرایا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم ہورہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کے چمپئن ملک اور اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ پاکستان کی سڑکوں اور ایوانوں سے اٹھنے والی یہ آوازیں بھارت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونی چاہئیں۔کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا سفر اور جذبہ یونہی توانا رہا تو ایک دن لاکھوں کشمیریوں کی جدوجہد کا خون ضرور رنگ لائے گا۔یہ خون اور یہ جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی۔