خبرنامہ

وزیر اعظم کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا تجزیہ…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وزیر اعظم کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا تجزیہ…اسد اللہ غالب

میں جب یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو کراچی اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کا رجحان ہے۔ ملک کے کاروباری طبقے نے یہ خوشگواراور مثبت رد عمل وزیر اعظم کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے جوب میں ظاہر کیا ہے۔
کوئی اس اعتراض کو در خورا عتنا نہیں سمجھے گا کہ حکومت کی ٹرم ختم ہونے کے قریب ہے اور وہ ایک میجر پالیسی کا ا علان کیوں کر رہی ہے، یہ اعتراض اس لئے جائز نہیں کہ حکومت پہلے دن سے آخری دن تک حکومت ہے اور ا س دوران وہ پوری طرح ایکٹو ہو کر کام کر سکتی ہے، بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا تھا تو پہلاا ٓرڈر، زیڈ اے سلیری کو پاکستان ٹائمز کی نوکری سے ہٹانے کا تھا۔ کسی نے اعتراض نہیں اُٹھایا کہ آپ پہلے ہی دن اتنا بڑا یا بُرا کام کیوں کر رہے ہیں، ابھی حکومت کاری کے معالات کو سمجھ تو لیں۔ چنانچہ موجودہ حکومت بھی اپنے آخری لمحے تک ہر قانونی کام کرنے کی مجاز ہے اور کرکٹ کے میدان میں آپ کسی باﺅلر پر یہ بابندی نہیں لگا سکتے کہ وہ آخری بال پر کھلاڑی کو آﺅٹ نہیں کر سکتا ، نہ کسی بیٹسمین کو منع کر سکتے ہیں کہ وہ آخری بال پر چوکا یا چھکا نہیں لگا سکتا۔ حکومتیں تو زیادہ تر تیزی دکھاتی ہی آخری دنوں میں ہیں تاکہ ان کی وجہ سے وہ اگلے الیکشن میں زیادہ سے زیادہ اور فوری فائدہ اُ ٹھا سکیں۔ وزیر اعظم عباسی بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنی آئینی ٹرم کے خاتمے تک کام جاری رکھیں گے اور اس سے قبل انہیں کسی کام سے روکا نہیں جا سکتا۔
وزیر اعظم نے قومی معیشت اور مالیات کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ایک جامع اوربھر پور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کااعلان کیا ہے۔اسے ایک میڈیا بریفنگ میں پیش کیا گیا اور اخبار نویسوںکی طرف سے اُٹھائے گئے تمام اعتراضات اور سوالات کے جوابات بھی سامنے آ گئے۔ مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب بھی میڈیا بریفنگ میں موجود تھیں۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملک میں ٹیکس نظام کو آسان بنانے، ٹیکس چوری کو روکنے اور ٹیکس دائرہ کار کو وسعت دینے کے لئے اقتصادی اصلاحات پیکج کے تحت پانچ نکاتی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ قومی شناختی کارڈ نمبر ہی انکم ٹیکس نمبر ہو گا، 12 لاکھ سالانہ آمدن والے شہر انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے، 24 سے 48 لاکھ سالانہ آمدن پر 10 فیصد، 48 لاکھ سے زائد سالانہ آمدن پر 15 فیصد ٹیکس ہو گا، بیرون ملک سے رقوم کو قانونی طریقے سے لانے پر صرف 2 فیصد جرمانہ ہوگا، صوبائی سطح کے ٹیکس کو بھی ایک فیصد کی شرح پر لائیں گے، کم مالیت والی جائیداد 100 فیصد منافع پر حکومت خریدنے کی حقدار ہو گی، ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے آرڈیننس جاری کیا جائے گا جو بعد میں قانون کی شکل اختیار کر لے گا، ایمنسٹی سکیم 30 جون 2018ءتک جاری رہے گی، ایمنسٹی سکیم کا اطلاق سیاسی لوگوں، ان کے زیر کفالت افراد اور سرکاری ملازمین پر نہیں ہو گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم وقت کی ضرورت ہے، اس پر ہم نے گزشتہ چھ ماہ سے متعلقہ فریقین سے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا، اس کا بنیادی مقصد ایک ایسا پیکج دینا تھا جس میں ٹیکس کے دائرہ کار کو وسعت دی جا سکے اور عوام کو سہولت حاصل ہو، ٹیکس دینا ہر ذمہ دار شہری کے بنیادی فرائض میں شامل ہے، اس وقت کیفیت یہ ہے کہ ملک میں 207 ملین لوگوں میں سے صرف 12 لاکھ لوگ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرا رہے ہیں جن میں پانچ لاکھ زیرو ریٹرن کے حامل ہوتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف سات لاکھ لوگ انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں جن میں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ہے، یہ ایک غیر پائیدار صورتحال تھی اور حکومت اس پر سوچ بچار کر رہی تھی کہ اس شعبہ میں انقلابی اصلاحات وقت کی ضرورت ہے، دنیا بھر میں جن شہریوں کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے وہ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور جن کی آمدنی کم ہوتی ہے ان کے لئے ٹیکس کی شرح کم ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ غیر پائیدار ٹیکس کے نظام کی وجہ سے بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہوتی ہے جو غیر منصفانہ نظام ہے۔ وزیراعظم نے پانچ نکاتی ایمنسٹی سکیم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نیا نظام پانچ بنیادی عوامل پر مشتمل ہو گا، اس میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا، پہلے ٹیکس نادہندگان کو نوٹس دیئے جاتے تھے جن میں بدعنوانی کا احتمال تھا، اب جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے نیا نظام وضع کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے چوتھے اہم جزو کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملک میں ٹیکس سے بچنے کے لئے پراپرٹی کی صورت میں سرمایہ کاری کی جاتی رہی، ملک میں جو طریقہ کار رائج ہے اس کے مطابق جائیداد کے کاغذات میں قیمت کم لکھی جاتی ہے جبکہ حقیقت میں جائیداد کی ویلیو کئی گنا بڑھ کر ہوتی ہے، ایک کروڑ پراپرٹی کی مالیت کاغذات میں پانچ لاکھ دکھائی جاتی ہے، اس صورتحال سے بچنے کے لئے نئے نظام میں جائیداد ڈکلیئر کرنے پر ایک فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا جبکہ اپنی جائیداد کی مالیت کم بتانے والوں کے خلاف اقدامات کئے جائیں گے، اس ضمن میں کم مالیت ظاہر کرنے والے افراد کی جائیداد کو ڈکلیئر کردہ ملکیت سے دگنا قیمت پر حکومت خریدنے کی مجاز ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ نئے ٹیکس نظام کو پائیدار اور مربوط بنانے کے لئے صوبائی حکومتوں کے ساتھ بھی بات چیت کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا کہ وہ بھی مختلف ٹیکسوں کی شرح کو ایک فیصد کے حساب سے لاگو کرے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نئے ٹیکس نظام کا پانچواں جزو ٹیکس دہندگان کی شناخت کامربوط نظام ہے جس کے تحت ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا اور فراہم شدہ ڈیٹا کے مطابق انکم ٹیکس کی وصولی کی جائے گی، نظام کی جدت سے انکم ٹیکس وصولی میں کرپشن ختم ہو گی اور ہر شخص کے مالیاتی لین دین کے ریکارڈ تک رسائی حاصل ہو گی، اثاثے رکھنے والے ٹیکس نادہندگان سے جواب طلبی ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لوگ دو دو عمرے کرتے ہیں اور ان کے بجلی کے بل لاکھوں میں ہوتے ہیں لیکن وہ انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے، نئے نظام کے تحت مالی سال کے اختتام پر ایسے لوگوں کو نوٹس دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ آپ اپنی آمدنی اور اثاثوں کی بنیاد پر ٹیکس ادا کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جو لوگ ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں آئیں گے انہیں آرڈیننس، جسے بعد میں قانون کا درجہ دیا جائے گا، کے ذریعے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا تاہم جو لوگ سیاست کر رہے ہیں یا جو سرکاری عہدیدار ہیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا، یہ سکیم 30 جون تک جاری رہے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ شناختی کارڈ رکھنے والا ہر پاکستانی شہری اس سکیم سے استفادہ کر سکتا ہے تاہم سیاستدان اور ان کے زیر کفالت افراد کو اس استفادہ کا حق حاصل نہیں ہے، یہ سکیم کسی ایک شخص کے لئے نہیں ہے۔ آف شور کمپنیوں سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ آف شور کمپنی بھی اثاثہ ہے، آف شور کمپنی رکھنا جرم نہیں ہے لیکن اگر آپ نے اثاثے رکھے ہیں تو یہ موقع ہے کہ وہ اسے ڈکلیئر کرے اور اس سکیم سے فائدہ اٹھائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت عوام کی منتخب کردہ جمہوری حکومت ہے، ہمیں قانون سازی کا حق حاصل ہے، ہم آخری منٹ تک کام کریں گے۔ ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ایمنسٹی سکیم کا بنیادی مقصد ٹیکس کے نظام میں بہتری اور ٹیکس کے دائرہ کار کو وسعت دینا ہے، یہ ون ٹائم سکیم ہے، اگر کوئی اس سے استفادہ نہیں کرے گا تو وہ گرفت میں آ جائے گا، ہمارا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی استعداد کے مطابق ٹیکس ادا کریں، یہ ایک دن کا پراسیس نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت کم سے کم 30 لاکھ انکم ٹیکس دہندگان ہونے چاہئیں۔ ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے انتظامی اتھارٹی کے طور پر اپنا حق استعمال کیا ہے، حکومت کی مدت پانچ سال کی ہے اور میرا خیال ہے کہ اس سکیم کی تمام سٹیک ہولڈرز حمایت کریں گے، اگر عدالت میں یہ سکیم چیلنج ہو بھی جاتی ہے تو عدالت فیصلہ کرے گی، تاہم ہمارا بنیادی مقصد پاکستان کی بہتری ہے تاکہ شہری ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالیں