خبرنامہ

وزیر اعظم کا امن مشن اور چارسدہ کی سد راہ۔..۔اسداللہ غالب

پہلے تو چارسدہ کا ذکر۔ جہاں دہشت گردی کی بھیانک واردات ہوئی،شہداکے خاندانوں سے اظہار تعزیت جاری ہے اور زخمیوں کا علاج معالجہ بھی۔آرمی چیف خود موقع پر پہنچ گئے ہیں ، عمران خان بھی بنفس نفیس وہاں موجود ہیں اور اعلی حکومتی قائدین بھی۔
وزیرا عظم نے آرمی چیف کے ہمراہ سعودیہ اور ایران کا دورہ کیا، بنیادی مقصد یہ تھا کہ خطے میں امن کی فضا برقرار رکھی جائے۔ نیت نیک ہو تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کہ نتیجہ حسب توقع برآمد ہو گا یا نہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو ایک ننھی چڑیا چونچ میں پانی کے قطرے لا کر ڈالتی رہی، ان قطروں سے آگ بجھ نہیں سکتی تھی مگر تاریخ میں ایک مثال قائم ہو گئی کہ مسئلے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جس حد تک کردارا دا کیا جا سکتا ہے، اس کی کوشش انسان پر فرض ہے۔میری رائے البتہ کچھ مختلف تھی جس کا مجھے ایک نہائت قریبی دوست نے غصیلے لہجے میں طعنہ دیا۔میری رائے تھی کہ پاکستان ایک تو خود گوڈے گوڈے پھنسا ہوا ہے بلکہ بڑی کوشش کر کے پھنسا دیا گیا ہے،تاکہ باقی اسلامی ممالک کا فلوجہ بنانے کے بعد حرمین شریفین کو نشانہ بنایا جائے تو پاکستان ا سکی مدد کے قابل نہ ہو، اس ضمن میں ، میں یہ لکھ بیٹھا کہ کیا پدی، کیا پدی کا شوربہ۔ طاقت کے مراکز نے ا سے طنز سمجھا یا منفی تنقید حالانکہ میں نے زمینی صورت حال کا تجزیہ کیا تھا۔اور میرے خیال میں یہ جوہری حقائق ابھی جوں کے توں ہیں۔
جس زمانے میں امریکہ اور عراق کی پہلے پہل ٹھنی تو نواز شریف ہی وزیر اعظم تھے، انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ اس سنگین مسئلے پر جنگ چھڑنے کے پانچویں دن بعد قوم سے براہ راست خطاب کریں گے، میرے مرشد مجید نظامی کے ذریعے میاں شہباز شریف مجھ سے تقریر لکھوانے کے کے لئے مجھے ماڈل ٹاؤن لے گئے۔ وزیر اعظم سے پہلے تومیں نے یہ کہا کہ پاکستان جیسے ملک کی طرف سے جنگ چھڑنے کے پانچویں روز موقف کاا ظہار انتہائی سستی ا ور کاہلی تصور کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اب تو اعلان ہو چکا، میں نے کہا کہ آپ قومی ا سمبلی سے خطاب کریں اور یہ براہ راست نشر ہو جائے،۔ وہ اپنے موقف پر جمے رہے ، تقریر لکھنے کا فریضہ میرے ہی ایک کولیگ کے ذمے لگایا گیا مگر میں نے کہا کہ اگرآج بھٹو ہوتا تو وہ ایک جہاز پکڑتا اور عراق کے ارد گرد جو ہوائی اڈہ چالو ملتا ، وہاں اترتا اور امن مشن کو آگے بڑھانے کا تاثر دیتا یعنی ا س کی آنیاں جانیاں دیکھنے والی ہوتیں۔ نواز شریف نے اس مشورے کو قبول کیا اور ایک نہیں ،دو امن پھیرے لگائے۔
موجودہ صورت حال میں وزیر اعظم نے پھر یہی کوشش کی مگر اب کے یہ ایک سنجیدہ کوشش ہے، وہ اپنے ساتھ آرمی چیف کو بھی لے گئے۔ ایک تو وزیر اعظم کے سعودی شاہی خاندان سے ذاتی اور قریبی تعلقات ہیں۔ آرمی چیف کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ قصہ زمیں بر سر زمیں طے کر لیا جائے۔ریاض میں اس وفد کو اعلی پروٹول دیا گیا، شاہ سلمان نے فوری طور پر ان سے ملاقات کی اور پر تکلف عشائیہ بھی دیا، وزیر اعظم بڑی امیدیں لے کر یہاں سے تہران پہنچے۔ صدر روحانی نے بھی بذات خود اس وفد کی بات سنی، آرمی چیف نے ایرانی فوجی قیادت سے بھی ملاقات کی۔اگرچہ اس امن مشن کے بارے میں کوئی اعلامیہ سامنے نہیں آیا جس کا مطلب یہ نہیں کہ وفد کے ہاتھ کچھ نہیں لگا بلکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ برف کچھ کچھ پگھلی ہے اور سارے فریق مل بیٹھیں گے تو مزید بات بن جائے گی اور عالم اسلام ایک یقینی خلفشار سے بچ جائے گا۔۔
وزیر اعظم تو تہران سے ڈیووس چلے گئے جہاں ہر سال ایک عالمی اقتصادی اجتماع ہوتا ہے۔اور آرمی چیف وطن لوٹ آئے ہیں جہاں چار سدہ کا سانحہ رونما ہو چکا تھا۔
تہران ا ور ریاض کے مابین قیام امن کے لئے ہر مسلمان دعا گو ہے۔مگر یہ جس صورت حال میں ہم پھنس چکے ہیں ، اس سے کیسے نکلا جائے۔ نظر تو یہ آرہا تھا کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی مگر پٹھانکوٹ میں بھارتی را نے ایسا ڈرامہ رچایا کہ اس کی آڑ میں پاکستان کو نئے سرے سے نشانہ بنایا جارہا ہے، یہ کوئی الزام بازی نہیں، بھارتی وزیر دفاع نے خود کہا کہ وقت اور جگہ کاا نتخاب ہم کریں گے ا ور دشمن کے ساتھ وہ سلوک کریں گے کہ اسے بھی ہماری طرح درد محسوس ہو۔ ظاہر ہے بھارت سامنے آکروار نہیں کر سکتا کہ اس سے ایٹمی تباہی کا خدشہ ہے،اس لئے وہ وقفے وقفے سے پاکستان کا لہو پی رہا ہے۔
اگر ہم یہ سوچیں کہ جس طرح جنگ صرف فوج کو لڑنی پڑتی ہے،اسی طرح دہشت گردی کاخاتمہ بھی اکیلے فوج کی ذمے داری ہے تو یہ ہماری بے وقوفی ہے اور ہم اس بے وقوفی کا ارتکاب کر رہے ہیں بلکہ ا یک قدم آگے ہو کرفوج کے مقابل آن بیٹھے ہیں، اس طرح تو لڑ لی فوج نے لڑائی ، یہ تو پہلے ہی چو مکھی جنگ تھی، اسلم بیگ نے کہا تھا کہ ہمارا دشمن بے چہرہ ہے۔اور اگر ہم بھی اپنے چہروں پر نقاب اوڑھ کر دہشت گردوں کے ساتھی بن جائیں توکہاں کا امن اور کیسا امن۔میں نئی نسل کو اندھیرے میں نہیں رکھ سکتا ، یہی تو مشرقی پاکستان میں ہوا تھا۔اور اب کوئی بتائے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کس صوبے نے عمل درآمد کیا ہے۔وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔اور کچھ زیادہ ہی ہے۔دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے،یہ کہہ کرجناب زرداری تو راہ فرار اختیار کر گئے مگر قائم علی شاہ،خورشید شاہ ا ور چانڈیو یہیں بیٹھے ہیں ، اور سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔بھارت کو اس سے زیادہ سنہری موقع کب ملے گا۔اور کوئی روز ایسا نہیں گزرتا کہ لاشیں نہ گرتی ہوں۔آج ہم بیس سے زائد طلبہ کو رو رہے ہیں اور بیسیوں زخمی پڑے ہیں۔یہ تو آرمی کمانڈوز کو سلام کہ ان کی بر ق رفتار کاروائی سے تمام دہشت گرد جلد ہی ڈھیر ہو گئے انہیں خو دکش دھماکے کا موقع نہیں ملا۔مگر جان ایک بھی چلی جائے تو وہ قیمتی ہے یہاں تو دو درجن تک تعداد بتائی جا رہی ہے، آرمی پبلک اسکول میں گلابوں کے ننھے شگوفوں کا خون کیا گیا ، آج نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو کل کے پاکستان کے معمار بننے والے تھے۔
میں واپس جاتا ہوں ایران ا ور سعودیہ کے مسائل کی طرف ، اگر وہ بھی یہ سمجھ لیں کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ ہمارا دشمن کوئی اور ہے اور مشترکہ ہے تو یہ جو باہمی سر پھٹول ہے ، یہ ختم ہو جائے گی ا ور پھر ہمیں مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف مورچہ زن ہونا چاہئے۔ کوئی وجہ نہیں کہ جب دشمن متحد ہے تو ہم متحد نہ ہو سکیں اور اگر ہم متحد ہو جائیں تو میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ اس دشمن کا فوری خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ کاش ! اس اسپرٹ کے ساتھ ہم دہشت گردی کا مقابلہ کرنے پرآمادہ ہو جائیں۔
اب دعاؤں کے علاوہ اور رہ کیا گیا ہے۔