خبرنامہ

وزیرخزانہ کا نوازش نامہ،،اسداللہ غالب

اسحق ڈار تیسری مرتبہ وزیر خزانہ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ میرے لئے وہ بھائیوں جیسے ہیں اور جب سے اسٹیٹ بنک میں سعید احمد چمن آ گئے ہیں، مجھے سارا ماحول گھر جیسا لگتا ہے،حکومتی امور سے اختلاف یا اتفاق اپنی جگہ مگر ذاتی تعلق اپنی جگہ۔یہ ایک باریک سی لکیر ہے مگر ایک صحافی کے طور پر مجھے اس لکیر کا خیال رکھنا لازم ہے۔
میں نے سکوک بانڈز کی ریکارڈ فروخت پر قلم صرفا اسلئے اٹھایا تاکہ قوم کو حوصلہ ملے کہ ملک کو لاحق خطرات سے جب بیرونی سرمایہ کارنہیں گھبراتے تو ہمارے اوسان کیوں خطا ہو رہے ہیں اور ہم ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں، ہمیں بھی وہی حوصلہ کرنا چاہئے جس کامظاہرہ فرینڈز آف پاکستان کر رہے ہیں، یہ فرینڈز آف پاکستان کی اصطلاح زرداری صاحب کے دور میں ایجاد ہوئی تھی۔
میں نے سکوک بانڈز پہ لکھا اور ایک عام آدمی کی فہم کے مطابق لکھا۔مگرا س پر وزیر خزانہ کی طرف سے مجھے صبح سویرے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں سکوک بانڈز کے محیرا لعقول سودے کی تفصیلا ت بیان کی گئی ہیں، یہ بجائے خود م �آدمی کے لئے دلچسپ ہیں۔
پہلے تو مجھے یہ اعتراف کرنا ہے کہ میں ماہر معاشیات ہر گز نہیں ، یہ سبق میں نے میٹرک اور ایف اے تک پڑھا، ا سکے بعد انگلش لٹریچر کا سودا سر میں سما گیا، اس لئے معاشیات کا علم ادھورا رہا، پورا پڑھ لیتا تو میں سکوک بانڈز کے بارے میں وہی کچھ لکھتا جس کا تذکرہ وزیر خزانہ کے نوازش نامے میں درج ہے۔اب میں اس کی روشنی میں وہ سب کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا، جو پس پردہ ہوتا رہا اور جس نے پاکستان کے خزانے کو لبالب بھر دیا۔
یہ منطق میری سمجھ سے باہر ہے کہ ایک طرف ملک کو سنگین سیکورٹی خطرات درپیش ہیں اور یہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں، دوسری طرف معاشی معجزے رونما ہو رے ہیں، ابھی جو ستمبر گزرا ہے،ا سکے آخری دن وزیر اعظم نے قوم کومژدہ سنایا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا،ا سطرح ان کایہ وعدہ پورا ہو گیا کہ ہم کشکول توڑ دیں گے، وزیر خزانہ نے تو یہ خوشخبری اگست ہی میں سنا دی تھی۔اب وزیر خزانہ ایک بلین ڈالر کے سکوک بانڈز فروخت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب ملک ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہو، وہ اتنی بڑی رقم اینٹھ لے تو عقل سٹپٹا کر رہ جاتی ہے کہ شاید بر صغیر کے ایٹمی میزائل ایک دوسرے سے خوف زدہ ہیں اور جس بات کا ہمیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے، وہ ہونے نہیں جا رہی، یہ حقیقت باہر کی دنیا کو بخوبی پتہ ہے، مگر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے، ہمارے ہاں بیانات کا مشاعرہ اسی طرح چلتا رہ اتو لوگ زمیں دوز مورچے کھود لیں گے تاکہ ایٹمی تباہی سے بچ سکیں۔ مگر مجھے امید ہے کہ اتنی دیر میں کوئی اور اتنا بڑا معاشی معرکہ سر انجام دے دیا جائے گا کہ عقل اس پر بھی حیران رہ جائے گی، بہر حال یہ دنیا معجزات کی ہے،اور مجھے کامل یقین نہے کہ ہم ا ن کے سہارے آگے ہی �آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔
بات پھر درمیان میں رہ گئی،حکومت نے کچھ پیسہ اکٹھا کرنے کا سوچا تو اس کے لئے سکوک بانڈز کے اجرا کا فیصلہ ہوا،یہ بانڈز اسلامی بنکنگ کے دائرے میں آتے ہیں اور ان کے تقاضے بھی کچھ مختلف ہیں اور کسی قدر پیچیدہ بھی۔ عام طور پر حکومت جب بانڈز کا اجرا کرتی ہے تو مالیاتی ٹیمیں مشرق اور مغرب کا رخ کرتی ہیں، اصطلاح میں اسے روڈ شو کہا جاتا ہے میں اس کاترجمہ کروں تو کہوں گا کہ یہ ٹیمیں سڑکوں پر ماری ماری پھرتی ہیں۔حالیہ سکوک بانڈز کے لئے صرف مغرب کا ہی رخ کیا گیا ، ٹیم میں سیکرٹری خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بنک شامل تھے وہ دوبئی، لندن ، نیویارک ا ور بوسٹن گئے، انہوں نے ایک سو سے زیادہ سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کیں۔ اس ساری مہم کی نگرانی کے لئے چار بڑے مالیاتی اداروں پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا گیا،ا س میں اسٹنڈرڈ چارٹرڈ بنک،سٹی بنک، ڈوئچے بنک ، دبئی اسلامک فنانس بنک اور نو ر بنک شامل تھے۔ حکومتی ٹیم نے جس سے بھی بات کی ،اسے سرمایہ کاری کے لئے راغب پایا،ا س کی ٹھوس وجہ یہ تھی کہ ملک کی معاشی شرح نمو دنیا کی توقعات سے بڑھ کر ہے۔ ہارورڈ کے سنٹر فار انٹرنیشنل ڈیولپ منٹ کے تخمینے کے مطابق آئندہ دس برس میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح میں 5.02 فی صد کے حساب سے اضافہ ہو گا۔جبکہ ایشین بنک کے مطابق یہ شرح 5.2 % اور آئی ایم ایف کے مطابق شرح نمو5 % رہنے کا امکان ہے۔ ان بڑے اداروں کے تخمینوں نے پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار پر دنیاکے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ حکومت کی اصلاحات کی پالیسیوں کو بھی سراہا جا رہا ہے۔
چار اکتوبر کو روڈ شو ختم ہوا ، پانچ اکتوبر کو وزیر خزانہ تو بذات خود آخری میٹنگ میں شریک نہ ہوسکے کیونکہ قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا گیا تھا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا اعلان بھی ہوگیا تھاجن میں وزیر خزانہ کی موجودگی لازمی تھی، اس بنا پر جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا گیاا ور ویڈیو لنک یا ٹیلی کانفرنس کے ذریعے معاملات کو حتمی شکل دینے میں وزیر خزانہ نے فیصلہ کن کردارا دا کیا۔پاکستان کا خیال تھا کہ سکوک بانڈز سے پانچ سو ملین اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن جو پیش کشیں سامنے آئیں۔ وہ 2.4 بلین ڈالر کی تھیں۔ پاکستان نے منافع کی ابتدائی شرح 5.75% مقرر کی تھی مگر سرمایہ کاروں کے وفور شوق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منافع کی شرح کم کر کے 5.5% مقرر کی گئی، اگلے چند گھنٹوں میں پاکستان کی جھولی میں ایک بلین ڈ الر جمع ہو گئے۔ واضح رہے کہ اس سودے میں کسی پاکستانی یا اوور سیز پاکستانی کو حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی تاکہ مامے چاچے بھتیجے بھانجے فائدہ نہ ا ٹھا سکیں۔اس سودے میں یورپ سے 38%، شمالی امریکہ سے27%، اتنے ہی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے،6% ایشیا سے، اور 2% دیگر ممالک شریک ہوئے۔
تو اے میرے ملک کے لوگو! اگر آپ ویسے ہی مایوسی کا شکار ہیں تو اور بات ہے اور اگر�آپ بھارت سے بھی مرعوب ہیں تو یہ بھی �آپ کااپنا فعل ہے مگر جس ملک کو پاکستان کہتے ہیں، وہ بڑا خوش قسمت واقع ہوا ہے اورا س پر اللہ کا خصوصی انعام ہے۔اس کی نعمتوں کا جس قدر بھی شکر بجا لاؤ ، کم ہو گا۔
میں نے سکوک بانڈز کے پردے میں اپنے ملک کے لوگوں کا مورال بڑھانے کی کوشش کی ہے، مجھے کتنی کامیابی ملی ،ا سکا پتہ بعد میں چلے گا، مگر وزیر خزانہ نے اپنے اندازوں سے پانچ گنا بڑھ کر کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ پاکستان کے لئے مبارکباد کے لائق ہے!!
مبارک ہو کہ پاکستان کسی تنہائی کا شکار نہیں ہوا، مودی کی بڑھکیں رائیگاں چلی گئیں۔