خبرنامہ

وزیر اعظم کی تقریر میں کیا کمی رہ گئی۔۔اسداللہ غالب

جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کا خطاب مجھے اچھا لگا۔ اس کی وجہ بڑی معقول تھی، اقوا م متحدہ میں کشمیر کا ذکر ہم نے ایک عرصے تک چھوڑے رکھا۔ میں یہ خبر پڑھ کر حیران ہوا کہ ایم این اے اعجازا لحق کشمیر کا مسئلہ اٹھانے کے لئے برسلز میں موجود ہیں مگر ان کے والد گرامی نے ا س مسئلے کو گیارہ سال تک کیپ کئے رکھا، محمد خاں جونیجو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے گئے تو انہوں نے کشمیر کا ذکر کیا، مجھے یاد ہے کہ میرے مرشد مجید نظامی اس پر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجھے ڈپٹی ایڈیٹر کے طور پر ہدایت کی کہ محمد خاں جونیجو کی آئندہ سے حوصلہ افزائی کیا کروں ۔محترمہ بیگم مجیدنظامی شوپیاں سے تعلق رکھتی تھیں ، اس لئے مجید نظامی صاحب کوکشمیر سے اور بھی زیادہ محبت تھی، قائد اعظم کا یہ قول بھی ان کے پیش نظر تھا کہ کشمیر پاکستان کی ا قتصادی شہہ رگ ہے، انہوں نے اپنی آخری خواہش کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ کشمیر کو آزادیکھنا چاہتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کے لئے انہوں نے یہ پیش کش بھی کی تھی کہ ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر انہیں جموں کی بھارتی چھاؤنی پر داغ دیا جائے، بھارت تو اوڑی کو روتا ہے، جبکہ میرے مرشد محترم مجید نظامی تو جموں چھاؤنی کو راکھ بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔
ان کالموں میں میں نے کشمیری وزیر اعظم کو کیا کیا طعنے نہیں دیئے، میں نے ان کے ارد گرد کشمیریوں کی گنتی بھی کی، اسحق ڈار۔ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق ، سرتاج عزیز اور محی الدین وانی ، مجھے قلق تھا کہ کشمیریوں کی اتنی بڑی ٹیم کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم کشمیر پر خاموش رہتے ہیں اور اب جبکہ انہوں نے صرف اور صرف کشمیر ہی کا ذکر کیا تو میرے قلم کے نہ تو کان بند تھے، نہ اس کی زبان کو گھن لگ گیا تھا کہ میں اس تقریر کی ستائش نہ کرتا۔
مگریار لوگوں نے وزیر اعظم کی تقریرمیں ایک کے بعد ایک کمی کی نشاندہی کی، ٹاک شوز میں بھی وزیر اعظم کو تقریر کے سلسلے میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، میں وزیر اعظم کا وزیر دفاع نہیں ہوں مگر اپنے دفاع کا حق مجھے حاصل ہے۔اور کشمیریوں کے دفاع سے تو مجھے کوئی باز نہیں رکھ سکتا۔
اس وقت پاکستان کو بھارت سے کیا مسئلہ در پیش ہے، کل بھوشن کا، بلوچستان میں بھارت کی ممکنہ مداخلت کا، کسی بلوچ لیڈر کو بھارت میں سیاسی پناہ دینے کا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ممکنہ بھارتی مداخلت کا ۔۔۔ یا مقبوضہ کشمیر میں پچھلے ڈیڑھ ماہ سے بھارتی افواج کے جبر وستم کا، پیلٹ گولیوں سے نو سو افراد کواندھا کرنے کا، ایک سوسے زاید کشمیریوں کو شہید کرنے کا، پورے کشمیر میں ڈیڑھ ماہ سے کرفیو کے نفاذ کا، کشمیری عوام، تاجروں، صنعتکاروں، طالب علموں ، دکانداروں اوراساتذہ کی طرف سے مسلسل ہڑتال کا ، جسے �آپ سول نافرمانی کا نام بھی دے سکتے ہیں ، کشمیری مرد وزن پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں ، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، اپنے شہیدوں کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کے کفن میں لپیٹ کر دفن کر رہے ہیں، اس کیفیت کو دنیا انتفاضہ کا نام دیتی ہے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ میں نے جومسائل گنوائے ہیں ان میں سے �آپ کس کو اہمیت دیتے ہیں، کشمیریوں کے سرخ لہو کے متلاطم سمندر کو یا مودی کی بڑھک بازی کو یاایک کل مونہے کل بھوشن کو۔
وزیر اعظم اگر وانی شہید کو انتفاضہ کالیڈر نہ کہتے تو کیا مودی نے تڑپ کر پاکستان کا حقہ پانی بند کرنے کی منصوبہ بندی کرنا تھی، کیا اس نے سارک کے اجلاس میں شرکت سے انکار کرناتھا، کیا اس کی اٹوٹ انگ بنگلہ دیشی حسینہ واجد نے بھی سارک کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا تھا، کیا سندھ طاس کے معاہدے کی فائل کو پھاڑ نے کا خیال بھی مودی کے دل میں آناتھا۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے جن لوگوں کو کشمیر سے چڑ ہے، جو اپنے اخبار میں سوشما سوراج کی یہ لیڈ سجاتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، وہی وزیر اعظم کی تقریر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، وہ بھارت کے لہجے میں بولتے ہیں، بھارت کو کشمیر کا نام سننا گوارا نہیں ،اسلئے پاکستان میں بھارتی شردھالووں کو بھی کشمیر کا نام سننا گوارا نہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے اور بھارت سے دوستی کی پینگ جھولے، واہگہ کھول دے اور اس لکیر کومٹاد ے جس میں مشرقی پنجاب کے لاکھوں مسلمان شہیدوں کا خون رچا بسا ہے۔
فرض کیجئے وزیر اعظم کی تقریر بھارت کی دہشت گردی پر مرکوز ہوتی، تو اس پر یقین کون کرتا، ہم نے کتنے ہی ثبوت بان کی مون کے حوالے کئے ہیں مگر اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔مجھے بتائیں کہ کیا ہمیں یہ ڈھول پیٹنے کی ضرورت ہے کہ مودی ایک خونخوار درندہ ہے، وہ دو ہزار مسلمانوں کا خون پی چکا ہے، اس کی اس درندگی ا ور وحشت کی وجہ سے دنیا نے ا سے دہشت گرد کہہ کر ویزہ دینے سے انکار کر رکھا تھامگر جونہی وہ بھارتی وزیر اعظم منتخب ہو اتو اس پر سارے ویزوں کی بارش ہو گئی، اب نہ امریکہ ا سکو دہشت گرد کہتا ہے، نہ ا سے ویزہ دینے سے انکار کرتا ہے تو پھر ہمارے وزیر اعظم اس کی دہشت گردی کو اچھالتے تو کسی نے ا س تقریر پر کیا توجہ دینا تھی، دنیا تو چڑھتے سورج کی پجاری ہے، مودی اس وقت بھارت کا وزیر اعظم ہے، اسے کون دہشت گرد سمجھے گا۔ مگر جوکچھ مودی ا ور ا سکی فوج کشمیر میں ستم ڈھا رہی ہے، اسے دنیا کے سامنے پیش کر کے ہم ایک مظلوم قوم کے حق میں آواز اٹھانے کا حق ادا کر سکتے ہیں۔کشمیر میں ظلم و ستم ساری دنیا کے سامنے ہے ، پھر بھی دنیا نے اپنے کانوں کو لپیٹ رکھا ہے اور�آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے مگر ہم تو اپنی زبان پر تالے نہ لگائیں ، ذرا سوچئے کہ کیا وانی شہید کے دن موت کو گلے لگانے کے تھے، اسے تو زندگی سے اٹھکیلیاں کرنا تھیں ، بہاروں کو خوشبو سے معطر ہونا تھا، کشمیر کی جنت ارضی کے مزے لوٹنے تھے مگراسنے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا،صرف اس لئے کہ وہ کشمیر کو آزاد دیکھنا چاہتا تھا، ہمارے قائد اعظم کی طرح، مرشد مجید نظامی کی طرح، وزیر اعظم نے بھی تو اپنی تقریر میں اسی آرزو کا اظہار کیا ۔۔۔تو کیا برا کیا۔